صہیونی ریاست مغربی کنارے میں مزاحمت کی صلاحیتوں کو دیکھ حیران

مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیاں اور ان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت نے صہیونی  حلقوں کو شدید حیرت میں ڈال دیا ہے۔

فاران: مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیاں اور ان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت نے صہیونی  حلقوں کو شدید حیرت میں ڈال دیا ہے۔

فارس پلس گروپ: جیسے ہی غزہ کی جنگ ختم ہوئی، صہیونی ریاست  نے اپنی سیاسی اور عسکری توجہ مغربی کنارے پر مرکوز کر دی اور وہاں اپنی سیکیورٹی اور فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا۔ اس کے ساتھ ہی، صہیونی ریاست نے مغربی کنارے میں سخت ترین دباؤ ڈالتے ہوئے “آہنی دیوار” نامی آپریشن کا آغاز کیا، مگر یہ کام بڑھتی ہوئی مزاحمتی صلاحیتوں کو اپنی حکمتِ عملی سے ناکام نہ کر سکا۔

صہیونی  اعداد و شمار کے مطابق، مغربی کنارے میں مزاحمت اور مسلح کارروائیاں 2024 میں کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مزاحمت نہ صرف طاقتور ہوئی ہے بلکہ اس کی مسلح کارروائیاں بھی نمایاں طور پر بڑھ چکی ہیں۔

عبرانی ذرائع کے مطابق، گزشتہ سال مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتوں نے 231 بڑی مسلح کارروائیاں کیں، جن میں 45 صیہونی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1,040 حملے—جن کی یومیہ اوسط 2 سے 3 تھی—روکنے میں کامیابی حاصل کی، جو مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

ان اعترافات کے ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ کارروائیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ مجاہدین کی مہارت اور تربیت کا معیار بھی بلند ہو چکا ہے۔ یہ چیز ان کارروائیوں کی ویڈیوز اور کلپس میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے مجاہدین گاڑیوں سے اتر کر اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کرتے ہیں اور پھر انتہائی تیزی سے موقع سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی جنگی مہارتیں اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں کس قدر پختہ ہو چکی ہیں۔

اسی وجہ سے، صیہونی فوجی اور سیکیورٹی تخمینے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ 2025 مغربی کنارے میں ایک اہم اور خطرناک موڑ ہوگا۔

ایک اعلیٰ سطحی صیہونی سیکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے:

“مغربی کنارے میں سب کچھ تباہ ہونے والا ہے، اسی لیے ہمیں فوری طور پر اس کے مکمل قبضے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ فوج کی تعیناتی میں اضافہ اور جدید ٹیکنالوجی کے نظاموں کو مختلف علاقوں میں نصب کرنا ضروری ہے تاکہ مزاحمتی جنگجوؤں کے داخلے کو روکا جا سکے اور مغربی کنارے کو ایک بڑے میدان جنگ میں تبدیل ہونے سے بچایا جا سکے۔”

اب سوال یہ ہے:

 مزاحمتی قوتوں کی ترقی اور پیش رفت کے تفصیلی پہلو کیا ہیں، اور اس کا صیہونی ریاست پر سیاسی و عسکری اثر کیا ہوگا؟

طاقت کے عناصر کو مضبوط کرنا اور کمزوریوں کو دور کرنا

مغربی کنارے میں مزاحمت کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ، طاقت کے نکات کے مؤثر استعمال، شکستوں سے سبق سیکھنے اور کمزوریوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کے ذریعے ممکن ہوا، جو درج ذیل نکات میں واضح ہے:

آپریشنز کے معیار میں بہتری

مغربی کنارے میں ہونے والی کارروائیوں اور ان کے نفاذ کا معیار نمایاں طور پر بہتر ہوا ہے۔ اگرچہ اب بھی مزاحمت کے پاس ابتدائی اور سادہ ہتھیار اور بم موجود ہیں، لیکن انہیں معمولی ہتھیاروں سے مزاحمتی فورسز نے اسرائیلی فوجی بکتر بند گاڑیوں اور یہودی آبادکاروں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے، جس سے صیہونی ریاست کی پریشانی دوگنی ہو گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج کو فوراً بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنا پڑا تاکہ فلسطینی مہاجر کیمپوں اور مغربی کنارے کے شہروں میں مزاحمتی قوتوں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

معلوماتی ڈیٹا بیس کی عدم موجودگی

صیہونی ریاست کے پاس مغربی کنارے میں مزاحمتی سرگرمیوں کے پھیلاؤ اور اس کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں کوئی جامع سیکیورٹی معلومات نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ بارہا بموں کو دریافت اور ناکارہ بنانے کے آپریشن انجام دے چکے ہیں،  اس کے باوجود ایسے بم دھماکے ہوتے رہے ہیں جن کا ہدف اسرائیلی فوجی رہے ہیں۔

