طوفان الاقصی کے بعد ترکی میں زلزے کے جھٹکے

 اردوغان، جو طوفان الاقصی کے بعد غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی جنگ سے فائدہ اٹھا کر شام میں "اسد" حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا، اب خود کسی نہ کسی طرح اس طوفان کے پس لرزوں کی زد میں آ چکا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اردوغان، جو طوفان الاقصی کے بعد غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی جنگ سے فائدہ اٹھا کر شام میں “اسد” حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا، اب خود کسی نہ کسی طرح اس طوفان کے پس لرزوں کی زد میں آ چکا ہے۔
فارس پلس گروپ: یہ بات طے شدہ ہے کہ “طوفان الاقصی” نہ تو کسی آزادی کی جنگ کا منصوبہ تھا، کیونکہ ایسی جنگ کے لیے ضروری حالات موجود نہیں تھے، اور نہ ہی یہ کوئی طویل مدتی جنگ تھی، جس میں محاذوں پر کردار تقسیم کیے گئے ہوں۔ بلکہ “طوفان الاقصی” ایک بڑا دھماکہ تھا، جس نے علاقائی اور بین الاقوامی واقعات کو مزید خراب ہونے سے روک دیا۔
علاقے میں سب سے سنگین پیش رفت سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کا وہ عمل تھا، جو “جو بائیڈن” (سابق امریکی صدر) کے منصوبے کے تحت شروع ہوا تھا۔ اس منصوبے کا اعلان ہندوستان میں ہونے والے “جی 20” اجلاس میں کیا گیا، جس کا نعرہ “ہندوستان سے یورپ تک راہداری کا قیام ” تھا اور جسے سعودی عرب اور صہیونی ریاست کے راستے گزرنا تھا۔
اس منصوبے کا ایک فوجی اور سیکیورٹی پہلو بھی تھا، جس کا مقصد ایک حیران کن جنگ چھیڑ کر غزہ اور لبنان میں مزاحمت کو یا تو ایک ہی جھٹکے میں یا مرحلہ وار ختم کرنا تھا۔ “طوفان الاقصی” نے واضح کر دیا کہ اس جنگ کے لیے تمام منصوبے، سازشیں اور حیران کن حملوں کی حکمت عملی پہلے سے تیار تھی اور اس پر عمل درآمد کا وقت قریب تھا۔

طوفان الاقصی نے سازشوں کو خاک میں ملا دیا

طوفان الاقصی کے شدید زلزلے، جس کے بعد کے جھٹکے اب بھی خطے میں محسوس کیے جا رہے ہیں، نے دو بڑے محاذوں کو آمنے سامنے کر دیا ہے۔ یہ دونوں محاذ اپنی جگہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ علاقے اور عالمی منظرنامے پر مسلسل اور نہ ختم ہونے والے جھٹکے پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل، امریکہ اور ان کے اتحادی ہیں، جبکہ دوسری طرف خطے کے مختلف ممالک اور مزاحمتی قوتیں کھڑی ہیں۔
طوفان الاقصی کا غیر متوقع حملہ اسرائیل، امریکہ اور ان کے علاقائی اتحادیوں پر ایسا بوجھ بنا کہ انہوں نے جو بھی منصوبے غزہ اور لبنان میں مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے تیار کیے تھے، وہ سب خاک میں مل گئے۔ مغرب کو اس جنگ میں نہایت شدید اور اسٹریٹجک نوعیت کے زخم سہنا پڑے، جبکہ دونوں فریقوں کے درمیان جنگ اور محاذ آرائی اب بھی جاری ہے اور ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

صہیونی ریاست کو طوفان الاقصی کے بھاری نقصانات

اس جنگ میں مزاحمتی قوتوں کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا، اور بعض نقصانات کی تلافی کرنا نہایت مشکل ہے۔ بعض ایسے واقعات بھی رونما ہوئے، جنہوں نے خطے کی اسٹریٹجک صورتحال کو بدل کر رکھ دیا، جیسا کہ لبنان میں دیکھنے کو ملا۔ تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل کو معمولی نقصان ہوا ہے۔
اسرائیلی فوج کو لگنے والے زخم، خاص طور پر زمینی جنگ میں داخل ہونے کی صلاحیت اور فضائی دفاعی نظام میں کمزوری، اسرائیل کے لیے شدید دھچکا ثابت ہوئی۔ خاص طور پر “آئرن ڈوم” کی ناکامی، جو اسرائیلی داخلی محاذ کے دفاع کے لیے اہم ستون سمجھا جاتا تھا، نے اسرائیلی دفاعی صلاحیتوں پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔
چونکہ اسرائیلی فوج اسرائیل کے وجود اور بقا کا بنیادی ستون ہے، اس لیے فوج پر کوئی بھی کاری ضرب دراصل اسرائیل کو وجودی بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ طوفان الاقصی نے اسرائیل کو اسی بحران میں دھکیل دیا۔
فوج کے بعد اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کو دوسرا سب سے بڑا حفاظتی عنصر سمجھا جاتا تھا، اور یہ دونوں ستون اب شدید نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اس بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات کے ساتھ، اب میدان جنگ میں کوئی بھی طاقت کا مظاہرہ دراصل حقیقت میں ہونے والی شکستوں کے انکار کی ایک کوشش محسوس ہوتا ہے، نہ کہ کسی فتح کا اعلان۔

