فائرنگ سے 200 فلسطینیوں کا قتل، ’اسرائیل تحقیقات کرنے میں ناکام‘

دائیں بازو کے گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل حال ہی میں غزہ کی سرحدی پٹی پر احتجاج کے دوران فائرنگ سے 200 فلسطینیوں کو ہلاک اور ہزاروں کو زخمی کرنے کے حوالے سے تحقیقات کرنے میں ناکام ہوگیا ہے یہ ایسا عمل ہے جو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمے کو مضبوط کرتا ہے۔

فاران: اسرائیلی افواج نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’عوامی فسادات‘ غزہ کے حماس رہنما کے منظم کردہ تھے جس کا مقصد سرحد پر کیے گئے ان کے حملوں پر پردہ ڈالنا تھا۔

افواج نے کہا مبینہ بد سلوکی کی مکمل تحقیقات کی گئی تھی اور واقعے میں ملوث فوجیوں کو جواب دہ ٹھہرایا گیا تھا۔

مارچ 2018 سے غزہ کے سماجی اراکین کی جانب سے ہفتہ وار احتجاج کیا جاتا ہے ابتدائی طور پر احتجاج کا مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کی حالت زار کی نشاندہی کرنا تھا، جہاں یہ پناہ گزین موجود ہے یہ علاقہ اب اسرائیل کا حصہ ہے اور یہ غزہ کی تین چوتھائی آبادی پر مشتمل ہے اور یہاں 2 لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں۔

ناقدین کے مطابق، حماس نے جلد ہی مظاہروں کا ساتھ دیا اور جب اس گروپ نے 2007 میں حریف فلسطینی فورسز سے اقتدار حاصل کیا تو علاقے میں اسرائیلی-مصری ناکہ بندی کو کم کرنے کے لیے مظاہروں کا استعمال کیا گیا۔

18مہینوں سےتقریباً ہر ہفتے ہزاروں فلسطینی غزہ کی سرحد کے مختلف مقامات پر جمع ہوتے ہیں اور مظاہرہ کرتے ہوئے ٹائر نذر آتش کرتے ہیں اور فائر بم پھینکتے ہیں۔

مظاہروں کے دوران اسرائیلی نشانہ بازوں کی جانب سےگولیاں ماری گئی تھیں ربر بولٹ اور آنسو گیس بھی پھینکا گیا تھا تاہم اسرائیل نے اس عمل کو اپنا دفاع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب اسرائیل پر دھاوا بولنے والے ہزاروں فلسطینیوں سے حفاظت کے لیے کیا گیا تھا۔

غزہ کے انسانی حقوق کے مرکز المیزان کے مطابق اسرائیلی فائرنگ میں تقریباً 215 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جس میں متعدد غیر مسلح تھے، ہلاک ہونے والوں میں 47 کی عمر 18 سال سے کم تھی اور ان میں 2 خواتین بھی شامل تھیں۔