یہ صورتحال مغربی کنارے میں سیکیورٹی بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت اب بھی ضروری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، خاص طور پر اردن کی سرحدوں کے ذریعے۔

مزاحمتی کارروائیوں کا اسیروں کی رہائی کے ساتھ امتزاج

مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیوں میں شدت فلسطینی اسیران کی رہائی کے ساتھ ساتھ سامنے آئی، جو کہ حماس اور صیہونی ریاست کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا حصہ تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ مغربی کنارے میں مزاحمت کی آگ مزید بھڑک اٹھی ہے، جو کہ اسرائیل کے لیے ایک انتہائی خطرناک پیش رفت ہے، خاص طور پر 23 اکتوبر 2023 کو “طوفان الاقصی” آپریشن اور غزہ جنگ کے بعد۔

مغربی کنارے پر کنٹرول کی مشکلات

صیہونی ریاست کے لیے مغربی کنارے پر کنٹرول قائم رکھنا ایک انتہائی مشکل چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ اس علاقے میں 3 ملین فلسطینی اور 500 ہزار صیہونی آبادکار ایک ساتھ رہائش پذیر ہیں، جس کی وجہ سے یہ ایک پیچیدہ اور سخت ترین محاذ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اسرائیلی فوج کو اپنی فورسز کو مضبوط کرنے کے لیے 7 بٹالینز پر مشتمل ایک لشکر تعینات کرنا پڑا ہے، خاص طور پر چیک پوسٹوں پر، تاکہ فلسطینی مزاحمت کی کارروائیوں اور بم دھماکوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
“آہنی دیوار” آپریشن اور فوجی اقدامات
یہ قابلِ ذکر ہے کہ صیہونی فوج کا مغربی کنارے میں “آہنی دیوار” نامی آپریشن نہ صرف براہ راست فوجی حملوں تک محدود ہے بلکہ اس میں انجینئرنگ فورسز کے ذریعے مختلف علاقوں میں عمارتوں اور بنیادی ڈھانچوں کی تباہی بھی شامل ہے۔
اسی تناظر میں، صیہونی وزیر جنگ اسرائیل کاتز نے حکم دیا ہے کہ فوجی آپریشن کو مزید علاقوں تک بڑھایا جائے، جن میں جنین، طوباس، طمون، طولکرم، قباطیہ اور نور شمس شامل ہیں، تاکہ ایک “شرقی محاذ” کے قیام کو روکا جا سکے۔ اس کا مقصد مغربی کنارے کی مزاحمت کو اسرائیلی بستیوں، رابطہ لائنوں اور اسرائیل کے بڑے آبادیاتی مراکز کے لیے خطرہ بننے سے باز رکھنا ہے۔
فوجی کارروائیاں اور مزید تعیناتیاں
اس آپریشن کے دوران، درجنوں مزاحمتی جنگجوؤں کو قتل یا گرفتار کیا گیا، ان کے ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد ضبط کر لیے گئے، اور کئی عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مغربی کنارے میں شاہراہوں اور آبادیوں کو محفوظ بنانے کے لیے خصوصی فورسز اور جنگی یونٹس کو بھی تعینات کر دیا گیا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی حکام اس خطے میں درپیش خطرات کو کتنا سنگین تصور کر رہے ہیں۔
خودمختار فلسطینی اتھارٹی کی کمزوری
جبکہ مغربی کنارے میں ایسے اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں جو غزہ کی پٹی میں ہونے والی پیش رفت سے کسی طرح کم نہیں، خودمختار فلسطینی اتھارٹی کی کمزوری تقریباً ہر پہلو میں واضح ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے صیہونی ریاست میں خدشات دوگنا ہو گئے ہیں۔
فی الوقت، صیہونی ریاست کی سیکیورٹی ایجنسیاں شدید پریشان ہیں کہ کہیں خودمختار فلسطینی اتھارٹی کی کمزوری، مزاحمتی قوتوں کی مزید تقویت اور مغربی کنارے میں ان کے سیاسی و عسکری تسلط کا باعث نہ بن جائے۔
چونکہ اسرائیل کی جانب سے اختیار کردہ پالیسیوں نے خودمختار فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کر دیا ہے اور مغربی کنارے کے کئی علاقوں پر اس کا کنٹرول کمزور ہو چکا ہے، لہٰذا اس کی تقویت صیہونی ریاست کے لیے مزاحمت کی کارروائیوں کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، اگر خودمختار فلسطینی اتھارٹی مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے، تو اسرائیل کو مغربی کنارے میں سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی تعینات کرنا ہوں گے۔
مزاحمت کے خلاف صہیونی ریاست  اور خودمختار فلسطینی اتھارٹی کا سیکیورٹی تعاون
حالیہ مزاحمتی کارروائیوں کے نتیجے میں، صیہونی ریاست اور خودمختار فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سیکیورٹی تعاون بڑھا ہے تاکہ مزاحمتی حملوں کو روکا جا سکے۔ تاہم، اسرائیلی حکام کا ماننا ہے کہ دیہاتوں اور مہاجر کیمپوں پر بڑے اور مسلسل حملے، شدید سیکیورٹی کریک ڈاؤن کے باوجود مزاحمت اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی تحریک کو نہیں روک سکتے۔
دائیں بازو کی صہیونی حکومت کے عزائم اور فلسطینیوں کی مزاحمت
اس کے علاوہ، نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کے وزراء کی طرف سے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے اور انہیں جبری طور پر بےدخل کرنے کی تجاویز یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مزاحمت کا دائرہ پورے 3 ملین فلسطینیوں تک پھیل چکا ہے۔
یہ صورتحال صہیونی ریاست کے خدشات کو مزید نمایاں کرتی ہے، حالانکہ خودمختار فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اس کے سیکیورٹی تعلقات موجود ہیں۔ اس کا عملی اظہار جنین مہاجر کیمپ میں ہونے والی مزاحمتی کارروائیوں میں ہوا، جہاں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پورا کیمپ ہی مزاحمتی جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔
صیہونی ریاست کے لیے مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے مزاحمتی خطرات
چونکہ صیہونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی مزاحمت کے خطرے سے دوچار ہے، اس لیے اسے مسلسل مزاحمتی کارروائیوں اور بم دھماکوں کو ناکام بنانے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔
یہی صورتحال اسرائیلی فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے، کیونکہ اسرائیل میں سبھی جانتے ہیں کہ فوج کی مستقل موجودگی کامیابی کی علامت نہیں ہے، اور اس سے صیہونی آبادکار مزاحمتی کارروائیوں اور حملوں سے محفوظ نہیں ہو سکتے۔
نسل کشی کا غزہ سے مغربی کنارے میں منتقل ہونا

