صہیونی ریاست اور یمن کامہلک دلدل

یمنی ذرائع اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یمن ماضی کی جنگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے گا، چاہے آئندہ مرحلہ کتنا ہی پیچیدہ اور مشکل کیوں نہ ہو، اور اسرائیل کے ساتھ اس تصادم میں اپنی حکمت عملی کو مزید مؤثر بنائے گا۔

فاران: صنعا کا کہنا ہے کہ تل ابیب کی جانب سے یمن کے خلاف جنگ کے باضابطہ اعلان کے بعد، ہم اسرائیل کے خلاف یمنی طرز اور مکمل طور پر مختلف انداز میں جنگ کریں گے۔

گروپ فارس پلس: یمن کی تحریک انصار اللہ کے رہنما سید عبدالملک الحوثی نے انکشاف کیا ہے کہ “یمن کے دو میزائلوں میں سے ایک جو اسرائیلی وزارتِ امن و تحفظ کی طرف داغا گیا تھا، اسرائیلی جنگی طیاروں کے یمن میں بمباری کے لیے پرواز کے ساتھ ہی فائر کیا گیا۔ اس حملے نے اسرائیل کے اندر شدید تشویش پیدا کر دی، جس کی وجہ سے وہ اپنی جارحیت کو مکمل کرنے سے باز رہا۔”
یہ یمن کے اہداف کی معیار میں اہم تبدیلی اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کے لیے یمنی فوج اور مسلح افواج کی بڑھتی ہوئی تیاری کا حصہ ہے، جو اسرائیلی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے سے شروع ہوئی ہے۔

صہیونی ریاست اور یمن کا مہلک دلدل

صنعا کا کہنا ہے کہ تل ابیب کی جانب سے یمن کے خلاف باضابطہ جنگ کے اعلان کے بعد، ہم صہیونی ریاست کے خلاف یمنی طرز اور مکمل طور پر منفرد انداز میں جنگ کریں گے۔
انصار اللہ کے رہنما نے مزید کہا، “دشمن نے الحدیدہ کی بندرگاہوں اور صنعا کے دو بجلی گھروں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 9 شہری شہید ہوئے۔” لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “یہ حملے غزہ کی حمایت کے پانچویں مرحلے کے منصوبوں پر کوئی اثر نہیں ڈال سکیں گے۔”
الحوثی کے مطابق، یمن کی فوج اور مسلح افواج نے غزہ کی حمایت کے آپریشن کے آغاز سے اب تک 1147 بیلسٹک اور ونگڈ میزائل اور ڈرون فائر کیے ہیں اور اسرائیل سے منسلک 211 جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے بحیرہ احمر، باب المندب کے راستے اور بحیرہ عرب میں اسرائیلی جہازرانی کو روک دیا ہے۔
یہ یمن اور اسرائیل کے درمیان تصادم کی نوعیت میں ایک نیا سنگِ میل اور اہم مرحلہ ہے۔
اس حوالے سے تل ابیب نے گذشتہ مرحلے میں یمنیوں کو کسی بھی طریقے سے، چاہے وہ وعدے ہوں، دھمکیاں ہوں یا بمباری اور محاصرے کو سخت کرنا ہو، اپنی پوزیشن بدلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اسرائیل کی یہ حکمت عملی ناکام ہو گئی۔ اب یمنی قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطلب یمن میں جنگ کا خاتمہ نہیں ہوگا۔
امریکہ، جو ابتدا میں تل ابیب کو یمن کے محاذ میں مداخلت سے روک رہا تھا اور سمجھتا تھا کہ یمن کی حمایت کا محاذ اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ نہیں ہوگا، اب خود حیرت زدہ ہے۔ امریکہ کی غلط تخمینوں کے سبب اسرائیل بھی اس محاذ کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یمنیوں نے امریکی اور اسرائیلی توقعات کے بالکل برعکس ثابت کر دیا ہے۔
اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور یمن کے درمیان متوقع تصادم کا اگلا مرحلہ اب تشکیل پا رہا ہے۔ اس دوران اسرائیل کی حالیہ حملوں نے، جن میں الصلیف اور الحدیدہ کی بندرگاہوں پر 8 بار، رأس عیسی کی آئل ریفائنری پر 2 بار، اور صنعا کے جنوب و شمال میں حزیز اور ذهبان کے پاور اسٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا، یہ واضح کر دیا ہے کہ شہری تنصیبات اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں رہیں گی۔