ترکی کا شام کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا

اسرائیلی حملے اور امریکی حمایت نے ترکی کے لیے ایک غیر متوقع اور کاری ضرب لگانے کا موقع پیدا کیا، تاکہ شام کو گرا کر “ہیئت تحریر الشام” اور اس کے رہنما کو فاتح کی حیثیت سے دمشق میں داخل کرایا جا سکے۔
انقرہ کے حسابات اس بنیاد پر تھے کہ اگر ترکی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کرے گا، تو اس کے شام سے متعلق منصوبے کامیاب ہو جائیں گے۔ اس منصوبے کے تحت، اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر مغربی پابندیاں ختم ہو جائیں گی، اور اس کا معاشرہ اور معیشت ایک نئی زندگی حاصل کر لے گی۔ اسی طرح، امریکہ کے حمایت یافتہ کردوں کی خودمختار حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، اور اس کے ساتھ ہی شام کی قومی دولت اور وسائل آزاد ہو جائیں گے۔
اس کے بعد، امریکہ اور اسرائیل شام سے نکلنے کے لیے تیار ہو جائیں گے، اور ملک کا انتظام ایک ایسی حکومت کے حوالے کر دیا جائے گا، جو ترکی کی مکمل تابع ہو۔ اس طرح ترکی، کردوں کے علاقے اور اس کی دولت پر بلاشرکتِ غیرے قابض ہونے کا موقع حاصل کر لے گا۔

طوفان الاقصی پر انحصار کی غلطی

تاہم، ترکی کی شام میں اس مہم جوئی کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس نے اپنے تمام منصوبے غیر حقیقی مفروضوں پر بنائے تھے۔ انقرہ کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ نہ تو پابندیاں ختم ہونے والی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی مراعات حاصل ہونے والی ہیں۔ بلکہ اسد حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں صرف افراتفری، فرقہ وارانہ قتل و غارت اور ایک ایسی کمزور حکومت کی تشکیل ممکن تھی، جو اسرائیلی جارحیت اور قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کر پائے۔
یہ صورتحال کردوں کو مزید حوصلہ دے سکتی تھی کہ وہ شمالی شام میں اپنی خودمختار حیثیت برقرار رکھیں، جبکہ جنوبی شام میں دروزی برادری بھی اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے مزید کوششیں کرنے لگتی۔ اسی دوران، شام کے ساحلی علاقوں میں علوی برادری کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کے واقعات سامنے آتے، جو شامی سماج کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ہے۔
ان حالات نے عرب ممالک اور مغرب میں شام کی نئی حکومت کی حیثیت پر مزید شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ ترکی کے تمام منصوبے صرف الفاظ اور وعدوں تک محدود رہ گئے، جبکہ حقیقت یہ بنی کہ شام کی صورتحال ترکی کی مداخلت کے بعد پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئی۔

طوفان الاقصی کے سائے میں ترکی کی ناکام مہم جوئی

ترکی کی شام میں مہم جوئی کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس نے اپنے تمام منصوبے غیر عملی مقاصد کے سہارے ترتیب دیے تھے۔ انقرہ کو جلد ہی یہ حقیقت سمجھ آ گئی کہ نہ تو مغربی پابندیاں ختم ہونے والی ہیں اور نہ ہی کوئی مراعات ملنے والی ہیں۔ اس کے برعکس، اسد حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں صرف انتشار، فرقہ وارانہ قتل و غارت اور ایک کمزور حکومت کی تشکیل ممکن تھی، جو اسرائیلی جارحیت اور قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کر پاتی۔
یہ صورتحال کردوں کو مزید حوصلہ دے سکتی تھی کہ وہ شمالی شام میں اپنی خودمختار حیثیت برقرار رکھیں، جبکہ جنوبی شام میں دروزی برادری بھی اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے مزید سرگرم ہو جاتی۔ اس دوران، شامی ساحلی علاقوں میں علوی برادری کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کے واقعات سامنے آئے، جو شامی سماج کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ہے۔
ان حالات نے عرب ممالک اور مغرب میں شام کی نئی حکومت کی حیثیت پر مزید شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ ترکی کے تمام منصوبے صرف زبانی دعوؤں اور وعدوں تک محدود رہ گئے، جبکہ حقیقت یہ بنی کہ ترکی کی مداخلت کے بعد شام کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئی۔