اگرچہ صہیونی حکومت کھل کر اس کا اعتراف نہیں کرتی، لیکن مغربی کنارے میں ہونے والی پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ 2002 میں آپریشن ڈیفنس شیلڈ کے بعد یہ صیہونی ریاست کی سب سے بڑی فوجی کارروائی ہے۔ اس دوران، اسرائیل وہی جنگی حکمت عملی اپنا رہا ہے جو اس نے غزہ میں استعمال کی، بشمول گھروں کی منظم تباہی۔
فوجی آپریشن کے اہداف
اسرائیلی فوج کا یہ آپریشن فی الحال مغربی کنارے کے تین شمالی علاقوں میں جاری ہے:
جنین مہاجر کیمپ
طولکرم مہاجر کیمپ
طمون اور طوباس (جو وادی اردن کے قریب واقع ہیں)
یہ واضح ہو چکا ہے کہ اس آپریشن میں شامل اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 2002 کے آپریشن ڈیفنس شیلڈ میں استعمال ہونے والی فوجی قوت کے برابر ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مغربی کنارے کی صورتحال واقعی کسی بھی وقت دھماکہ خیز رخ اختیار کر سکتی ہے۔
غزہ جیسے حملوں کی یاد تازہ کرنا
جنین شہر میں بیک وقت 10 سے زائد عمارتوں پر بمباری اور ان کی تباہی نے وہی مناظر تازہ کر دیے جو غزہ کی پٹی میں بمباری کے دوران دیکھنے کو ملے تھے۔
اسی طرح، صیہونی فوج کے جنگی طیاروں کی جنین، طولکرم اور طمون پر حملے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست مغربی کنارے میں بھی غزہ کی طرز پر فلسطینیوں کی نسل کشی دہرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انسانی وسائل، جنگی سازوسامان اور اسلحہ
حالیہ ہفتوں میں جنین میں مزاحمتی فورسز اور خودمختار فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مغربی کنارے میں مزاحمت کے پاس جدید ہتھیار اور جنگی سازوسامان موجود ہیں، جن میں اسنائپر رائفلز اور آر پی جی میزائل بھی شامل ہیں۔
یہ صورتحال اسرائیلی ریاست کے لیے شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، کیونکہ وہ اب تک مزاحمت کے پاس موجود اسلحے کی مقدار اور نوعیت کا واضح اندازہ نہیں لگا سکی۔ اس نامعلوم صورتحال کے باعث مزاحمتی قوتیں نہ صرف صیہونی بستیوں بلکہ پوری اسرائیلی ریاست کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہیں۔
اس کے نتیجے میں، اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اپنا ایک اہم ترین ہدف قرار دیا ہے۔
اسلحے اور راکٹوں کی اسمگلنگ – اسرائیل کے لیے نیا چیلنج
اسرائیلی حکام کے لیے ایک اور بڑا چیلنج مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر اسلحے اور دھماکہ خیز مواد کی اسمگلنگ ہے، جو وہاں مزاحمت کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔
یہ مسئلہ راکٹ حملوں تک بھی پھیل چکا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران، صیہونی بستیوں پر مغربی کنارے سے راکٹ داغے گئے ہیں۔ اور یہ حملے صرف روایتی اور ابتدائی نوعیت کے راکٹوں تک محدود نہیں رہے۔
غزہ جیسی میزائل صلاحیتیں – اسرائیل کی نئی پریشانی
مغربی کنارے میں مزاحمت کی میزائل صلاحیتیں اب کافی حد تک غزہ کی مزاحمتی تنظیموں جیسی ہو چکی ہیں، جس نے اسرائیلی ریاست کو شدید پریشان کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اردن کی سرحد پر اپنی سیکیورٹی سخت کر دی ہے، اس خدشے کے تحت کہ یہ راکٹ اردن سے مغربی کنارے میں اسمگل کیے جا رہے ہیں۔
نوجوان فلسطینیوں کی مزاحمت میں شمولیت – اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ
اسرائیلی تجزیہ کاروں کے مطابق، مغربی کنارے میں نوجوان فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں مزاحمت میں شمولیت اسرائیل کے لیے ایک سنگین خطرہ اور فلسطینی مزاحمت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔
یہ رجحان مغربی کنارے کو ایک بھرپور جنگی میدان اور اسرائیل کے لیے ایک نیا محاذ بنا سکتا ہے، جو صیہونی ریاست کو ایک اور بڑے بحران میں مبتلا کر دے گا۔

