صہیونی تحریک کو درپیش بے لگام ساختیاتی بحران کا ایک جائزہ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: العربی الجدید نے (بدھ 29 جون 2022ع) کو ایک یادداشت کے ضمن میں اسرائیلی ریاست کے سیاسی بحران اور ساڑھے تین سال کے مختصر عرصے میں پانچویں انتخابات کے اعلان کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا کہ صہیونی تحریک کے اندر بے لگام بحران ساختیاتی [Structural] ہیں نہ کہ جماعتی:
تل ابیب کو نئے انتخابات کا انتظار ہے، نفتالی بینیٹ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور وقتی طور پر اس کا وزیر خارجہ یائیر لاپید بن گیا ہے جو انتخابات پر اپنے عہدے پر فائز رہے گا؛ کنیسٹ (پارلیمان) تحلیل ہوچکی ہے اور پانچویں انتخابات کے انعقاد سے بھی یہودی ریاست کے حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آتے۔ چنانچہ یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ صہیونی پراجیکٹ اپنے زوال کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
صہیونی پراجیکٹ ساختیاتی بحران میں مبتلا
العربی الجدید نے “صہیونیت پر مسلط بحران کے بارے میں ہے” کے عنوان کے تحت ایک کالم کے ضمن میں لکھا:
ان دنوں صہیونیت بھی نوآبادیوں کی تعمیر کے استعماری منصوبے کی طرح ساختیاتی بحران اور فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل میدانی تنازعات الجھی ہوئی ہے۔ صہیونیت دائمی ابدی بحران اور مسلسل جنگ جھگڑوں اور ایک مستقل بحران کے اصول پر قائم ہے۔ یہ ان فاتحوں کا بحران ہے جنہوں نے اپنا پراجیکٹ اس سے پہلے مکمل کر لیا تھا اور پرائی سرزمین پر ایک تاریخی قوم کی موجودگی میں ریاست قائم کرکے اسے خطے کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت میں بھی تبدیل کر لیا تھا لیکن اس کے باوجود آس مرحلے میں انہیں فیصلہ کن چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
صہیونی ریاست میں بحران کی شدت، اور فلسطین میں بحران کی شدت کے درمیان الٹا رابطہ پایا جاتا ہے؛ فلسطین میں بحران شدید ہوجائے تو غاصب اسرائیلیوں کو اپنے بحرانوں سے نکلنے کا راستہ مل جاتا ہے اور فلسطین ایک بار پھر سامراجیوں کے کھیل کا میدان بن جاتا ہے اور اگر اسرائیل کو بحران کا سامنا ہو تو مقاومت اور فلسطین کاز کو تقویت پہنچتی ہے۔ یہی قاعدہ عرب دنیا اور اسرائیلی ریاست کے باہمی قیاس کی صورت میں بھی اور کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر بھی صادق ہے۔ لیکن ایک حقیقت بہرصورت، ناقابل انکار ہے کہ تمام تر سازشوں اور مکاریوں کے باوجود – فلسطین کی صورت حال جتنی بھی بری ہو – غاصب ریاست فلسطینی کاز پر غلبہ نہیں پا سکتی، کیونکہ یہی فلسطینی بحران بھی اسرائیل کے اندر اور اس کی ساخت اور وجود کے لئے نت نئے بحرانوں سرچشمہ ہیں۔ اور ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جن میں اسرائیل فکری اشرافیہ کی نئی نسل جنم لیتی ہے اور صہیونی ہر لحاظ سے بدل کر نئے ماحول میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ صورت حال مستقبل کے پیش نظر، پورے صہیونی پراجیکٹ کو متاثر کردیتی ہے۔ اور پھر اس صورت حال میں صہیونی دھاروں کے اندرونی شگاف بھی مل جاتے ہیں۔
اسرائیل کا منظر ظاہر کرتا ہے کہ یہ ریاست ضبط نفس اور اپنے اوپر قابو پانے کی صلاحیت بہت تیزی سے کھو رہی ہے۔ فی الوقت اس ریاست کی حکمرانی کی صلاحت موجود ہے مگر اس صلاحیت کو پوری طرح اپنے اور اپنی یہودی شہریوں کے تحفظ اور مسلمانوں اور باقی فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنے پر خرچ کر رہی ہے، اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس کو اس راہ میں مبینہ جمہوری اداروں یعنی انتظآمیہ، مقننہ اور عدلیہ کی پشت پناہی حاصل ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب وہ ان اداروں کو قائم رکھنے اور تحفظ دینے سے عاجز ہو رہی ہے۔
صہیونی ریاست میں بحران کے جلوے
