عراق میں مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟

پارلیمانی الیکشن کے خلاف اس عوامی احتجاج کی مختلف وجوہات ہیں۔ عوام کا سب سے بڑا اعتراض اس الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے طریقہ کار پر ہے۔ عوام پرامن احتجاج کو اپنا قانونی حق تصور کرتے ہیں، لہذا انہوں نے احتجاجی مظاہروں اور دھرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مظاہرین کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں کو ضروری تحفظ فراہم کرے۔

فاران: عراق گذشتہ روز سے حالیہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے خلاف شدید مظاہروں کی لپیٹ میں ہے۔ اس سلسلے میں بغداد میں بھی بڑا مظاہرہ ہوا، جہاں بعض وزارتخانوں کے سامنے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ مظاہرین نے اس کے بعد گرین زون کی جانب مارچ شروع کر دیا۔ چونکہ عراقی سکیورٹی فورسز نے گرین زون کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں، لہذا مظاہرین نے ان راستوں کے سامنے خیمے لگا کر دھرنا دینا شروع کر دیا۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے خلاف یہ دھرنا پرامن انداز میں جاری تھا کہ اچانک سکیورٹی فورسز نے دھرنے میں شامل افراد پر دھاوا بول دیا۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق عراق کی سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کے استعمال کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر گولیاں بھی برسائیں۔

تازہ ترین رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہرین پر عراقی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں سو سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے اس اقدام کے بارے میں عراق کے مختلف سیاسی حلقوں سے کئی ردعمل سامنے آئے ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی صدر پارٹی کے سربراہ مقتدا صدر نے سکیورٹی فورسز کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کو پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ اسی طرح عراق کے صدر نے مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ اور اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری زخمی ہو جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

عراقی صدر برہم صالح نے کہا: “پرامن احتجاجی مظاہروں کا انعقاد عوام کا بنیادی حق ہے۔ میں تمام فریقین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ صبر کا مظاہرہ کریں۔ ہمیں ہر حال میں قومی مصلحت اور مفادات کو باقی تمام امور پر ترجیح دینا ہوگی۔” دوسری طرف عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی نے مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کی تحقیق کرنے کیلئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عراقی وزیراعظم نے سکیورٹی فورسز کو بھی حکم دیا ہے کہ ان افراد کو عدالت کے سپرد کیا جائے، جنہوں نے بغداد کے امن و امان کے تحفظ میں کوتاہی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اس واقعہ میں زخمی ہونے والے شہریوں کو تاوان دینے کا حکم دیا ہے۔

بغداد کے گرین زون میں احتجاج کے باعث اقوام متحدہ کی توجہ بھی اس جانب مرکوز ہوگئی ہے۔ عراق کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے نمائندے کے دفتر نے اس بارے میں ایک بیانیہ جاری کیا ہے اور پرامن مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے: “ہم جھڑپوں میں شدت اختیار ہو جانے، طاقت کے استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور تمام فریقین سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ عراقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ عوام کے پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرے اور عوام بھی اپنے مظاہرے کو پرامن رکھنے کی کوشش کریں۔” دوسری طرف بعض دشمن میڈیا ذرائع اس صورتحال سے غلط فائدہ اٹھا کر عراقی حکومت اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

پارلیمانی الیکشن کے خلاف اس عوامی احتجاج کی مختلف وجوہات ہیں۔ عوام کا سب سے بڑا اعتراض اس الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے طریقہ کار پر ہے۔ عوام پرامن احتجاج کو اپنا قانونی حق تصور کرتے ہیں، لہذا انہوں نے احتجاجی مظاہروں اور دھرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مظاہرین کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں کو ضروری تحفظ فراہم کرے۔ ان کا دوسرا مطالبہ اس الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بارے میں ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت حالیہ پارلیمانی الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کیلئے قانونی چارہ جوئی کرے۔ اسی طرح وہ حکومت سے چاہتے ہیں کہ الیکشن کے نتائج کے خلاف اعتراض کرنے کیلئے بھی ایک قانونی چینل فراہم کیا جائے۔

احتجاج میں شامل مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کی جائے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹوں کی گنتی قابل اعتماد نہیں اور اس میں غلطی اور دھاندلی کا بہت زیادہ امکان پایا جاتا ہے۔ عراقی عوام کے علاوہ دیگر کئی عراقی سیاسی جماعتیں اور گروہ بھی ووٹوں کی دوبارہ ہاتھ سے گنتی کے حق میں ہیں۔ اسی طرح وہ حکومت پر دباو ڈال رہی ہیں کہ مظاہرین کے مطالبات پر توجہ دی جائے۔ عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی نے بھی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایک اہم بیانیہ جاری کرتے ہوئے گذشتہ روز مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے اور اس کے بارے میں آزادانہ اور فوری تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