فاران: اس وقت جبکہ صیہونی یہ توقع کر رہے تھے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا میں اسرائیل سے نفرت کا رجحان کم ہوگا، رپورٹیں اس رجحان کے تسلسل کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
فارس پلس گروپ: 15 ماہ قبل غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک، اسرائیلی سفارت خانوں کی جانب سے وزارت خارجہ کو بھیجی جانے والی رپورٹوں میں ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے باعث اسرائیلیوں پر حملے اور زیادتی کی خبریں سامنے آئی ہیں۔
ریڈیو MF100 کے صدر اور اسرائیلی ریڈیو روابط عامہ سوسائٹی کے سربراہ ڈیوڈ بن باست نے اس حوالے سے کہا:
“اسرائیل کے خلاف دشمنی کی وہ لہر، جس نے حالیہ برسوں میں اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا، غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز کے بعد مزید پھیل گئی ہے اور اب یہ پورے یورپ اور امریکہ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی نمایاں مثال نیدرلینڈز میں مکابی ٹیم کے تماشائیوں پر ہونے والے حملے اور زیادتی کے واقعات ہیں۔”
انہوں نے عبرانی زبان کے اخبار “معاریو” میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں مزید کہا:
“دنیا میں اسرائیل کے خلاف دشمنی سماجی تحریکوں کے عروج کے ساتھ جڑ گئی ہے جو ظلم، عدم مساوات، نسل پرستی اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کرتی ہیں۔ یہ تحریکیں اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ رویے اور سلوک کو ان مسائل کے ساتھ جوڑتی ہیں۔”
باست ان مذمتوں اور اعتراضات کی مثالیں امریکہ کی یونیورسٹیوں میں غزہ کی جنگ کے دوران ہونے والے احتجاج میں دیکھتے ہیں اوراسرائیل کی حمایت کے سبب سائنسدانوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مینیجرز کو نوکریوں سے نکالنے، اور حماس کے جنگجوؤں کو “آزادی کے لیے لڑنے والے” قرار دینے میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں:
“اس رجحان کو بڑھانے والی چیز ان منفی رجحانوں کا اسرائیلی معاشرے کے اندر، خاص طور پر اسرائیلی دانشوروں کے حلقوں میں سرایت کرنا ہے، یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے معاشی اور علمی بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔”
باست کا ماننا ہے کہ یہ رجحان اسرائیلی پارلیمنٹ (کنست) کے اندر بھی داخل ہوچکا ہے، جہاں اب کچھ اراکین اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست (آپارتھائیڈ) قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف پابندیاں اور سزاؤں کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یہ تمام عوامل اسرائیل مخالف اور صیہونیت مخالف بیانیوں کے مزید پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں اور اسرائیل کو جنگی جرائم سمیت فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے الزامات کی ایک لہر کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب دیگر ممالک میں ایک معاندانہ اور یہود دشمن ماحول کا قیام ہے۔
باست نے انکشاف کیا کہ اسرائیل اور اسرائیلیوں کے خلاف دشمنی اور نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب کئی واقعات میں اسرائیلیوں کو ان کے کام کی جگہوں سے نکال دیا جاتا ہے یا انہیں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، صرف اس وجہ سے کہ وہ اسرائیل کے حق میں مؤقف رکھتے ہیں یا اس کی حمایت میں بیان دیتے ہیں۔
