فلسطینوں پر تشدد میں اضافہ

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے بھی مسجد الاقصیٰ پر صیہونی آبادکاروں کے حملے کی مذمت کی ہے اور اسے ان حملوں کا تسلسل قرار دیا ہے، جس سے فلسطینی نوجوانوں کو قابض افواج کے خلاف مزاحمت اور حملے جاری رکھنے کے لیے دوہرا حوصلہ ملتا ہے۔

فاران: گذشتہ روز اتوار کی صبح صہیونی فوجیوں نے مغربی کنارے کے شہر تلکرم پر حملہ کرکے دو فلسطینی نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ طولکرم میں نورشامس کیمپ پر صیہونی فوجیوں کا یہ حملہ تقریباً 5 گھنٹے تک جاری رہا۔ فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کرنے کے لیے اس آپریشن میں سو سے زائد فوجی گاڑیوں اور بلڈوزروں نے بھی حصہ لیا۔ اس حملے میں دو فلسطینی نوجوان شہید ہوئے اور متعدد رہائشی مکانات تباہ اور متعدد فلسطینی نوجوان زخمی بھی ہوئے۔گذشتہ ہفتے صہیونیوں نے فلسطینیوں پر شدید تشدد کیا، جس میں سات فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔

“واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ” نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: “مغربی کنارے میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اعداد و شمار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ صورت حال تشویش ناک ہو رہی ہے۔ رواں سال جنوری سے جولائی تک مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی مزاحمتی کارروائیوں میں 28 صہیونی مارے گئے ہیں، جبکہ 137 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد دو عوامل کی وجہ سے ہے: پہلا عنصر یہ ہے کہ مزاحمت مغربی کنارے تک پھیل گئی ہے اور پچھلے ڈیڑھ سال میں مغربی کنارے میں بڑی تعداد میں مزاحمتی گروپ تشکیل پائے ہیں۔

صیہونی حکومت نے ہمیشہ مزاحمت کو مغربی کنارے تک پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی، لیکن بعض عرب ممالک کے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں مسلسل اضافے کے بعد مغربی کنارے کے نوجوان اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطین کے دفاع کا واحد راستہ مزاحمت ہے۔ اس سے پہلے جہادی گروہ صرف مقبوضہ علاقوں کے جنوب میں اور غزہ کے علاقے میں فلسطینیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے، لیکن گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران فلسطین کے مشرق میں واقع مغربی کنارہ صیہونیوں کے خلاف مجاہدین کی پناہ گاہ بن گیا ہے۔ اس علاقے میں فلسطینی نوجوانوں کی مسلح کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

دوسرا عنصر یہ ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی انتہائی انتہاء پسند کابینہ کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور انتہاء پسندی کو بڑھا کر وہ مغربی کنارے میں مزاحمتی گروپوں کی پوزیشن کو کمزور کرکے ان کو دہشت و خوف زدہ کرسکتے ہیں۔ نیتن یاہو کی کابینہ کے کچھ ارکان، خاص طور پر اس حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر “اٹمار بین گوئر” فلسطینیوں پر تشدد اور جبر میں اضافے پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وسیع تر تشدد نے نہ صرف مغربی کنارے میں مزاحمت کی مضبوطی کو نہیں روکا ہے بلکہ فلسطینیوں کے اتفاق اور مغربی کنارے میں صیہونیوں کے خلاف مزاحمت کے لیے ان کے عزم میں مزید استحکام آیا ہے۔

اس سلسلے میں تلکرم پر صیہونیوں کے گذشتہ روز کے حملے کے بعد مختلف فلسطینی گروہوں اور عوامی اداروں نے صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے عوامی سوگ کا اعلان کیا اور اپنی جہادی سرگرمیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تلکرم میں فتح تحریک کے ترجمان “منذر الحیک” نے بھی کہا ہے کہ “قابض حکومت یہ سمجھتی ہے کہ قتل و غارت اور جارحیت کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر وہ فلسطینی عوام کی عزم و ارادہ کو توڑ سکتی ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے بھی مسجد الاقصیٰ پر صیہونی آبادکاروں کے حملے کی مذمت کی ہے اور اسے ان حملوں کا تسلسل قرار دیا ہے، جس سے فلسطینی نوجوانوں کو قابض افواج کے خلاف مزاحمت اور حملے جاری رکھنے کے لیے دوہرا حوصلہ ملتا ہے۔