غزہ میں نسل کشی اسرائیل کے مسلسل استثنیٰ کا نتیجہ ہے: یو این مندوب
فاران: فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے کہا ہے کہ اسرائیل کے جرائم کو روکنے میں عالمی برادری کی ناکامی نے اسے غزہ میں نسل کشی کرنے کا موقع دیا۔
اس نے’ایکس‘ پلیٹ فارم پر اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے کہا کہ محصور غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی جنگ گذشتہ دہائیوں میں اسرائیل کے استثنیٰ کا “کڑوا پھل” ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری اسے بین الاقوامی قانون کے لیے چیلنج سمجھتے ہوئے فلسطینی عوام کے “فلسطین کی نسل کشی کے اسرائیلی منصوبے” کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
قبل ازیں البنانیز نے کہا کہ مغربی میڈیا کی غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے بارے میں بات کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ نسل کشی اور جبر رک گیا ہے، بلکہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جان بوجھ کر اسرائیلی فاقہ کشی اور قتل عام کی پالیسی جاری ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کے باشندے بالخصوص غزہ اور شمالی گورنری قحط کے دہانے پر ہیں۔ خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی فراہمی کی شدید قلت کے دوران تقریباً 20 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ 7 اکتوبر سے “اسرائیلی” قابض افواج غزہ کی پٹی پر تباہ کن جنگ کیے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں دسیوں ہزار معصوم شہری شہید، زخمی اور لاپتہ ہونے کے علاوہ 20 لاکھ افراد بے گھرہوچکے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کا 70 فیصد سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے اور غزہ کی سخت ناکہ بندی اور مسلسل جنگ کے نتیجے میں گنجان آباد علاقہ قحط کی لپیٹ میں ہے۔
ادویات، پانی اور خوراک کی قلت کے باعث آئے روز بچوں اور دیگرشہریوں کی اموات کی خبریں آ رہی ہیں۔ دوسری جانب غاصب صہیونی دشمن ریاست نے جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام بنا دی ہیں اور وہ غزہ میں فلسطینیوں کی منظم اور مسلسل نسل کشی پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہے۔
تبصرہ کریں