غم سید الشہداء اور حق پسند معاشرہ

اگر یہ بات ارسطو افلاطون کے لئے کہہ سکتا ہے تو ہم سب کو بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ خاندان ہمارے لئے عزیز ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں ؟ قوم عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں کوئی ادارہ عزیز ہو اچھی بات ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اولاد عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن ایسا نہ ہو حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اس لئے کہ جہاں ہم حقیقت کی راہ سے ہٹیں گے وہیں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر کے اس نے ہمیں ایک بار پھر موقع دیا کہ ہم اس عظیم ہستی کے چہلم کو تزک و احتشام کے ساتھ منانے کے کے لئے خود کو آمادہ کر رہے ہیں جس نے حق پر مر مٹنے کا درس دیتے ہوئے اپنے چاہنے والوں کو سکھایا کہ حق بات کہنا حق بولنا اور حق کی ڈگر پر رہنا ہی حقیقت میں زندگی ہے جو زندگی مدار حق سے جائے وہ زندگی نہیں ناسور ہے خدا کا کروڑوں شکر کہ اس نے ہمیں ایک عظیم دولت غم سے نوازا وہ غم جس غم نے ہمیں دنیا میں ہمیں پہچنوایا ہمیں ایک شناخت دی ، غم حسین ہماری شناخت ہے ہم اس غم کے سہارے دنیا میں پہچانے جاتے ہیں ، انسان غموں میں عام طور پر نڈھال ہو جاتا ہے اسے سمجھ میں نہیں آتا فیصلہ کرنے کی طاقت اس کے اندر ختم ہو جاتی ہے لیکن یہ سید الشہداء کا غم جو ہمیں صحیح فیصلہ تک بھی لے کے آتا ہے ہمارے وجود کے اندر حق و باطل کی شناخت بھی پیدا کرتا ہے ۔ یوں تو حقیقت سے محبت انسان کے وجود کے اندر ہے ہے لیکن اس دنیا میں انسان اکثر خواہشوں کے آگے اسیر ہونے کی بنیاد پر حقیقتوں سے سوادا کر لیتا ہے لیکن کربلا خواہشوں کے مقابل حقیقتوں سے شغف رکھنے کی طرف دعوت دیتی ہے ۔

حقیقت سے محبت انسان کی فطرت :
حق پرستی و حق شناسی کا جذبہ انسانی فطرت کا حصہ ہے فطری طور پر انسان کو حقیقت سے محبت ہے اسے باطل سے نفرت ہے ، وہ سچائی کو پسند کرتا ہے جھوٹ سے اسے لگاو نہیں یہ اور بات نہیں کہ اکثر ذاتی مفادات کی بنیاد پر لوگ حق کا ساتھ نہیں دیتے قرآن کریم اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرماتا ہے
لَقَدْ جِئْناكُمْ بِالْحَقِّ وَ لكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كارِهُونَ

لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے قرآن یہ آوا ز دے رہا ہے کہ ہم جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے یہ خطاب تمام ہی لوگوں سے ہے بلاشبہ پیغمبر کے زمانے کے لوگوں سے، اس آیت کا نزول اس دور میں ہے اور تمام لوگوں کے بارے میں ہے : ہم تمہارے پاس وہی حق اور سچ لے کر آئے ہیں، لیکن تم میں سے اکثر لوگ حقیقت کو پسند نہیں کرتے ہو… وہ چیز جو مذہب اور اسلام کی روح کے سو فیصد خلاف ہے وہ یہ ہے کہ انسان س حق سے بیزار ہو جائے ، اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ سچائی وحقیقت کی تلاش میں رہتا ہے ۔ سو جو چیز وہ چاہتا ہے اور جس کی اسے جستجو رہتی ہے ذاتا اور اس کی اپنی فطرت کے مطابق وہ چیز شیریں بھی ہوتی ہے حقیقت میں یہی مٹھاس ہے اگر ہمارے بعض کھانے ہمارے ذائقہ کے حساب سے لذیذ ہیں شیریں ہیں تو انکی لذت کی وجہ انکا خوشگوار ہونا ہے انکا ملائم ہونا ہے ، یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ذائقہ اور نظام ہاضمہ ان کھانوں کے لیے بنایا گیا ہے اور یہ کھانے اسی کے لیے بنائے گئے ہیں۔

