فلسطینیوں کا ہدف آزادی نہیں، اسرائیل کا خاتمہ ہے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حماس کی جانب سے اسرائیل پر حالیہ حملے نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ حماس نے اچانک حملوں کا آغاز کیا۔ یہ حملے، زمینی، بری اور ہوائی تینوں محاذوں سے ہوئے، مقبوضہ علاقوں میں میزائلوں کی بارش نے صہیونیوں کو خوف میں مبتلا کر دیا اور اسرائیل عوام اتنے خوفزدہ ہوئے کہ ایئر پورٹ پر رش لگ گیا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ پورا اسرائیل ہی راہ فرار اختیار کرچکا ہے۔ اسرائیل پر حماس کے اس حملے کے بعد سعودی عرب مشکل میں آگیا ہے۔ بعض مبصرین کہہ رہے ہیں کہ حماس کے اسرائیل پر یہ حملے سعودی عرب اسرائیل تعلقات کے تناظر میں کئے گئے ہیں، کیونکہ حماس عرب ممالک کے اسرائیل کیساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کو حماس اپنے ساتھ دھوکہ سمجھتی ہے۔ سعودی عرب پچھلے بیس سال سے پاکستان پر اسرائیل کیساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا۔ سعودی عرب سمیت عرب ممالک اسرائیل کے معاملے میں دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ وہ اسرائیل کیساتھ بھی رہنا چاہتے ہیں اور حماس سمیت فلسطین کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتے کہ وہ “ہمارے مسلم بھائی” ہیں۔ حماس کا اسرائیل پر یہ حملہ ایران سمیت مشرق وسطیٰ کیلئے فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔
حماس کے حملے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے اور ممکن ہے سعودی عرب اب کھل کر سامنے آجائے اور اسرائیل کی مخالفت شروع کر دے۔ کیونکہ محمد بن سلمان جانتے ہیں کہ پوری اُمت مسلمہ اسرائیل کو ناپسند کرتی ہے۔ اگر سعودی عرب امت کو چھوڑ کر اسرائیل کی ڈوبتی کشتی پر سوار ہوتا ہے تو یہ مسلم دنیا کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اسرائیل نے پچھلے کئی سال سے غزہ کا مکمل محاصرہ کیا ہوا ہے، اس کے مظالم مسلسل بڑھ رہے تھے۔ اسرائیل روز بروز نئی آبادیاں بنانے کیلئے فلسطین کی زمین پر اپنا قبضہ بڑھاتا جا رہا تھا۔ یہ ردعمل فطری ہے اور ایسا ایک نہ ایک دن ہونا تھا، جو اَب ہوگیا ہے۔ حماس کے حملے کے بعد امریکا اس معاملہ میں ایران پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ وائٹ ہاؤس کے سینیئر عہدیدار نے کہا ہے کہ “یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اسرائیل پر حماس کے حملے میں ایران براہ راست ملوث ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ شبہ نہیں کہ ایران اور دیگر ممالک حماس کی مالی امداد کرتے ہیں اور انہیں مسلح کرتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے سینیئر عہدیدار نے مزید کہا کہ اسرائیل کو امریکی فوجی مدد فراہم کرنے کیلئے رابطے جاری ہیں۔”
اگر دیکھا جائے تو حماس کے حملے کے بعد یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ اسرائیلی ظلم و بربریت کیخلاف جانوروں جیسی زندگی گزارتے فلسطینیوں کا ردعمل ہے، فلسطین سکڑتا ہوا غزہ تک آگیا ہے، اَب بھی حماس ردعمل نہ دکھاتی تو اسرائیل نے غزہ کو بھی ہڑپ کر لینا تھا۔ چین نے سعودی عرب اور ایران کو ساتھ بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے ان حملوں کی آڑ میں اسرائیل اور امریکا کا ٹارگٹ ایران اور چین بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ جنگ بڑھی تو خدشہ ہے کہ ایران اور اسرائیل تک پھیل جائے گی، اس صورت حال میں پہلے چین اور پھر امریکا بھی اس میں کود جائیں گے۔ حماس کے حملے کے بعد سعودی عرب مشکل میں ہے، صورتحال مزید خراب ہوئی تو دنیا بہت مشکل میں آجائے گی۔ اسرائیل کیخلاف حماس کی جوابی کارروائی کے معاملے پر دنیا تقسیم ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں اسرائیل کی حمایت کی جا رہی ہے، تو کہیں فلسطین کیساتھ اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ان کا ملک چٹان کی طرح اسرائیل کیساتھ کھڑا ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کیساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔برطانوی وزیراعظم رشی سونک، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جرمن چانسلر اولف شولز اور اٹلی نے حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
ادھر روس نے اسرائیل اور فلسطین دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر سیز فائر کریں۔ چین صورتحال پر فی الحال خاموش ہے اور تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران، یمن، شام اور افغانستان نے حماس کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسے مبارکباد پیش کی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مشیر یحیٰ رحیم صفوی نے حماس کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین اور القدس کی آزادی تک وہ فلسطینیوں کیساتھ ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ حماس کا حملہ فلسطینیوں کے اعتماد کا مظہر ہے، افغانستان کی طالبان حکومت نے بھی اسرائیل کیخلاف فلسطینی مزاحمت کو فلسطینیوں کا جائز حق قرار دیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کیلئے مزاحمت فلسطینیوں کا جائز حق ہے۔ شامی وزارت خارجہ نے حماس کے آپریشن کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس اپنا حق حاصل کرنے کا واحد راستہ ہی مزاحمت ہے۔ دمشق نے صہیونی دہشتگردی کیخلاف لڑائی کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ سعودی عرب، قطر اور کویت نے کہا ہے کہ حماس کا حملہ اسرائیلی کارروائیوں کا نتیجہ ہے، تینوں ممالک نے حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔
ترکیہ، مصر اور متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ فریقین صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اسرائیل پر حملے اس کی نسل پرستانہ کارروائیوں اور جارحیت کا جواب ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ تحمل سے کام لیں اور ایسی معاندانہ کارروائیوں سے گریز کریں، جس سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مشرق وسطی میں تشدد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دارالحکومت القدس شریف پر مشتمل قابل عمل اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے مشرق وسطی میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافے پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تشدد میں اضافہ مسئلہ فلسطین کے فوری حل کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ فریقین ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر دارالحکومت القدس شریف پر مشتمل قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست کے دو ریاستی حل سے مشرق وسطی میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔
یہ موقف تو پاکستان کے وزیراعظم کا ہے، جو دو ریاستی حل کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان کے عوام دو ریاستی نہیں بلکہ ایک ریاستی حل اور وہ بھی صرف فلسطین کے حامی ہیں۔ عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیط نے غزہ میں فوجی آپریشن کے خاتمے اور جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے متشدد اور انتہاء پسندانہ پالیسیوں کا مسلسل نفاذ ایک ٹائم بم ہے، جو خطے کو مستقبل قریب میں استحکام کے کسی بھی اہم موقع سے محروم کر رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تصادم عالمی جنگ کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ حماس کے حکام کا کہنا ہے کہ روز روز کے مرنے سے ایک دن ہی مرنا بہتر ہے اور جب یہ بات ذہن میں آجائے تو موت کا خوف ختم ہو جاتا ہے، اب حماس سمیت دیگر فلسطینی تحاریک متحد ہیں اور ان کا ہدف اسرائیل سے آزادی نہیں بلکہ اسرائیل کے ناجائز وجود کا خاتمہ ہے۔ جس کیلئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کا عہد کرچکے ہیں۔
تبصرہ کریں