شب و روز کی گردشوں کا تسلسل اور وطن عزیز کے تئیں ہماری ذمہ داریاں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہم جس دنیا کا حصہ ہیں وہاں کسی چیز کو ثبات نہیں ہر ایک چیز حرکت میں ہے وقت کا بے رحم پہیہ مسلسل گھوم رہا ہے اس میں وہی کامیاب ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہوا آگے بڑھے ، جہاں زمانہ مسلسل گردش میں ہے وہیں ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ شب و روز کی گردشوں کا یہ تسلسل ہمارے لئے ایک نعمت ہے کہ ہر چیز بدل رہی ہے زمانے کی گردش غم و خوشی بے چینی و سکون کو اپنے کاندھوں پر مسلسل ڈھو رہی ہے ، یہ شب و روز کی گردش ہمارے لئے ایک بہترین فرصت ہے کہ ہم ایک ہی جگہ منجمد نہ رہیں ، مسلسل حرکت میں رہنے والا زمانہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا اور بتاتا ہے ، ہمارے سامنے ایک ایسا بڑا ظرف رکھتا ہے جس میں ہم ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔
انسان کو سوچنا چاہیے کہ زمانہ تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے وقت کی چکی مسلسل گھوم رہی ہے ایسے میں ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اپنی توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ ایسا کر سکیں کہ زمانہ ہمیں یاد رکھے ، ہم گزرتے ہوئے وقت کو نہیں روک سکتے ہیں لیکن زندگی کے لمحے لمحے کو اپنے عمل سے جاوداں ضرور بنا سکتے ہیں یہ تبھی ہو سکتا ہے ، جب ہم اپنی توانائیوں کو سمجھیں اپنی صلاحیتوں کو صحیح راہ میں استعمال کریں اس قبل پر ہمارے اوپر بڑھاپا طاری ہو اس سے قبل کہ ہماری طاقت جواب دے جائے اس قبل کہ ہم کسی قابل نہ رہیں ضروری ہے کہ کچھ یادگار نقوش اس دنیا کے لئے چھوڑ دیں ۔
کسی بھی یاد گار نقش کے لئے کسی بھی لازوال کردار کو نبھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے دور کو اچھی طرح پہچانتے ہوں اس کی ضرورتوں سے واقف ہوں خیالات کی دنیا سے نکل کر عمل کی دنیا میں آئیں ۔
بہت خوب کہا ہے سعدی نے جسکا مفہوم کچھ یوں ہے ائے جوان اطاعت کی راہ پر آج ہی گامزن ہو جا اس لئے کہ کل یہ جوانی نہیں ہوگی بڑھاپا پھر جوانی میں نہیں بدلے گا۔
آج کا دن گزر گیا تو پھر کل کبھی نہیں آتا ہے جو کچھ بھی ہے اسی سانس سے وابستہ ہے جو ہم دنیا میں لے رہے ہیں
مذکورہ گفتگو کی روشنی میں ہم آج اور کل کے تحت گرتے ہوئے زمانے کے تحت زندگی گزارنے والے لوگوں کو چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
عصر حاضر میں جینے والے چار قسم کے لوگ :
۱۔ وہ لوگ جو آج جی رہے ہیں لیکن اس حیثیت سے کہ اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کو نہیں پہچانتے اور انہوں نے زمانے کے تقاضوں اور اس کی نزاکتوں کو سمجھنے کے لئے خود کو تیار بھی نہیں کیا ہے اس بنا پر آج کے دور میں جیتے ہوئے بھی وہ آج کے نہیں وہ کل ہی کے ہیں بھلے آج کے دور میں جی رہے ہوں یہ لوگ کاروان انسانیت سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
۲۔ وہ لوگ جو آج جی رہے ہیں اور ایسے جی رہے ہیں کہ انہیں زمانے کا بھی پتہ ہے اس کے تغیرات کا بھی پتہ ہے اس کے تقاضوں کا بھی پتہ ہے اپنے زمانے کے ثقافتی حالات بھی انہیں پتہ ہیں اقتصاد و معیشت کی اونچ نیچ کو بھی وہ جانتے ہیں اور وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو ان کے سامنے موجودہ وسائل و امکانات سے بہتر طور پر استفادے کے لئے صرف کر دیتے ہیں یہ لوگ زمانے کے وسائل کو اپنے عروج کے لئے بجا طور پر استعمال کرتے ہیں اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی ہاتھ تھامتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو آج کی دنیا کے کامیاب لوگ ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : یہ لوگ زمانے کی شناخت رکھتے ہیں اور صحیح و بجا قدم اٹھاتے ہیں ان کے قدم کسی جگہ ڈگمگاتے نہیں ہیں
