صہیونیت کیا ہے اور اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ (4)

صہیونیت کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ دوسرا حصہ

سینما کے میدان میں بھی بین الاقوامی صہیونیت اقدار کو مجروح کرکے، اور فحاشی، عریانی، بدعنوانی، تشدد اور پیسہ پرستی کو فروغ دے کر دنیا والوں کو غفلت اور زندگی سے اکتاہٹ کی طرف دھکیل کر اپنے معاشی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

2۔ [سونے gold کے بعد] عالمی رائے عامہ کی سمت دہی کے لئے ذرائع ابلاغ پر تسلط جمانا
انیسویں صدی کے وسط سے، جب صیہونیت نے – نسل پرست، منافع پرست یورپی-امریکی یہودیت پرستی کے مشترکہ دور کے طور پر ابھر کر – ترقی اور توسیع کے میدان میں قدم رکھا، عالمی روابط و مواصلات پر غلبہ پانے جیسے اہداف اس سماجی-سیاسی-مذہبی نظریئے کے رہنماؤں کے ایجنڈے میں شامل ہوئے۔
سنہ 1869ع‍ ربی ریخورن (یا خاخام ریشورن Rabbi Reichhorn) نے پراگ میں گرینڈ ربی (خاخام اعظم) شمعون بن ایہودا کے مقبرے میں اپنے خطاب کرتے کچھ جملے ادا کئے جو 35 سال بعد باقاعدہ طور پر ” ربی ریخورن کے پروٹوکولز” کی صورت میں پر شائع ہوئے۔ ہم ریخورن کے تیسرے پروٹوکول میں پڑھتے ہیں:
“سونا ہمیشہ سے مزاحمت ناپذیر طاقت کے طور پر کردار ادا کرتا رہا ہے جو اگر ماہر ہاتھوں میں ہو تو یہ ہمیشہ اپنے مالکوں کے لئے سب سے زیادہ کارآمد اوزار ہے۔۔۔ سونے سے ہم انتہائی باغی ضمیروں کو خرید سکتے ہیں، تمام اقدار کی قیمت متعین کر سکتے ہیں تمام مصنوعات کی موجودہ قیمتیں طے کر سکتے ہیں،۔۔۔ اس کے بعد ریاستوں کو اپنے رحم و کرم پر رکھ سکتے ہیں”۔ لیکن اس سے زیادہ اہم پانچواں پروٹوکول ہے جس میں بیان کیا گیا ہے: دوسری بڑی طاقت پریس (اور میڈیا) ہے۔ پریس مختلف قسم کے نظریات کو مسلسل دہرا کر آخر کار کامیاب ہوجاتے ہيں کہ یہ نظریات حقیقت کے طور پر مقبول ہوجائیں۔ تھیئٹر بھی یہی کام کرتا ہے اور تھیئٹر اور اخبارات ہر جگہ ہمارے احکامات کی تعمیل کریں گے”۔ (15)
اسی بنا پر، صہیونی تحریک کی ابتداء ہی سے بڑا سرمایہ صرف کرکے اور مسلسل محنت کے ساتھ، خبر رسانی اور ذرائع ابلاغ کے اصلی دھاروں پر قبضے کی کوششوں کا آغاز ہؤا۔
صہیونیوں کی ابلاغیاتی سلطنت کی موجودہ حالت کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف امریکہ – جو کہ دنیا کا ابلاغیاتی اور تشہیراتی مرکز ہے – میں 3% آبادی کے باوجود؛ تقریبا نصف تشہیری و ابلاغی ذرائع صہیونیوں کے ہاتھ میں ہیں۔
کہ دنیا کے میڈیا اور پروپیگنڈہ کے مرکز کے طور پر صرف امریکہ میں یہودی آبادی کے باوجود میڈیا کی تقریباً نصف سہولیات صہیونیوں کو دستیاب ہیں، امریکی ذرائع اور سروے رپورٹوں کے مطابق امریکی ٹی وی چینلوں اور ذرائع ابلاغ پر بھی یہودی مسلط ہیں اور امریکی فلمیں امریکی عوام کے مذہبی عقائد و اقدار کی ترجمانی نہیں کرتیں یا پھر وہ امریکی عوام کے عقائد کو منحرف کرنا چاہتی ہیں۔ فرانس اور جرمنی سمیت یورپی اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک کی صورت حال بھی اسی طرح ہے۔ جیسے مسلمان فرانسیسی دانشور اور فلسفی مرحوم راجر گارودی (Roger Garaudy) نے اپنی کتاب “صہیونیت کا سیاسی افسانہ” میں لکھا ہے کہ “صہیونی اپنے استحکام کے لئے دوسری چیزوں سے کہيں زیادہ ذرائع ابلاغ اور تشہیری اوزاروں کا سہارا لیتے ہیں۔۔۔ دنیا میں نہ تو صہیونیوں کی کوئی جڑ ہے اور نہ ہی وہ کوئی خاص پس منظر اور اصلیت ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے پیسے، سیاسی قوت اور ذرائع ابلاغ کے زور سے امریکہ اور یورپ میں طاقت کے مراکز قائم کئے ہیں”۔
ذرائع ابلاغ پر تسلط سے یہودیوں کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ گمراہ کن روشوں سے استفادہ کرکے اسلام کو ایک “غیر لچکدار تحریک!” اور “تہذیب دشمن” مکتب کے طور پر متعارف کرانا ہے؛ اور یہ جتانا کہ اسلام دنیا کے لئے سنجیدہ خطرہ ہے!۔ (16)
فلم سازی کے شعبے میں بین الاقوامی صہیونی حکمت عملی، محض یہود اور اسرائیل کا کریہ چہرہ حسین دکھانے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس میں وہ فلمیں بھی شامل ہیں جو اسلامی تشخص کو تباہ کرنے اور مسلمانوں کی زندگیوں میں مذہب کے کردار اور دینداری کو کمزور کرنے کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ بنیادی طور پر عالم اسلام میں ہمیں جن ثقافتی چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا ایک حصہ اس صنعت اور فن سے ماخوذ ہے جس کا نتیجہ ایک لاپروا بنانے والی نفسیاتی جنگ ہے جو یہودی اور صہیونی عزائم کی خاطر لڑی جا رہی ہے۔
سینما کے میدان میں بھی بین الاقوامی صہیونیت اقدار کو مجروح کرکے، اور فحاشی، عریانی، بدعنوانی، تشدد اور پیسہ پرستی کو فروغ دے کر دنیا والوں کو غفلت اور زندگی سے اکتاہٹ کی طرف دھکیل کر اپنے معاشی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
وہ انسانی عقائد اور اقدار کی تبدیلی اور قوموں کے مذہبی عقائد کو تباہ اپنا یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ کیونکہ صہیونیت جانتی ہے کہ دوسرے معاشروں کے ثقافتی، قومی اور روحانی عقائد کو بدلے بغیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی۔ یہاں تک کہ آج، ہوس پرسی، پیسہ پرستی اور تشدد کے نشانات خاندانی فلموں اور یہاں تک کہ بچوں کے لئے بننے والی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اہم صہیونی تشہیری منصوبوں میں سے ایک اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں لوگوں کی گفتگو اخلاقی اور تزویراتی دلائل کی عکاسی کرے۔ چنانچہ مختلف صہیونی عناصر اسرائیل کی تزویراتی اقدار پر مسلسل زور دے کر، اس غاصب ریاست کی تاسیس کی کیفیت بیان کرکے، اس ریاست کی یک طرفہ تعریف و تمجید کو دہرا دہرا کر اور سیاسی بحث و تمحیص میں اس ریاست کے اقدامات کا دفاع کرکے لوگوں کو یہ باور کرانے کے لئے کوشاں ہیں کہ “امریکہ اور صہیونی ریاست کے مفادات یکساں ہیں۔