یہی نکتہ اسرائیلی فوج کے ترجمان دانیال ہاگاری نے بھی کھلے لفظوں میں تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کی فضائیہ نے یمن پر چند ہفتوں تک جاری رہنے والے حملوں کی منصوبہ بندی کی ہے، اور ان حملوں میں اسرائیل کے درجنوں جنگی طیارے حصہ لیں گے۔
وب سائٹ “اکسیوس” نے ایک اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے، جسے مستند اور باخبر قرار دیا گیا ہے، بتایا کہ “اسرائیل نے یمن پر حالیہ حملہ کسی اور وقت کے لیے طے کیا تھا، لیکن یمن کی فوج کی بیلسٹک حملوں نے مجبور کر دیا کہ یہ کارروائی مقررہ وقت سے پہلے انجام دی جائے۔”
اسرائیلی ذرائع نے کہا ہے کہ یمنیوں نے غزہ کی جنگ کے 14 مہینوں کے دوران اسرائیل کے خلاف سیکڑوں میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی فضائی دفاعی نظام نے یمن کے میزائل کو اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک کر تباہ کر دیا، لیکن عبرانی زبان کے اخبار یدیعوت آحارانوت نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فضائی دفاع نے غلطی سے اپنا ہی میزائل تباہ کر دیا، جو آئرن ڈوم کے ذریعے داغا گیا تھا۔

اخبار مزید لکھتا ہے: “اسرائیلی فضائی دفاع نے جس میزائل کو تباہ کیا، وہ ایک اسکول پر گرا جو صہیونی بستی رامات گان میں تل ابیب کے قریب واقع ہے، اور اس سے اسکول کو شدید نقصان پہنچا۔ اس نقصان کی شدت اس قدر تھی کہ رامات گان کے بستی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ اسکول کو مکمل طور پر منہدم کر کے دوبارہ تعمیر کرنا ہوگا، کیونکہ اس کی مرمت ممکن نہیں ہے۔”
یہ بڑھتی ہوئی کشیدگی، جو ایک طرف اسرائیل کی جانب سے غزہ کی جنگ کو ختم نہ کرنے کی عدم خواہش کی وجہ سے ہے، اور دوسری طرف امریکہ کی اپنی یمن میں خراب ہونے والی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوششوں، خاص طور پر یمنی آبی گزرگاہوں کو دوبارہ کھولنے میں ناکامی کے پس منظر میں ہے، ایک سخت اور پیچیدہ مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔

اس مرحلے میں، دونوں فریق—یمنی اور امریکی-اسرائیلی—ایک دوسرے پر ایسے نئے اصول مسلط کرنے کی کوشش کریں گے جو موجودہ مرحلے اور اس کے غالب توازن کو دوبارہ قائم نہ ہونے دیں۔ باخبر یمنی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یمن کے خلاف رسمی جنگ کے اعلان کے بعد، یمن اس معاملے میں اسرائیل سے مختلف اور اپنے مخصوص یمنی انداز میں پیش آئے گا، جیسا کہ اسرائیل نے شام میں کیا۔
اس حکمت عملی کے تحت، پہلا اور سب سے اہم اصول یہ ہوگا کہ یمن کی جانب سے بحیرہ احمر، باب المندب کے تنگے، اور بحیرہ عرب میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کی شرط غزہ میں جنگ کے خاتمے سے منسلک ہوگی۔
یمنی ذرائع اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یمن ماضی کی جنگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے گا، چاہے آئندہ مرحلہ کتنا ہی پیچیدہ اور مشکل کیوں نہ ہو، اور اسرائیل کے ساتھ اس تصادم میں اپنی حکمت عملی کو مزید مؤثر بنائے گا۔

منبع: https://farsnews.ir/zafarani/1734788355602165864