ہمیں اس سلسلے میں دو اہم جلوے یا دو قسم کے اظہارات (Manifestation) دکھائی دیتے ہیں؛ پہلے جلوے کا براہ راست تعلق فلسطین کاز اور بحران سے نکلنے اور عہدہ برآ ہونے سے صہیونی پراجیکٹ کی بے بسی، سے ہے۔ دوسرا جلوہ – جو خاص قسم کی جہتوں اور پہلؤوں سے پہلے جلوے سے جڑا ہؤا ہے وہ یہ ہے کہ اس ریاست کے روک تھام کے نظامات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں؛ یہ ریاست مختلف اداروں کے اہلکاروں کے درمیان توازن برقرار کرنے سے عاجز ہو چکی ہے، اور “مطلق تباہی کے دہانے” کی طرف پھسل گئی ہے۔ جیسا کہ تالیا ساسن (Talia Sasson) نے (2005ع) میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں اپنی رپورٹ میں بھی کہا ہے اور ایک سنجیدہ سوال اٹھایا ہے کہ “کیا یہودی بستیوں (نوآبادیوں) کی تعمیر میں کامیابی اسرائیلی جمہوریت کے خاتمے کے مترادف ہے اور کیا اسرائیل – فلسطین تنازع کی بھول بھلیوں میں سپریم کورٹ کا کردار مسخ ہو چکا ہے؟”
جبکہ بیت المقدس میں واقع ہیبریو یونیورسٹی کے صہیونی پروفیسر یحزقل ڈرور (Yehezkel Dror) کا خیال ہے کہ اسرائیل میں قیادت کا کلچر بحران کا شکار ہے، اور اپنی ایک کتاب کے عنوان میں لکھا ہے، “ہمیں قائد کی ضرورت ہے” اور متعدد مضامین میں اس مسئلے پر بحث کر چکے ہیں۔
اس بات کا گواہ ان صہیونی فوجی کمانڈروں اور سیکورٹی افسروں کا عام موقف بھی ہے جو وہ اپنی باقاعدہ ملازمت کے بعد اختیار کرتے ہیں۔ ان بیانات کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے اندر چھپے بحران کی نوعیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “حقیقی خطرہ” اور حتیٰ کہ “وجودی خطرہ”، “ایران کی طرف سے نہیں” اور نہ ہی “غیر ملکی دشمنوں” کی طرف سے ہے بلکہ یہ خطرہ اندرونی ہے جو دو سرچشموں سے جنم لیتا ہے ہے، ان میں سے ایک مسئلۂ فلسطین اور صہیونی پراجیکٹ کو درپیش آبادیاتی اور سلامتی حوالے سے درپیش مسائل سے جنم لینے والے خطرات سے عبارت ہے۔ لیکن اس منصوبے کو درپیش ایک اہم تشویش اسرائیل کی اندرونی قوت مدافعت کے خاتمے کا امکان اور بہت سے بنیادی مسائل اور بین الصہیونی متفقہ معیاروں پر صہیونی دھاروں کا باہمی تصادم اور تنازع ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین بیانات موساد کے سابق سربراہ “تامر پاردو” (Tamir Pardo) کی طرف پلٹتے ہیں۔
صہیونیت کو درپیش بے لگام بحران اور اس بحران کا فائدہ اٹھانے میں فلسطینیوں کی غفلت
مجموعی طور پر ایسی کوئی بھی حکمت عملی نہیں ہے جس کو صہیونی تحریک نے مسئلۂ فلسطین کو یکسر مٹانے اور فلسطینیوں کا قومی، نسلی اور مذہبی صفایا کرنے کی غرض سے بروئے کار نہ لایا ہو۔ لیکن اس مقصد میں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور اس مسئلے کو حل بھی نہیں کر سکی ہے۔ لیکن آج تک کوئی بھی فلسطینی اور عربی فریق ایسا نہیں رہا جس نے صہیونیت کو درپیش اس بحران سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کو فلسطین اور عربوں کے لئے ایک تزویراتی موقع (Strategic opportunity) میں تبدیل کر دے۔
مثال کے طور پر اگر ہم سنہ 2018ع میں کنیسٹ کے منظور کردہ “یہودی قومی ریاست” کا قانون (“Jewish nation-state” law) اور اس پرصہیونیوں کے اصرار پر بات کرنا چاہیں تو بالکل آشکار ہو جائے گا کہ یہ قانون نہ تو صہیونی پراجیکٹ کو تقویت پہنچاتا ہے، نہ یہ اسرائیل کی طاقت کا ثبوت ہے اور نہ ہی “قوم پرستی کی مامُونیت” (Immunity of Nationalism) ہے بلکہ یہ در حقیقت ایک ضعف اور کمزوری کی کیفیت کا اظہار ہے، لیکن فلسطینیوں اور باقی عربوں نے صہیونی ریاست کو بے نقاب کرنے اور اس ریاست کے قانونی جواز کے متنازعہ ہونے کے اظہار کے لئے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ حالانکہ یہ قانون صرف فلسطینیوں کے خلاف نہ تھا بلکہ اس نے صہیونی ریاست کی اندرونی لبرل قوتوں کو بھی دیوار سے لگایا؛ اور اسی اثناء میں یہ بے لگام نسل پرستی کا بھی باعث بنا؛ گوکہ یہ قانون صہیونی نسل پرستی کے طویل المدت طوفان بدتمیزی کی علت تامہ (Complete OR Perfect Cause) نہیں ہے بلکہ یہ قانون تو صہیونی معاشرے پر مسلط کیفیت کی ایک مختصر سی عکاسی ہے۔
