فرانسیسی حکومت اور ریاستی اسلاموفوبیا

مغرب نے ایک طرف تکفیری دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور اسلام کا بدنما چہرہ دکھانے کیلئے ہمیشہ اس کی ترویج کی جبکہ دوسری طرف سرکاری طور پر قومی شدت پسندی اور اسلاموفوبیا کو فروغ دیا ہے۔ تکفیری دہشت گردی اور نسل پرستانہ اسلاموفوبیا کے درمیان دوطرفہ تعاون ایک ہی مرکز یعنی امریکہ اور یورپ (خاص طور پر فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور سیاسی اداروں) کی جانب سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ان دنوں ایک بار پھر گستاخ مجلے چارلی ہیبڈو کا چرچا جاری ہے۔ اکثر تجزیہ کار درست طور پر سمجھتے ہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کے خلاف گستاخی پر مبنی اس مجلے کے حالیہ توہین آمیز اقدام کے حقیقی اسباب فرانس کے سیاسی اور سکیورٹی سیٹ اپ اور اس کی جانب سے اس مجلے کی باقاعدہ حمایت میں مضمر ہیں۔ لیکن اس مسئلے کی وضاحت کیسے ممکن ہے؟ پیرس میں جای سرکاری سطح پر اسلاموفوبیا اور ایرانوفوبیا کے اصل اسباب کیا ہیں؟ ہم یہاں پر فرانس میں ایک نظریاتی اور سکیورٹی ایجنڈے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس ایجنڈے کے تحت ہر اس فرد پر حملہ اور اس کا تمسخر ضروری ہے جو لبرل ڈیموکریسی نظام کی پوشیدہ اور عیاں بیہودگی اور کمزوریوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں ہم اسلاموفوبیا کے عمل سے روبرو ہوتے ہیں۔ مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کے سرکاری پرچار میں مغربی ممالک کے سکیورٹی اداروں کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اجنبیوں کے خلاف خوف و ہراس پھیلانا، مسلمانوں سے نفرت کا فروغ، نسل پرستی، جمہوریت کی تحقیر وغیرہ ایسے بنیادی نظریات اور ماڈلز ہیں جو پیرس کے ظاہر اور خفیہ طاقتور اداروں کی جانب سے پھیلائے جاتے ہیں۔ اس عمومی حکمت عملی کی روشنی میں سیاسی اسلام، انقلاب اسلامی ایران اور ہر اس چیز کو جس کا نتیجہ فرانس پر حکمفرما سیاسی سکیورٹی نظام کی حقیقت کے بارے میں عوامی آگاہی کی صورت میں نکلتا ہو، توہین آمیز اقدامات، تمسخر اور طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس عمل کا نام آزادی اظہار رکھ دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے فرانس اور دیگر مغربی ممالک پر حکمفرما نسل پرست گروہوں کو اسلاموفوبیا کا بہانہ فراہم کرنے کیلئے ایک زندہ اور قابل محسوس خطرے کی ضرورت تھی۔ اگر ایسا خطرہ موجود نہ ہوتا تو اسلاموفوبیا کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا تھا اور وہ دھمکی آمیز اقدامات کے ذریعے مغربی دنیا میں اپنے سیاسی اور نظریاتی حامی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔

لہذا مغرب کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے 2013ء میں سرکاری طور پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد ہمیشہ اسے زندہ اور فعال رکھنے کی کوشش کی۔ داعش کی تشکیل میں فرانسیسی حکام کا کردار بہت گہرا تھا۔ اگلے قدم کے طور پر اپنی ہی ایجاد کردہ تکفیری دہشت گردی کے خلاف اسلاموفوبیا مہم شروع کر دی۔ گلوبل کامنٹ نامی ویب سائٹ پر ایریکا ہیلڈ والڈ نے 2016ء میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں داعش اور مغربی اسلاموفوبیا کے درمیان تعلق واضح کیا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتی ہیں: “داعش اور مہاجرین مخالف (اسلام مخالف) گروہ دونوں کا مقصد ایک ہے اور وہ اسلام اور مسیحیت کے خلاف جنگ ہے۔ داعش اور مغربی اسلام دشمن عناصر دونوں اپنے لئے نئے افراد بھرتی کرنے کیلئے خوف و ہراس پھیلانے کا ہتھکنڈہ بروئے کار لاتے ہیں۔ داعش ایسے افراد کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتی ہے جو شدت پسند ہوتے ہیں اور معاشرے میں گوشہ نشینی کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کے بعد ان کی برین واشنگ کرتے ہیں۔