۳۔ ایسے لوگ جو آج ہی کے ہیں لیکن عصر حاضر کی تمام باریکیوں کو اس طرح سمجھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ زمانہ ان کے سامنے سکڑ کر چھوٹا ہو جاتا ہے ان کے کام بڑے ہوتے ہیں اور یہ مختصر سے وقت میں بڑے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے انہیں ہم نابغہ کہتے ہیں یہ آج کی روشنی میں آنے والے کل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یہ مستقبل کی تعمیر میں لازوال کردار ادا کرتے ہیں ۔
۴۔ ایسے لوگ جو آج ہی دنیا میں جیتے ہیں لیکن آج کی دنیا میں قید نہیں ہوتے یہ موجودہ دور کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور گزرے ہوئے لوگوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے آنے والے کل کی بھی اچھی طرح منصوبہ بندی کرتے ہیں یہ گزرے ہوئے کل کی تجربات سے آج کو بھی بہتر بناتے ہیں اور کل کو بھی یہ موجودہ دور میں رہتے ہوئے اس دور کی خصوصیتوں سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور کل کے لئے بھی گہرے نقوش چھوڑ کر جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آج اور کل کے درمیان ایک پل بن جاتے ہیں ایک فرانسسی مفکر کے بقول یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کے قلعے کو توڑ دیتے ہیں ۔
ان چاروں مذکورہ گروہوں میں سب سے بہترین و ممتاز چوتھا گروہ ہے ۔
اب ہمیں دیکھنا ہے ہمارا تعلق کس گروہ سے ہے ہم کس قدر اپنے دور کو اس کی نزاکتوں کو اس کے تقاضوں کو پہچان رہے ہیں۔
ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں کس قدر اس ملک کے حالات سے با خبر ہے ، کس قدر اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگر ملک کی ترقی میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے تو کیوں ؟ اگر ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ہونا چاہیے تو بھی سوال یہ ہے کہ ایک کامل و جامع دین کے ماننے کے باوجود ملک کے مسائل کو حل کرنے میں ہم ناکام کیوں ہیں ؟
خاص طور پر ہمارے جوانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے سماج و معاشرے کی تعمیر میں انکا کردار کیا ہے ؟ ہمارے بہت سے جوان بہت کامیاب ہیں اعلی عہدوں پر ہیں اپنی محنت کے بل پر انکا اچھا بزنس ہے یہ سب کچھ ہے لیکن کتنا فائدہ ان چیزوں کا معاشرے کو مل رہا ہے کتنا ملک کو ؟ ہم سب کو اسکا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہماری ذمہ داری بولتے رہنا یا خاموش رہنا ہے ؟
جو لوگ بھی اپنے زمانے کی ضرورتوں کو پہچانتےہیں وہ یہ بھی جانتےہیں کہ انہیں کب زبان کھولنا ہے اور کب لبوں پر سکوت کا تالاجڑ دینا ہے ، ہم میں سے بعض کی ایک مشکل یہ ہے کہ ہمیں جب بولنا چاہیے تو خاموش رہتے ہیں اور جب خاموش رہنا چاہیے تو زبان کھول دیتے ہیں جس کی بنیاد پر معاشرے میں بحران جنم لیتے ہیں ، کبھی انسان کے لئے ضروری ہے کہ اظہار حق کرے بولے لیکن ہر حق بات ہر ایک جگہ پر بھی نہیں کی جاتی ہے ہمیں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں مختلف تہذیبیں پروان چڑھی ہیں ہمارے وطن عزیز نے ہر ایک تہذیب کو نکھار عطا کیا ہے یہاں کی خاص نزاکتیں ہیں جن کا خیال رکھنا ہم سب پر لازم ہے ، بے ڈھنگے پن سے محض اپنا راگ الاپنا دوسروں کے ہمارے خلاف حساس ہونے سے لیکر متحرک ہونے تک کا سبب بنتا ہے ہر چیز کا ایک انداز ہوتا ہے ایک روش ہوتی ہے بھونڈا پن ہمیشہ نقصان کا سبب رہا ہے افسوس بعض لوگ ایسے