سنہ 2021ع میں مقبوضہ فلسطین – اور بطور خاص 1948ع میں یہودیوں کے زیر قبضہ جانے والی سرزمینوں – میں عجیب افراتفری کی کیفیت حکم فرما رہی جس سے بحران کے عروج کا پتہ ملتا ہے۔ اور اس بحران کا ایک سبب خفیہ حکومت اور صیہونی-مذہبی نوآبادیات سازی” کے نئے منصوبے نیز اس سوچ کے درمیان حل نہ ہونے تشدد آمیز تنازعات ہیں جو اس نے اسرائیل میں زندگی کے تمام شعبوں میں ڈال دیا ہے۔
ادھر لبرل صہیونی اور مابعد صہیونی (Post-Zioinist) دھڑوں کے درمیان کشمکش بھی بہت اہمیت رکھتی ہے؛ جن میں سے ہر ایک اپنے نظریئے کو غاصب نظام کے غالب نظریئے کے طور پر متعارف کرانے کے لئے کوشاں ہے، اور یہ دھڑے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے غاصب ریاست کے لبرل اور جمہوری ڈھانچے کو منہدم کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔
چنانچہ کہا جا سکتا ہے موجودہ اشرافیہ کی بغاوت کو 1977ع کی بعد دوسری بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے۔ جبکہ تشدد پسند نوآبادکار یہودیوں کی مذہبی تحریک، اپنے آپ کو صہونیت کا ہراول دستہ دستے کے طور پر متعارف کرانا چاہتی ہے اور وہ حکومت کو اپنے اہداف، نقطہ نظر اور نظریئے کی خدمت، فروغ اور تحفظ کا اوزار سمجھتی ہے۔
اس وقت حریدی یہودی (Haredi Judaism) دھڑوں اور مذہبی صہیونی دھڑوں کے درمیان شدید قسم کی چپقلشیں اور تضادات پائے جاتے ہیں۔ بینیٹ – لاپید کی ایک سالہ حکومت کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران اتحاد کے اندر اور باہر کی صہیونی جماعتیں باہمی اختلافات کے باوجود روشوں اور رویوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتی تھیں، چنانچہ فلسطین کا مسئلہ ایجنڈے سے نکال باہر کرنا، سیاسی اتحادوں کو مضبوط کرنے کی لازمی شرط ہے۔ چنانچہ دائیں بازو کی انتہا پسند یہودی-صہیونی جماعت – ایک عرب جماعت “متحدہ عرب لسٹ” (UAL = رعام Raam) جو اسلامی تحریک کی جنوبی شاخ کا ذیلی سیاسی ونگ ہے – کو اپنے اتحاد میں شامل کیا، چاہے اس اتحاد کا راہنما لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھتا ہو چاہے یمینیا پارٹی سے۔
اس بنیاد پر، حکمران اتحاد کی طرف کے “تعطل شکنی کے اس راستے” نے دائیں بازو کے صہیونیوں کے ایک گہرے بحران سے دوچار کردیا اور “دشمن” دھڑوں میں تنازعات اور دھڑے بندیاں شدیدتر ہو گئیں۔ ایسے حال میں کہ لیکوڈ جماعت – اسرائیل کے دائیں بازوں کے مرکزی دھڑے کے طور پر – “حریدی” جماعتوں کے ساتھ متحد ہے، اس جماعت اور صہیونی مذہبی تحریک کے درمیان شدید تناؤ اور اختلاف پایا جاتا ہے جو [سیاسی] جنگ میں بدل سکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں یہ جماعت سیاسی مںظر سے غائب بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس تناؤ کے انجام کے بارے میں کچھ کہنا ہنوز قبل از وقت ہے۔
نتیجہ یہ کہ صہیونی تحریک کو درپیش بحران ایک ساختیاتی بحران ہے جو سیاسی-جماعتی بحران سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور لگتا ہے کہ یہ بحران مزید شدت پا جائے گا اور مزید گہرا ہو جائے گا، کیونکہ اس بحران و تعطل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ گو کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو فلسطین کاز، غاصب اسرائیلی ریاست کی اصل حقیقت [اور نوعیت] نیز صہیونیوں کے باہمی تنازعات اور چپقلشوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اور فلسطینی عوام اس بحران کو شدید تر کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ متحدہ عرب لسٹ (UAL) جسے عام طور پر اس کے عبرانی مخفف رعام (Raam) سے جانا جاتا ہے، مقبوضہ فلسطین میں قائم یہودی ریاست کی ایک عرب سیاسی جماعت ہے جو اسلامی تحریک کی جنوبی شاخ کا ذیلی سیاسی ونگ ہے۔
تبصرہ کریں