شام کے معاملے پر اسرائیل اور ترکی کے درمیان کشیدگی

روس کے سیاسی تجزیہ کار ایگور سوبوتن نے ماسکو کے اخبار نیزاویسیمایا گزیٹا میں لکھا ہے کہ 'شام میں حکومت کی تبدیلی نے اسرائیل اور ترکی کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔

فاران: العالم کی رپورٹ کے مطابق، انقرہ، جس نے غزہ میں اسرائیل کی جارحیت اور جنگ کی وجہ سے صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے ہیں، اب نہ صرف شام میں تل ابیب کی جاری کارروائیوں سے ناراض ہے، بلکہ شامی کرد فورسز کے ساتھ اپنے تعلقات سے بھی ناراض ہے۔

ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوگان اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ اگر شمال مشرقی شام میں تعینات کرد فورسز کو تل ابیب سے فوجی امداد ملتی ہے تو وہ سب سے پہلے اسرائیلی طیاروں کو مار گرائیں گے۔

واضح رہے کہ ترکی محسوس کرتا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں یعنی شام میں مرکزی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی مضبوط ترین پوزیشن میں ہے۔ دوسری جانب شام میں اس کے قریبی مسلح گروہ برسراقتدار آ چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل شام میں اپنی کارروائیاں روکنے کے لیے تیار نہیں ہے، جیسا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے۔

مضمون کے مصنف نے نشاندہی کی کہ اسرائیلی حکومت کو شام میں اقتدار کی منتقلی کے بعد خطے میں منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں میں ہونے والی تبدیلی پر بھی گہری تشویش ہے۔ اور چونکہ شام کے جنوبی علاقے طویل عرصے سے مصنوعی منشیات کیپٹاگون کی برآمد کے لئے نقطہ آغاز رہے ہیں ، لہذا اس نے شام کی جنگ کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

لہٰذا مشرق وسطیٰ میں خطرے کا بدلتا منظر نامہ اسرائیلی اور اردن کی انٹیلی جنس کے درمیان خفیہ مذاکرات کا ایک موضوع رہا ہے، جو دونوں اسمگلروں کی سرگرمیوں میں ممکنہ اضافے کے بارے میں فکرمند ہیں۔

آن لائن اشاعت “ایگزیوس” کی ویب سائٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ “اردن” “اسرائیل” اور شام کے نئے رہنماؤں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، جس میں “تحریر الشام” گروپ بھی شامل ہے۔