فلسطین میں اسلامی مزاحمت کا روشن مستقبل

آج جو مزاحمتی کاروائیاں انجام پا رہی ہیں وہ محض جنین کیمپ کے شہداء کے خون کا بدلہ نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور مضبوط ارادے کا نتیجہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو موجودہ فلسطینی نسل کو گذشتہ نسلوں سے ممتاز کرتی ہے اور صیہونی آبادکاروں کی وحشت مزید شدید ہونے کا باعث بھی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: تقریباً ڈیڑھ سال قبل میں عرب دنیا کے ایک معروف سیاسی رہنما کے ہمراہ ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن جا رہا تھا۔ اس نے مجھے سے پہلا سوال یہ پوچھا کہ آپ کی نظر میں فلسطین کی کون سی سیاسی شخصیت فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی جگہ سنبھالے گی اور وہ مقبوضہ عرب سرزمینوں کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کرے گی؟ اور اس کی ان پالیسیوں کی کامیابی کا کتنا امکان پایا جاتا ہے اور اسے کس قدر عوامی حمایت حاصل ہو گی؟ میں نے اس سیاسی رہنما کے سوالوں کا جواب دیا اور کہا کہ میری نظر میں محمود عباس کا کوئی جانشین نہیں ہو گا اور میں یہ بات یقین سے کہہ رہا ہوں کہ عنقریب فلسطین اتھارٹی اور محمود عباس کی جگہ اسلامی مزاحمت لے لے گی۔ وہ اسلامی مزاحمت جو ماضی کے برعکس جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو چکی ہے اور اسے کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔

عرب دنیا کا یہ معروف سیاسی رہنما میرے جواب پر تعجب کا اظہار کرنے لگا اور سمجھا کہ میں اسلامی مزاحمت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس نے مقبوضہ فلسطین میں حالیہ مزاحمتی کاروائیوں کی خبریں پڑھی ہوں گی۔ یہ مزاحمتی کاروائیاں مختلف اسلامی مزاحمتی گروہوں جیسے جنین بٹالینز، عرین الاسود، الاقصی بٹالینز، القسام بٹالینز، نابلس بٹالینز اور القدس بریگیڈز کی جانب سے انجام پا رہی ہیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین اتھارٹی ایک خاموش تماشائی کی طرح سب کچھ دیکھے جا رہی ہے اور اس کیلئے گویا کوئی واقعہ انجام ہی نہیں پایا۔ مغربی کنارے میں 8 لاکھ کے لگ بھگ مسلح صیہونی آبادکار غاصب صیہونی فوج اور یورپی اور امریکی بین الاقوامی حمایت کی آڑ میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی شدت پسند پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

یہ مسلح صیہونی آبادکار ایسی دہشت گرد ملیشیا میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں جو کسی قانون کو نہیں پہچانتے۔ لیکن غاصب صیہونی حکمرانوں کے ان اقدامات کا نتیجہ اس چیز کے بالکل برعکس ظاہر ہو رہا ہے جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ صیہونی رژیم کی سلامتی اور استحکام پوری طرح متزلزل ہو چکی ہے جس کا حتمی نتیجہ اس کے زوال کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ صیہونی دشمن سے مقابلہ کرنے کا اگلا مرحلہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی نیز گولان ہائٹس میں فلسطینی اور شامی جوانوں کو مسلح کرنے پر مشتمل ہو گا۔ ایسے وقت جب صیہونی رژیم مقبوضہ عرب سرزمینوں میں صیہون بستیوں کے پھیلاو اور مسلمان شہریوں کے قتل عام میں مصروف ہے، فلسطین اور عرب دنیا میں عوامی مسلح گروہوں کی تشکیل ان کے مقابلے کا واحد جائز اور معقول راستہ ہے۔

گذشتہ چند دنوں میں ہم نے دیکھا کہ اس دہشت گرد صیہونی ملیشیا نے کس طرح رام اللہ، نابلس اور البیرہ میں فلسطینی شہروں اور دیہاتوں پر وحشیانہ حملے کئے اور فلسطینیوں کے گھر جلا دیے۔ یہ بربریت خاص طور پر ترمسیعا نامی گاوں میں دیکھنے میں آئی جہاں ایک فلسطینی شہید اور دسیوں دیگر زخمی ہو گئے۔ ان دہشت گرد صیہونیوں نے فلسطینیوں کی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ جب غاصب صیہونی کابینہ کا فاشسٹ اور نازی وزیر ایتمار بن گویر فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور نیتن یاہو عیلی بستی میں ہزاروں صیہونی فلیٹس تعمیر کرنے کا عندیہ دے کر اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جاتا ہے اور صیہونی کابینہ کا ایک اور فاشسٹ وزیر بزالل اسموتریچ مغربی کنارے میں دسیوں ہزار فوجیوں کی مدد سے وسیع فوجی آپریشن کی دھمکی دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل صحیح معنوں میں ایک مافیائی گینگ ہے۔

نیتن یاہو، بن گویر اور اسموتریچ جس ممکنہ وسیع فوجی آپریشن کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ 2002ء میں انجام پانے والے “دفاعی دیوار” نامی آپریشن سے ملتا جلتا ہے۔ یہ آپریشن فلسطینیوں کا پہلا انتفاضہ کچلنے کے مقصد سے انجام پایا تھا اور اس میں سینکڑوں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے لیس 30 ہزار صیہونی فوجی شریک تھے۔ لیکن وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ یہ انتفاضہ غاصب صیہونی رژیم سے سازباز کرنے کے خلاف شروع ہوا تھا اور پانچ سال تک جاری رہ کر 2005ء میں رک گیا تھا۔ البتہ اس کے رک جانے کی اصل وجہ ایک بین الاقوامی فریب اور مکاری تھی جس کے جال میں فلسطین اتھارٹی جا پھنسی تھی۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز انتفاضہ کا ساتھ دینے میں مصروف تھیں اور یوں اپنی قومی، دینی اور اخلاقی ذمہ داری ادا کر رہی تھیں۔

آج جو مزاحمتی کاروائیاں انجام پا رہی ہیں وہ محض جنین کیمپ کے شہداء کے خون کا بدلہ نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور مضبوط ارادے کا نتیجہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو موجودہ فلسطینی نسل کو گذشتہ نسلوں سے ممتاز کرتی ہے اور صیہونی آبادکاروں کی وحشت مزید شدید ہونے کا باعث بھی ہے۔ عبری زبان کی ویب سائٹ “کیبا” صیہونی ریزرو فوج کے جرنیل عرشون ہیکوہین کے بقول اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتی ہے: “جو کچھ جنین میں ہوا وہ ایک تاریخ ساز مسئلہ ہے۔ کیونکہ مسئلہ صرف چند مسلح افراد کا اسرائیل کی بکتر بند گاڑی کی جانب فائرنگ کرنے تک محدود نہیں بلکہ اصل مسئلہ وہ معرکہ ہے جس میں سو مسلح افراد نے شرکت کی۔” یہ تمام باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مستقبل قریب میں فلسطین کی اسلامی مزاحمت ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آنے والی ہے۔