بحران زدہ ترکی اور شام کو لیکر اسکے خوابوں کا بکھر نا

کئی سالوں سے جاری معاشی بحران اور اسٹریٹجک ناکامیوں میں گھرا ترکی، اب شام میں اپنی تمام شرطوں کے الٹ جانے کے سبب زبردست دھچکے کا سامنا کر رہا ہے۔ انقرہ کو جو نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں، وہ سب طوفان الاقصی کے نتائج پر موقع پرستی سے سرمایہ کاری کرنے کا نتیجہ ہیں۔ ترکی نے سوچا تھا کہ اس سے اس کا اقتصادی بحران حل ہو جائے گا، لیکن نتائج الٹے ثابت ہوئے، اور خود ترکی کے اندر ایک گہرا داخلی بحران بھڑک اٹھا۔
یہ بحران ترک سماج کو دو حصوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ ایک طرف وہ اسلام پسند ترک ہیں جو غزہ کے حامی ہیں اور صدر رجب طیب اردوغان کو فلسطین اور مسئلہ فلسطین کے نام پر سیاست کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ترکی، اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کی باتیں کرتا ہے، لیکن تل ابیب کا پرچم اب بھی انقرہ میں اسرائیلی سفارتخانے پر لہرا رہا ہے۔
دوسری طرف، وہ غزہ کے حامی ہیں، جو حالیہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے گروہ کا حصہ تھے اور جن کی ایک بڑی تعداد حکمران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ گروہ خود کو “نیو عثمانی” کہتے ہیں اور ایک نسل پرست، فاشسٹ اسلام پسند تحریک کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد اسد حکومت کا تختہ الٹ کر جولانی حکومت کو آگے بڑھانا تھا، لیکن شام میں شکست اور ساتھ ہی علوی برادری کے قتل عام نے ترکی کے اندر بھی ایک بحران کو جنم دے دیا۔
علویوں اور کردوں نے اس شکست کے بعد اردوغان حکومت کے خلاف کھل کر بغاوت کر دی، جبکہ اس سے پہلے ترک سرمایہ دار اور تاجر بھی اردوغان کی پالیسیوں کے خلاف اٹھ چکے تھے۔ یوں، ترکی کا خواب کہ وہ شام پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرے گا، حقیقت میں خود ترکی کے لیے ایک بھیانک بحران میں تبدیل ہو گیا۔
بکھرتے خواب

کئی سالوں سے جاری معاشی بحران اور اسٹریٹجک خلا کے سبب ترکی اب شام میں اپنی تمام شرطوں کے الٹ جانے کے نتیجے میں شدید نقصان اٹھا رہا ہے۔ انقرہ کو جو نقصان پہنچا، وہ سب طوفان الاقصی کے نتائج پر موقع پرستی سے سرمایہ کاری کرنے کی وجہ سے تھا، جس کا خیال تھا کہ یہ اس کے معاشی بحران کو حل کرے گا، لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ اس مہم جوئی نے ترکی میں اندرونی طور پر ایک بڑا دھماکہ پیدا کر دیا، جس نے ترک سماج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
ایک طرف، وہ ترک اسلام پسند ہیں جو غزہ کے حامی ہیں اور رجب طیب اردوغان کو فلسطین کے نام پر سیاست کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اردوغان فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کی بات کرتا ہے، لیکن اسرائیلی سفارتخانے پر تل ابیب کا جھنڈا اب بھی انقرہ میں لہرا رہا ہے۔
دوسری طرف، غزہ کے وہ حامی ہیں جو حالیہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت کا حصہ تھے، اور جن کی ایک بڑی تعداد حکمران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ گروہ “نیو عثمانی” کہلاتا ہے، جو خود کو ایک نسل پرست اور فاشسٹ اسلامی تحریک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان کا ہدف شام میں اسد حکومت کا تختہ الٹ کر جولانی حکومت کو آگے بڑھانا تھا۔ تاہم، شام میں شکست اور علوی برادری کے قتل عام نے ترکی کے اندر بھی بحران پیدا کر دیا، جس کے نتیجے میں علوی اور کرد عوام نے اردوغان حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔
یہ سب اس وقت ہوا جب ترکی کے سرمایہ دار اور تاجر پہلے ہی اردوغان کے خلاف کھڑے ہو چکے تھے۔ یہ وہ سرمایہ کار تھے جو شام کی تعمیرِ نو میں سرمایہ لگانے کی امید کر رہے تھے، کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ شام کی بحالی ترکی کے معاشی بحران کا حل بن سکتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق نے ان کے تمام خواب بکھیر دیے۔

ترکی کا غیر یقینی مستقبل

طوفان الاقصی نے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین میں تباہی مچا دی، جبکہ عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے لیے بیداری کی ایک نئی لہر نے اسرائیل کے بیانیے کو چیلنج کر دیا۔ لیکن یہ تبدیلی صرف اسرائیل اور فلسطین تک محدود نہیں رہی، بلکہ ترکی اور شام بھی اس کے جھٹکوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ان تمام بحرانوں کے ذمہ دار اردوغان کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کی پالیسیاں ترکی کو ایک گہرے بحران میں دھکیل رہی ہیں۔ صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب ترک علویوں نے شام میں علویوں اور کردوں کے قتلِ عام کے خلاف احتجاج کیا، اور اس کے بعد ترک تاجر بھی حکومت کے خلاف ہو گئے۔
ترکی کے اندر یہ بحران ایک نیا موڑ تب اختیار کر گیا جب استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ طوفان الاقصی کی پس لرزات، ترکی کو کس سمت لے جائیں گی، اور کیا یہ بحران اردوغان حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کرے گا؟