قاہرہ بھیجے جانے والے نئے اسرائیلی وفد کے پس پردہ حقائق
فاران: صہیونی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل کا ایک نیا وفد آج قاہرہ کا دورہ کرے گا جہاں وہ حماس سے مذاکرات اور تین نئے مطالبات پیش کرے گا۔
فارس نیوز ایجنسی انٹرنیشنل گروپ؛ اسرائیلی فوجی اور سیاسی کابینہ آج پیر کی شام تل ابیب کی کیریا عمارت میں ایک اجلاس منعقد کرنے والی ہے جس میں حماس کے ساتھ معاہدے کے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے آغاز اور امدادی قافلوں، خیموں اور پہلے سے تیار شدہ مکانات کی پٹی میں داخلے کی تحریک کی درخواست پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یہ بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک اسرائیلی وفد حماس کے ساتھ مذاکرات کی تجدید کے لیے قاہرہ کا سفر کرنے والا ہے۔ اسرائیل کے چینل 14 ٹیلی ویژن نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کے مطالبات میں تین چیزیں شامل ہیں: 1- تمام قیدیوں کی رہائی 2- حماس کے عسکری ونگ کا خاتمہ 3- حماس کے رہنماؤں کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کرنا۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی “معا” نے یہ خبر شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل یہ مطالبات یہ جانتے ہوئے کر رہا ہے کہ تحریک حماس انہیں قبول نہیں کرے گی۔ لیکن اس طرح نیتن یاہو یہ عذر پیش کریں گے کہ حماس مذاکراتی عمل میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آج قاہرہ پہنچنے والا وفد اس وفد سے مختلف تھا جو اکثر مذاکرات کے لیے مصر جاتا تھا۔ نئے وفد کی سربراہی محکمہ قیدیوں اور لاپتہ افراد کے سربراہ گیل ہرش کر رہے ہیں، جو اس سے قبل مذاکرات کے لیے قطر گئے تھے۔
اسرائیل کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل 14 نے کہا کہ یہ مذاکراتی ٹیم کی سابقہ ساخت سے الگ ہے جس میں شن بیٹ کے سربراہ رونن بار، موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا اور جنرل نطزان ایلون شامل تھے۔ برنیا کو چھوڑ کر، ٹیم کے دیگر دو ارکان کے ساتھ وزیر اعظم نیتن یاہو کے تعلقات اچھے نہیں تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے مذاکراتی ٹیم کی ساخت میں تبدیلی کو ترجیح دی۔
نیتن یاہو نے گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کی اور دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کے دوسرے مرحلے کو آگے بڑھانا ضروری ہے تو بھی اسرائیل اپنے تین مطالبات مکمل امریکی حمایت کے ساتھ پیش کرے گا۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ حماس کو غیر مسلح کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان کا اصرار ہے کہ دوسرے مرحلے میں مذاکرات کامیاب ہوں۔ ہم اس ہفتے کے آخر میں ایک اور اسرائیلی وفد کو قطری دارالحکومت کے لیے روانہ ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
دوسری طرف العربی الجدید اخبار نے آج لکھا ہے کہ حماس کی قیادت نے مصر سمیت کئی عرب ممالک کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کی انتظامیہ اور آزاد فلسطینی گروپوں کے ذریعے اس علاقے کے انتظام کی حمایت کے لیے تیار ہے۔ لیکن وہ اپنے ہتھیار کبھی نہیں ڈالیں گے۔
رپورٹ کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار صرف اسی صورت میں رکھے گی جب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک واضح اور بروقت نظام الاوقات کا اعلان کیا جائے اور مزاحمتی قوتوں کو فلسطینی ریاست کے سرکاری سیکیورٹی باڈی میں ضم کیا جائے۔
تبصرہ کریں