اسرائیل اکیلے حملوں کے خطرے اور منظم گروہوں کے بارے میں بات کر رہا ہے، جن کے حملوں کے پیچھے جہادی نظریات، حالیہ غزہ جنگ میں قتل و غارت اور تباہی کے مناظر، اور فلسطینی اتھارٹی کی کمزوری جیسے عوامل کارفرما ہیں۔

بم سازی میں فلسطینیوں کی مہارت

اسرائیلی حکام کا ماننا ہے کہ مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتیں بم بنانے میں نمایاں ترقی کر چکی ہیں، اور اب زیادہ تر فلسطینی مختلف اقسام کے بم بنانے سے واقف ہیں۔ اسرائیل کو سخت تشویش لاحق ہے کہ فلسطینی نوجوان اپنے چھوٹے اور سادہ لیبارٹریز اور ورکشاپس میں نئے دھماکہ خیز مواد اور بم تیار کر سکتے ہیں۔

مغربی کنارے میں آر پی جی جیسے خطرات

اسرائیلی فوج اب ان ابھرتے ہوئے خطرات پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جو مغربی کنارے میں ظاہر ہو رہے ہیں، جیسے کہ آر پی جی راکٹس، جو اسرائیلی فوج کے لیے جان لیوا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اسرائیل کے پاس اسلحے کی مقدار اور اس کے پھیلاؤ کے متعلق درست معلومات نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے، اسرائیلی فوج کے ملٹری انٹیلی جنس یونٹ “امان” کے تحت “سیٹلائٹ یونٹ 9900” جلد ہی مغربی کنارے میں اپنی سرگرمیاں شروع کرے گا تاکہ مزاحمتی قوتوں کی فوجی صلاحیتوں سے متعلق درست اور مستند معلومات حاصل کی جا سکیں۔

صہیونی ریاست کی تشویش اور حفاظتی اقدامات
صہیونی فوج کی حالیہ کارروائیوں نے ایک خطرناک تصویر پیش کی ہے، کیونکہ حالیہ آپریشن میں اسرائیل نے 50 سے زائد بم بنانے کی ورکشاپس کا انکشاف کیا اور 150 سے زائد دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنایا جو بنیادی ڈھانچے، عمارتوں اور غیر فوجی راستوں میں نصب تھے۔7 اکتوبر جیسے حملے کے خوف میں اضافہ
اگرچہ غزہ اور مغربی کنارے کے میدانِ جنگ کے حالات مختلف ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں اسرائیلی حلقے مغربی کنارے میں 7 اکتوبر جیسے کسی نئے حملے کے امکان سے متعلق بار بار خبردار کر رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیوں میں بتدریج اضافے اور حملوں میں تنوع کے باعث اسرائیل کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ وہ ان حملوں سے نمٹنے کی کوئی مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