لوگوں کی گفتگو اور ان کی سوچ اور فکر کو اسرائیل کی حمایت کی طرف مائل کرنا صہیونیت کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ اسرائیل کی پالیسیوں (مثال کے طور پر مقبوضہ فلسطین، اسرائیل کی تاریخ اور مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے تعین میں اس کے بنیادی کردار کے) بارے میں کے بارے میں آزاد مباحثہ بڑی آسانی سے امریکہ میں اسرائیل متنازعہ بننے اور اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات کے محدود کرنے کے مطالبے پر منتج ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس ریاست کے اندر اہم عناصر عمومی ذرائع ابلاغ، مشاورتی اداروں اور جامعاتی حلقوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں؛ کیونکہ یہ ادارے رائے عامہ کی تشکیل کے لئے ناگزیر ہیں۔ وہ اسرائیل کو مثبت بنا کر دکھانے، اسرائیل کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو منظر عام سے ہٹانے اور اسرائیل کے ساتھ امریکی تعاون کے فوائد بیان کرنے کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔ گوکہ یہ کوششیں ہمیشہ کامیابی نہیں رہتیں لیکن اسرائیل کے حوالے سے رائے عامہ کی طرز فکر کو مثبت بنانے میں بہت مؤثر ہیں۔ (17)
3۔ مذکورہ اہداف صہیونی پروٹوکولز کی روشنی میں:
1۔ زاروں کے روس کا خاتمہ کرنا؛
2۔ یورپی بادشاہتوں کا خاتمہ کرنا؛
3۔ پوپ کی عملداری کا خاتمہ کرنا؛
4۔ صہیونی بادشاہی کے لئے یورپ کا عبوری دارالحکومت کے طور پر انتخاب کرنا؛
5۔ قوموں اور قبائل کو جانوروں کے طور پر تصور کرنا، جن کی تخلیق صرف اس لئے ہوئی ہے کہ “برگزیدہ قوم [یہود]” ان پر حکومت کرے؛
6۔ داؤدی بادشاہی کے قیام سے پہلے پہلے انسانی تہذیب و تمدن کو نیست و نابود کرنا، اقوام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور معاشروں کو ویراں کرنا؛
7۔ داؤدی-صہیونی بادشاہت قائم ہوگی تو دنیا یہودی حکومت کے پربرکت دور میں قدم رکھے گی اور انسان اس کے سائے میں آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے لگیں گے؛
8۔ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ایک صدی درکار ہوگی اور اس کا آغاز 1897ع‍ ہے؛
9۔ دوسرے مذاہب و ادیان کے مٹ جانے اور داؤدی سلطنت کے قیام کے بعد موسی کا دین دنیا کا واحد مذہب اور یہودی بادشاہ پوری دنیا کا پوپ ہوگا؛
10۔ خفیہ کبالہ اور یہودی فری میسن – دونوں شاخوں کے ساتھ – اس پروگرام یا پروٹوکول کے سب سے اہم انتظامی اور تنفیذی اوزار ہیں۔ فری میسنری کی دو شاخیں ہیں: ایک شاخ کو خفیہ فری میسنری ہے جو صرف یہودیوں پر مشتمل ہے اور دوسری شاخ “فری میسنری” کہلاتی ہے [جو غیر یہودی ہے]؛ مؤخر الذکر شاخ “خفیہ یہودی فری میسنری” کی خدمت میں اجرتی کردار ادا کرتی ہے اور اس شاخ میں شامل لوگوں کا کام یہودی فری میسنری کے فرمان پر، ان تمام لوگوں کا خفیہ قتل اور دہشت گردی کا نشانہ بنانا ہے سپریم [یہودی] فری میسنری کے احکامات کی مخالفت کرتے ہیں؛
11۔ دین موسی (علیہ السلام) میں کچھ گہرے راز پائے جاتے ہیں جن کی فہم و ادراک کی صلاحیت یہودی حکومت کے اراکین میں سے گنتی کے چند لوگوں کے پاس ہوگی!
12۔ معاشرے کو معاشی، سماجی، صحافتی اور اخلاقی لحاظ سے تباہ کرنا، متعدی سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی اور جسمانی بیماریوں کا پھیلاؤ، ایسے منصوبے ہیں جو صہیونیوں کے بزرگوں کے منظور کردہ 24 پروٹوکولز میں تقصیل سے بیان ہوئے ہیں، جن میں بیماریوں کے ٹیکے لگانا، ملکوں میں بغاوتیں کروا کر فری میسنری کٹھ پتلی حکمرانوں کو بر سر اقتدار لانا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ کتنا اچھا ہے کہ قارئین خود بھی غور و فکر کے ساتھ 24 پروٹوکولز کا مطالعہ کریں، اور ہر فقرے اور ان کے استعمال کردہ اوزاروں کا جائزہ لیں اور دیکھ لیں کہ یہودی ان غیر انسانی اور وحشیانہ اوزاروں کے کن مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں؟
13۔ انھوں نے جان بوجھ کر پروٹوکولز کے دو نکات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پہلا “یہودی آزاری” یا “یہود دشمنی” ہے۔ کسی وجہ سے، انھوں نے اس مسئلے کو پروٹوکولز سے ہٹا دیا ہے۔ اور صرف اس نکتے کو کافی سمجھتے ہیں کہ “یہ ان کے مفادات کے لیے ضروری ہے”۔ دوسرا نکتہ “فلسطین” یا ان کی پرانی اور فرسودہ اصطلاح میں “سرزمینِ اسرائیل” ہے۔ اس معاملے پر ان کی خاموشی کی وجہ وہی ہے جو انھوں نے خود پوپ کے دربار کو تباہ کرنے اور یورپ کو اپنا دار الحکومت بنانے کے منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بیان کی ہے اور کہا ہے کہ وہ فی الوقت – یعنی ان پروٹوکولز پر بحث کے وقت – قبل از وقت ہے۔ مقصود آنها از ادیان دیگر «امپراتوری عثمانی» می باشد. سران صهیون در آن سال عملاً کار نفوذ در این امپراتوری را آغاز کرده بود، بنابراین، به نظر این سران رسیدن به فلسطین با آینده این امپراتوری در ارتباط بود و آنها سخت می کوشیدند که این آینده را به تباهی بکشانند۔ اور مسودہ (پروٹوکولز) کی منظوری کے بیس سال بعد، سنہ 1917ع‍ میں، وہ بالفور ڈیکلریشن تک پہنچ گئے۔ (18)

حواشی

15۔ … Rabbi Reichhorn’s Protocols http://truedemocracy[.]net/hj32/28.html
16۔ امریکہ میں صہیونیوں کے زیرتسلط ایک اخبار کا نام “شکاگو سن ٹائمز” (Chicago Sun-Times) ہے جس نے اپنے ایک شمارے میں کمیونزم اور اسلام کا موازنہ کراتے ہوئے لکھا کہ “اسلام کے ساتھ کوئی مفاہمت نہيں ہوسکتی سوائے لوہے اور آگ کی زبان کے”؛ اور مضمون نگار نے مزید لکھا: “چونکہ کمیونزم بنیادی طور پر ایک مغربی سوچ ہے لہذا اس کے ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے مفاہمت اور مشترکہ آراء تک پہنچا جا سکتا ہے، لیکن اسلام کے ساتھ مفاہمت اور مشترکہ رائے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے لہذا اسلام کے ساتھ صرف لوہے اور آگ کی زبان سے بات کی جاسکتی ہے”۔ (https://avapress[.]com/fa/1013//چترهای-شیشه-ای-2-) (شیشے کی چھتریاں)
17۔ جان جے میئر شیمر [فارسی ترجمہ: رضا کامشاد]، گروه فشاراسرائیل وسیاست آمریکا، ج1، ص209۔ (اسرائیلی لابی اور امریکی سیاست)
18۔ عجاج نویہض، پروتکل های دانشوران صهیون: برنامه عمل صهیونیسم جهانی، (صہیونی دانشوروں کے پروٹوکولز: عالمی صیہونیت کا منصوبۂ عمل، فارسی ترجمہ: حمید رضا شیخی)، مطبوعہ مشہد 1387 ہجری شمسی۔