صہیونی ریاست کے شام پر فضائیہ حملے اور اردگان و جولانی کا معنی خیز سکوت

جب جولانی کے دہشت گردوں نے حلب میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا تو انہوں نے فلسطین کے جھنڈے کے علاوہ تمام علامتوں کی بے حرمتی کی اور ظاہر کیا کہ وہ فلسطین کے حمایتی ہیں اور ایران کے دشمن۔ لیکن اب، جب اسرائیل نے ان کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کیا، تو ان کی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔

فاران تجزیاتی خبرنامہ کے مطابق، مہر نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صہیونی رجیم نے شام پر لڑاکو طیاروں اور توپخانوں کے ذریعہ زبردست حملے کئے ہیں یہ شام کی دفاعی صلاحیتوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔
صیہونی رجیم کے یہ فوجی حملے، جن میں شام کی عسکری تنصیبات، اڈے، اور فوجی ساز و سامان شامل ہیں، اپنی نوعیت میں بے مثال ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے شام کی فوجی تنصیبات پر 300 سے زائد حملے کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیوں شام کی فوجی مراکز پر وسیع اور منظم حملے کر رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا منصوبہ ہے؟

حملے اور شامی علاقوں پر قبضے

رائٹرز اور روسیا الیوم کی رپورٹوں کے مطابق، ان حملوں کے ساتھ ہی، اسرائیلی فوج نے جنوبی دمشق کے کئی دیہات اور بستیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ دمشق کے مضافات میں پیش قدمی، لبنان کی سرحد کے قریب خان الشیخ اور قطنا کی سمت حرکت، ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو دمشق کو اپنے تسلط پسندانہ عزائم کا نشانہ بنا کر خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ صہیونی فضائی اور ڈرون حملوں نے دمشق، حمص، اور قامشلی کے قریب شام کے تین اسٹریٹجک فضائی اڈوں اور لاذقیہ میں فوجی مستحکم بیسز کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ سب اقدامات بے حد اہم ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

جولان سے دمشق تک

ماضی میں اسرائیل دعویٰ کرتا تھا کہ جولان کی پہاڑیاں ایک اہم دفاعی مقام ہیں اور ان کے لیے خطرہ ہیں۔ لیکن اب وہ ان علاقوں پر حملے کر رہا ہے جو اسرائیلی سرحدوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل شام کی دفاعی صلاحیت کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ شام کو درمیانی مدت میں بڑے سیکیورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن دہشت گرد گروہ بشمول تحریر الشام اسرائیلی جارحیت کے خلاف خاموش ہیں اور کسی طرح کا ردعمل ظاہر کرنے کو تیار نہیں۔

نتن یاہو کے دعوے اور اقدامات

حالیہ دنوں میں نتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ 1974 میں اسرائیل اور شام کے درمیان ہونے والا معاہدہ اب بے معنی ہو چکا ہے اور وہ اس کا خیال نہیں کریں گے۔ اس دعوے کی بنیاد پر اسرائیل نے اپنے فوجیوں کو جولان کی پہاڑیوں پر تعینات کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس اسرائیلی اقدام کی مذمت کی اور 1974 کے معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے اسرائیلی فوج کی جولان میں موجودگی کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ لبنان، کویت، قطر، اردن، یمن، اور اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی شام کے سرحدی علاقے پر اسرائیلی قبضے کی مذمت کی ہے۔

امریکی اور اسرائیلی ہم آہنگی

امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں شائع رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ دونوں ممالک شام پر حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں۔ امریکی کمانڈ سینٹر “سینٹ کام” نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی حملوں کے علاوہ، امریکہ نے بھی شام کے 80 مقامات پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون ساعر کا کہنا ہے کہ “ہم شامی ہتھیاروں کے مشکوک مراکز کو نشانہ بنارہے ہیں تاکہ یہ دشمنوں کے ہاتھ نہ لگیں۔”

جولانی اور اردگان کی خاموشی

جب جولانی کے دہشت گردوں نے حلب میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا تو انہوں نے فلسطین کے جھنڈے کے علاوہ تمام علامتوں کی بے حرمتی کی اور ظاہر کیا کہ وہ فلسطین کے حمایتی ہیں اور ایران کے دشمن۔ لیکن اب، جب اسرائیل نے ان کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کیا، تو ان کی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ یہ خاموشی جولانی اور نتن یاہو کے درمیان ممکنہ گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کرتی ہے تاکہ شام کی دفاعی طاقت کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

ترکی کا کردار

ترکی، جو تحریر الشام اور دیگر دہشت گردوں کو مسلح کرنے میں شریک رہا ہے، اسرائیلی حملوں پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ترکی کو موجودہ صورتحال پر کوئی اعتراض نہیں۔ حالانکہ اسرائیل کے موجودہ اقدامات نہ صرف ایران اور مزاحمتی محاذ کے خلاف ہیں بلکہ شام اور ترکی کی سلامتی کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی اور تحریر الشام اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف کیا موقف اختیار کرتے ہیں اور اس کا اظہار کب کرتے ہیں ۔۔