اسی طرح نسل پرست گروہ بھی ایسے افراد کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں شدت پسندانہ رجحانات پائے جاتے ہوں اور وہ سماجی خوف کا شکار ہوں۔ وہ اس قسم کے افراد کو مہاجرین، سیاہ فام شہریوں اور مسلمانوں کی جانب سے درپیش خطرات کا یقین دلاتے ہیں۔” ایمونوئیل میکرون کا اصلی ترین مقصد مغرب سے وابستہ دو گروہوں (تکفیری دہشت گردی اور اسلام مخالف) کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ہے۔ مغربی سیاست دان اور امریکہ اور یورپی یونین کی انٹیلی جنس ایجنسیز انتہائی بے حیائی سے اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اس منصوبے میں فرانسیسی حکام بھرپور کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران نہ صرف ان دونوں گروہوں (تکفیری دہشت گردی اور اسلاموفوبیا دہشت گردی) کا مقابلہ کر رہا ہے بلکہ ان دونوں قسم کی دہشت گردی کی تشکیل اور فروغ میں فرانس جیسے ممالک کا کردار بھی واضح کر رہا ہے۔

شام اور عراق میں مغرب اور صیہونی رژیم کی توقع کے برخلاف اسلامی مزاحمت کے شہداء کے خون کی برکت سے داعش کی خلافت ختم ہو جانے کے بعد مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز نے تکفیری دہشت گردی کے احیاء پر کام کرنا شروع کر دیا۔ مغربی ایشیا میں داعش کے بچے کھچے عناصر سے متعلق مغربی روڈ میپ کی روشنی میں بعض دہشت گرد عناصر کو براعظم افریقہ منتقل کیا گیا جبکہ داعش کے بعض عناصر کو خطے امریکہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں باقی رکھا گیا ہے۔ اسی طرح تکفیری دہشت گردوں کی ایک تعداد افغانستان بھیجی گئی ہے۔ اس دوران مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز نے اسلاموفوبیا، ایرانوفوبیا اور نسل پرستی کو قابل مذمت عمل سے نکال کر ایک فکری رجحان بنانے کی کوشش کی ہے۔ یورپ میں بہت سے ایسے نازی، فاشسٹ اور اسلام دشمن عناصر جو حتی اپنا عقیدہ بیان کرنے سے ڈرتے تھے آج یورپی ممالک کے رکن پارلیمنٹ اور رکن کابینہ بنے ہوئے ہیں۔

مغرب نے ایک طرف تکفیری دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور اسلام کا بدنما چہرہ دکھانے کیلئے ہمیشہ اس کی ترویج کی جبکہ دوسری طرف سرکاری طور پر قومی شدت پسندی اور اسلاموفوبیا کو فروغ دیا ہے۔ تکفیری دہشت گردی اور نسل پرستانہ اسلاموفوبیا کے درمیان دوطرفہ تعاون ایک ہی مرکز یعنی امریکہ اور یورپ (خاص طور پر فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور سیاسی اداروں) کی جانب سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں اعتدال پسند تصور کی جانے والی روایتی سیاسی جماعتوں (سوشل ڈیموکریٹس اور کنزرویٹوز) نے بھی جان بوجھ کر یا انجانے میں اس خطرناک کھیل سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون اور اس کے ساتھی اپنے اس خطرناک اور دہشت گردانہ کھیل کا بھاری تاوان ادا کریں گے۔