انسانی روح، فکر اور عقل کی عمارت کی بنیاد حقیقت پسندی ، وحقیقت طلبی پر ہے حقیقت ، سچائی ، درستگی ، انسانی روح کی غذا ہے، جس طرح گھاس اور جو گھوڑے کی غذا ہیں اور جیسے گوشت کتے یا بلی کی خوراک ہے۔ حق، سچائی، حقیقت وحقیقت کی ویسی دریافت جیسی وہ ہے انسانی روح کی غذا ہے۔ لہذا، اگر انسانی روح صحت مند ہے تو جب اسے حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا اور وہ حق وحقیقت تک پہنچتا ہے تو اس بات سے اسے لطف اندوز ہونا چاہیے کہ جسکی جستجو تھی وہ مل گیا یا پھر اسے رنج و غم ہونا چاہیے ؟ بے شک اسے لطف اندوز ہونا چاہئے۔ حق کا ذائقہ انسان کے لئے میٹھا ہونا چاہیے یا کڑوا؟ بلا شبہہ میٹھا ہونا چاہئے۔ لیکن اب ہمارے یہاں ایک تمثیل ہے، ہم کہتے ہیں: ” الحق مر ” حق کڑوا ہوتا ہے ، در حالیکہ حق کو کڑوا نہیں ہونا چاہیے، حق کو ہمیشہ میٹھا ہونا چاہیے۔ ہماری خلقت ایک حق جو مخلوق کے طور پر ہوئی ہے ۔
اس مثل کا مطلب یہ ہے کہ ہم حق کی تلاش میں نہیں ہیں، ہم اپنی خود غرضی اور اپنے مفادات کی تلاش میں ہیں، ہما را حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم فی الحال ایسے ہی ہیں، جبکہ ہماری فطرت ایسی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس حالت میں ڈھل گئے کہ ہم ” الحق مر ” ہو گئے، حقیقت ہمارے لیے کڑوی ہو گئی، تو ہمیں یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بیمار اور بہت سخت بیمار ہیں ۔ قرآن کریم نے بہت سی آیات میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ لوگ اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر الہی صحت مند فطرت کو کھو دیتے ہیں اور “الحق مر” یا “الحق مکروہ” بن جاتے ہیں ۔
ارسطو نے ایک مقام پر کہا: افلاطون عزیز ہے، لیکن حقیقت زیادہ عزیز ہے ۔
اگر یہ بات ارسطو افلاطون کے لئے کہہ سکتا ہے تو ہم سب کو بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ خاندان ہمارے لئے عزیز ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں ؟ قوم عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں کوئی ادارہ عزیز ہو اچھی بات ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اولاد عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن ایسا نہ ہو حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اس لئے کہ جہاں ہم حقیقت کی راہ سے ہٹیں گے وہیں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا ۔
آج دنیا میں جو مسائل ہیں وہ کس بنیاد پر ہیں ، ساری دنیا کے فساد کی جڑ یہ ہے کہ حق کا سودا ہو رہا ہے ؟ حق کو کہیں طاقت کے بل پر کہیں پیسے کے بل پر کہیں شہرت کے بل پر دبایا اور چھپایا جا رہا ہے نتیجہ یہ ہے کہ جھوٹ کا دور دورہ ہے اور جھوٹ کا دور دورہ ہوگا وہاں انسانی اقدار پامال ہوں گے اپنے ذاتی فائدے کے لئے لوگ انسانیت کا خون کریں گے ، انسانی شرافت کی بولی لگائیں گے ہمارے گردو پیش میں جو حالات ہے آج وہ اسی قسم کے ہیں ، کتنی ڈھٹائی کے ساتھ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے دلوں پر نشتر لگایا جاتا ہے ، انکی مقدس کتاب کی ڈھٹائی کے ساتھ توہین کی جاتی ہے پھر اس کی تشہیر ہوتی ہے اور سراپا عالم اسلام کے احتجاج کے بعد دوبارہ اسی حرکت کو دہرایا جاتا ہے ، یہ کیا ہے یہ حق کو دبانے کی کوشش نہیں ہے ؟ یہ حق کو کچلنے کی کوشش نہیں ہے ؟ لیکن کیا حق کچلنے سے کچل سکتا ہے دبانے سے دب سکتا ہے ؟ حق کا تو مزاج ہی یہی ہے اسے جتنا دباو یہ ابھرتا ہے یہ نکھرتا ہے یہ اور مضبوط ہو کر سامنے آتا ہے ۔ اگر دنیا میں حق پرستی کا رواج ہو جائے تو کیا ممکن ہے کہ کسی ایک خاص مذہب یا مذہبی مقدسات کی اس طرح سر عام توہین ہو ؟
یہ عالمی سامراج کی ایک گھناونی چال ہے کہ وقفے وقفے سے ایسی اہانتوں کا سلسلہ رہے کہ لوگ اس کتاب سے نزدیک نہ ہو سکیں جو حق پرستی کا درس دیتی ہے ، یہ اور بات ہے کہ ہر بار سامراج کو منھ کی کھانی پڑی ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے
ہم پر زور طریقہ سے سوئیڈن میں تکرار ہونے والے حالیہ واقعہ کی مذمت کرتے ہیں اور یہ مذمت کرنا ہمارا حق ہے
کوئی ان معاملات پر بولے یا نہ بولے ہم ضرور بولیں گے چونکہ ہمارا تعلق کربلا سے ہے اور کربلا ہمیں آواز دیتی ہے حق پر اگر حرف آئے تو جان دے دو لیکن حق کا سودا نہ کرو ، سید الشہدا ء کے ساتھ کتنے ساتھی تھے صرف ۷۲ تھے لیکن ا ن بہتر ساتھیوں نے کربلا کے تپتے صحرا میں وہ داستان عشق لکھی جس کی نظیر نہیں ہے ، آج چودہ سو سال کے بعد بھی ہم ان لوگوں کا غم منا رہے ہیں جنہوں نے حق کی بالا دستی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا
یہ غم سید الشہدا ء محض غم نہیں ہے بلکہ ہمیں حقیقت حیات سے آشنا کرنے والا ایسا سرچشمہ ہے جو کبھی سوکھ نہیں سکتا آکر پیاسی روحیں سیراب ہوتی ہیں مزاج حقیقت شناس بنتے ہیں ، آج ہم سوچیں منی پور میں جو دلخراش حادثہ ہوا وہ کیوں ہوا ؟ کیونکر یہ انسانیت سوز حرکت ہوئی اور لوگ اس کے مقابل کچھ نہ کہہ سکے کیوں اسکی مخالفت میں جس طرح آواز اٹھنا چاہیے نہ اٹھی ؟ جب ہم اس کی تہوں میں جائیں گے تو ہمیں نظر آئے گا اس قسم کے واقعات اسی وقت رونما ہوتے ہیں جب سچائی کے محاذ پر خاموشی ہو اور لوگ حق کہنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں بلکہ حق بولنے کو جوکھم اٹھانے سے تعبیر کرتے ہوں ، چاہے قرآن کریم کی سوئیڈن میں توہین ہو یا منی پور کا دلخراش حادثہ جس نے انسانیت کو شرمندہ کیا کربلا والوں کے لئے دونوں ہی واقعات ایسے ہیں جو قابل مذمت ہیں اور ہم دونوں ہی کے سلسلہ سے پر زور مذمت کرتے ہوئے صاحبان فکر و نظر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ضروری چارہ کوئی کے سلسلہ سے مضبوط لائحہ عمل تیار کریں ، دنیا کو کسی سے توقع ہو نہ ہو لیکن ان لوگوں سے توقع ضرور رہے گی جنکی تاریخ حق کے لئے سر کٹا دینا رہی ہے ۔ آج جو حالات ملک کے چل رہے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں کس طرح ضمیروں کی بولیاں لگ رہی ہیں کس طرح قلم خریدے جا رہے ہیں کس طرح فکروں کے سودے ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں حق پامال ہو رہا ہے ، ہم سب کے لئے لازم ہے کہ جہاں بھی حق پامال ہو اپنی آواز بلند کریں کہ غم سید الشہداء حق کی راہ پر چلنا اور اسی راہ پر مرنے کا درس دیتا ہے ۔