ہیں جو معاشرے میں ملک میں اصلاح تو چاہتے ہیں لیکن انہیں اصلاح و تعمیر و تخریب کاری کا فرق ہی پتہ نہیں ہے وہ ہر ایک چیز پر تنقید ہر ایک چیز پر اعتراض کو اصلاح کا نام دیتے ہیں جب کہ اسی سے بسا اوقات فساد لازم آتا ہے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ایسی غیر ضروری بحثوں میں پڑنے کا کیا فائدہ جس سے قوم آپس میں الجھ کر رہ جائے ، آپسی تصادم ہمیشہ انسان کی صلاحیتوں کو مار دیتا ہے ، اب یہ انسان کے اوپر ہے کہ وہ خود دیکھے اور غور کرے کہ اصلاح کے نام پر وہ کیا کر رہا ہے اسکا بظا ہر اصلاحی عمل تعمیر کا ذریعہ ہے یا اس سے تخریب ہو رہی ہے ۔
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ فتور ہے نہیں بولیں گے نہیں کہیں گے لوگوں کو روکیں گے نہیں تو دین برباد ہو جائے گا آگے چل کر بعض چیزیں دین کی شکل اختیار کر لیں گی اللہ نے زبان دی ہے تو ضروری ہے کہ اسے اس کی راہ میں استعمال کیا جائے یہ بات بظاہر بڑی اچھی ہے لیکن حقیقت میں دیکھیں تو ہم متوجہ ہوں گے بعض جگہوں پر اگر نزاکتوں کا خیال نہ رکھا جائے تو بات اور خراب ہو جاتی ہے خاص طو رپر جب دشمن بھی ہماری تاک میں بیٹھا ہو کہ کوئی کمزور سا پوائنٹ ملے تو اسے اچھالا جائے ایسے میں اگر ہم دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے میں لگ جائیں تو یہ نہایت غیر معقول قدم ہوگا ۔ جو بھی دین کا دستور ہے ہمارے سامنے ہیں جو بھی ملک کا آئین ہے ہمارے سامنے ، دین کا دستور ہمیں زندگی گزارنے کی روش دیتا ہے ہمارا آئین ہماری روش زندگی کو تحفظ عطا کرتا ہے ،اب اگر اس ملک میں کوئی سر پھرا اونٹ پٹانگ باتیں کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر بات کا جواب دیا جائے یا کچھ ایسا کیا جائے کہ نفرتوں کے بچاریوں کو موقع ملے ، یا پھر کسی مقام پر رسم و رواج کے پیچھے اس طرح پڑا جائے کہ لوگوں کو لگے یہ دین تو بہت ہی خشک ہے ۔ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے ہم اگر اس ملک میں صبر وتحمل کے ساتھ اپنے حقوق کا قانون کے دائرے میں مطالبہ کریں گے تو شک نہیں ہے کہ ایک نہ ایک دن ہمیں کامیابی ضرور ملے گی بس صبر و ہمت کی ضرورت ہے امید کا دامن ہاتھ نہ جانے دیں ہر ایک دن ایک سا نہیں ہوتا ، انشاء اللہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہمیں وہ سب کچھ ملے گا جس کی ہم نے تمنا کی ہے لیکن اس کے لئے منصوبہ بندی ، درایت و تدبیر اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے ، انسانیت کے لئے کام کرنے کا عزم ، سب کو فائدہ پہچانے کی نیت لیکر چلنے کی ضرورت ہے جب تک ہم ملک میں رہنے والے دیگر باشندوں کے سامنے اپنی اہمیت و افادیت ثابت نہیں کریں گے دشمن ہمارے وجود سے کھیلتا رہے گا ،لہذا ضروری ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ہم فکر و نظر کے میدان میں کچھ ایسا کریں کہ لوگوں کو لگے کہ ہم اس زمین پر بوجھ نہیں بلکہ دوسروں کا بوجھ اٹھانے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں اور یہ محض دکھاوا نہیں ہے ہمارے دین کے تعلیمات ہی یہی ہیں ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام کی زندگی میں ڈھیروں ایسے نمونے مل جائیں گے جہاں نظر آئے گا بغیر کسی لالچ کے بغیر کسی بدلے کی چاہت کے ان ذوات مقدسہ نے انسانیت کی بنیاد پر ہر اس انسان کا ساتھ دیا ہے جسکو ضرورت تھی ۔
یقینا اگر سیرہ پیغمبر ص اور نقوش حیات اہلبیت اطہار علیھم السلام ہمارے پیش نظر ہوں تو ہم بھی تمام تر مشکلات کے باوجود مسلسل آگے بھی بڑھ سکتے ہیں اور اس ملک کا بھی کچھ حق ادا کر سکتے ہیں جس کی آب و ہوا و جسکی مٹی میں ہم پروان چڑھے ہیں ۔
تبصرہ کریں