یہ معاملہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک BDS کے مزید طاقتور ہونے کا باعث بن رہا ہے، جو نہ صرف اسرائیلی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں، خاص طور پر یونیورسٹیوں اور دانشورانہ حلقوں میں ایک یہود مخالف ماحول پیدا کر رہی ہے۔ یہ سب نہ صرف اسرائیل کے لیے بڑے اور پیچیدہ چیلنجز پیدا کر رہا ہے بلکہ شمالی امریکہ میں اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی تنقید اور مذمت کو بھی بڑھا رہا ہے۔
باست خبردار کرتے ہیں کہ “اس وقت دنیا میں اسرائیل کا تصور ایک ایسے ٹینک کا ہے جس پر اسرائیلی فوجی سوار ہیں، اور وہ ایک بے بس اور مظلوم ایسے فلسطینی پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے، جس کے پاس پتھر اور غلیل کے سوا کوئی ہتھیار نہیں، اور وہ بدترین حالات میں صرف ایک پتھر ٹینک کی طرف پھینک سکتا ہے۔”
وہ مزید کہتے ہیں: “یہ تصور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اور اسرائیلی مکمل طور پر شر کا نمونہ ہیں۔”
اس حوالے سے صیہونی حکومت کا ماننا ہے کہ جرمنی میں یہود مخالف جذبات جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بلند سطح پر پہنچ چکے ہیں، یہاں تک کہ جرمن پولیس کے سربراہ نے یہودیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بعض علاقوں میں نہ جائیں۔ ساتھ ہی جرمنی کے مسلمان اسرائیل کے خلاف اپنی دشمنی اور مخالفت کا کھلے عام اظہار کرنے سے نہیں ڈرتے۔
بارت وب، عبرانی زبان ویب سائٹ “زمان” کے صحافی، کہتے ہیں کہ 2024 کے آخری دنوں میں برلن میں ہونے والے اسرائیل مخالف مظاہروں نے ایک بار پھر جرمنی میں یہود دشمنی اور اسرائیل سے نفرت کی شدت کو ظاہر کیا۔ یہ بات سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر سے بھی باآسانی سمجھی جا سکتی ہے۔
ویب سائٹ “زمان” نے اپنی رپورٹ میں یاد دلایا ہے کہ صرف 2024 کے پہلے نصف حصے میں جرمنی نے یہود دشمنی کے سب سے زیادہ واقعات کا مشاہدہ کیا، جو کہ پورے 2023 کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ رپورٹ کے مطابق، 2024 کے پہلے چھ ماہ میں یہودیوں کے خلاف 25 کشیدگی اور جسمانی حملوں کے واقعات پیش آئے، جبکہ ہولوکاسٹ کی یادگاروں پر 21 بار تخریب کاری کی گئی۔
جرمنی کی فیڈرل یہود دشمنی واچ آرگنائزیشن (RIAS) کے مطابق، جرمنی میں یہود دشمنی کے تمام واقعات اسرائیل اور غزہ کی پٹی میں اس کی جنگ سے جڑے ہوئے تھے۔ برلن پولیس نے یہودی شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ “کیبہ” (یہودیوں کی مخصوص چھوٹی ٹوپی) پہننے سے گریز کریں اور اکثریتی مسلمان و عرب علاقوں میں جانے سے اجتناب کریں۔
اب برلن کے نیوکلن اور کروزبرگ جیسے محلوں میں چلتے ہوئے باآسانی دیواروں پر فلسطین کی حمایت میں گرافٹی، “فلسطین کو آزاد کرو”، “جنگ بند کرو”، اور “نسل کشی بند کرو” جیسے نعرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ جذبات صرف مہاجرین یا مسلمانوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ جرمن نوجوان بھی اب کھل کر اسرائیل مخالف مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں تجارتی مقامات، خاص طور پر حجام کی دکانوں، پر “قدس” کا نام رکھنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔
برلن میں رہنے والے فلسطینی، جن کی تعداد کا تخمینہ 30 سے 40 ہزار کے درمیان ہے، اب بلا خوف و خطر اپنے گھروں اور دکانوں کے باہر فلسطینی پرچم لگا سکتے ہیں، اور شہر میں اسرائیل مخالف دیواروں پر تحریریں بھی بہت زیادہ نظر آ رہی ہیں، جبکہ پہلے فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں کی جاتی تھی۔
اب جرمنی میں یہودیوں کے حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ وہ دوسروں کی توجہ سے بچنے کے لیے آپس میں عبرانی زبان میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں