قبلہ اول کی پکار اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں

درحقیقت استعمار اور صہیونزم کیخلاف ایک ہمہ گیر اعلانِ جنگ ہے، اور اس کا نصب العین فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کیخلاف مظاہروں اور مسلح مزاحمت میں شدت آ گئی ہے۔ آزادی کی یہ جنگ ایک ایسی صبح روشن کی نوید دیتی ہے، جو فلسطین کے مسلمان مجاہدوں کی کوششوں سے جلد ہی طلوع ہونے کو ہے۔

فاران: آج ارض فلسطین ایک مرتبہ پھر لہو لہو ہے، فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا ہے، یہودی جو صدیوں سے در بدر تھے ،آج وہ اس زمین کے اصل مالکان کو بے گھر کرنے کے درپے ہیں۔ آج ارض فلسطین انسانیت کو پکار رہی ہے، آج ارض فلسطین امت مسلمہ کی راہ دیکھ رہی ہے۔ تقریباً نصف صدی پہلے حضرت امام خمینیؒ نے اپنی اعلیٰ بصیرت سے انقلاب اسلامی کے آغاز سے لیکر اب تک ہمیشہ اور ہر موقع پر فلسطین کا ذکر کیا ہے اور اس سرزمین کی آزادی کو تحریک اسلامی کا کہ مقدس نصب العین قرار دیا ہے۔ امامؒ نے کئی بار اعلان فرمایا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا تعلق صرف فلسطینیوں اور عرب قوم سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق جہانِ اسلام سے ہے، کوئی مسلمان چاہے وہ دنیا کے کسی دور درانہ کونے میں ہی کیوں نہ رہتا ہو، اگر اس کے پاس قدرت و وسائل موجود ہیں تو اسے سرزمین فلسطین کی آزادی کیلئے کوشش کرنی چاہیئے”۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر کبیر کی طرف سے جمعتہ الوداع کا وہ پیغام میں میں اس دن کو یوم القدس قرار دیا گیا ہے۔

درحقیقت استعمار اور صہیونزم کیخلاف ایک ہمہ گیر اعلانِ جنگ ہے، اور اس کا نصب العین فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کیخلاف مظاہروں اور مسلح مزاحمت میں شدت آ گئی ہے۔ آزادی کی یہ جنگ ایک ایسی صبح روشن کی نوید دیتی ہے، جو فلسطین کے مسلمان مجاہدوں کی کوششوں سے جلد ہی طلوع ہونے کو ہے۔ بیت المقدس کی آزادی و اہمیت سے متعلق قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا جس میں جمعتہ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا۔ اس پیغام میں امام امت نے ارشاد فرمایا ’’میں دنیا بھر کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ غاصب اسراییل اور اس کے طرفداروں اور سرپرستوں کیخلاف اپنی آواز بلند کریں‘‘ جو فلسطینی عوام کی تقدیر متعین کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اسے یوم القدس کے طور پر منائیں۔ اس پیغام کے بعد ہر سال تمام دنیا اسلام میں عالمی یوم القدس پہلے سال سے زیادہ شکوہ و جلال سے منایا جاتا ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں لاکھوں آزادی پسند مسلمان القدس کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں اور وہ القدس کی غاصب حکومت کے بڑھتے ہوئے تسلط اور روز افزوں سازشوں کے مقابلے کیلئے تیاری کرتے ہیں۔

ایک طویل عرصہ ہو گیا ہے کہ انہوں نے اسلام کی حیات بخش راہنمائی میں ان غاصبوں سے جنگ چھیڑ رکھی ہے اور نہتے فلسطینی صہیونی طاقتوں سے برسرپیکار ہیں اور اپنے حق کے حصول کیلئے فلسطینی مسلمانوں کی اس جنگ نے ایک طرف تو القدس پر قابض ان غاصب حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، جو سامراجیت اور بڑی طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور انہیں مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کے بڑھتے ہوئے مظالم و مسلمانوں کے قتل عام کا نوٹس لیں۔ جس کی حالیہ مثال فلسطینیوں کا قتل عام اور آن واحد میں غزہ کے ایک ہسپتال پر بمباری کرکے پانچ سو بچوں، عورتوں اور مریضوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔(بیت المقدس ) دنیا بھر کے مسلمانوں کا قبلۂ اول کیونکہ فلسطین کی سرزمین توحیدی ادیان کے ماننے والوں کیلئے بے پناہ عزت و احترام اور تقدس کی حامل ہے۔ اس لئے ہم اپنے معزز قارئین کو بیت المقدس کے مفصل تعارف اور القدس پر غاصب حکومت کے مظالم اور ان کی جارحانہ سیاسی پالیسیوں سے اجمالاً آگاہ کرنے کیلئے القدس کا جغرافیہ اور مختصر تاریخ بیان کرتے ہیں۔

بیت المقدس یا القدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ، دوسرا حرم اور فلسطین کا دارالخلافہ ہے۔ بیت المقدس ایک قدیمی شہر ہے اور تمام توحیدی ادیان کے نقطہ نظر سے بے حد مقدس و محترم مقام ہے اور ایک سرسبز و شاداب ٹیلے پر آباد ہے۔ موجودہ بیت المقدس ایک ایسا مقام ہے، جس کا رقبہ 108 مربع کلومیٹر ہے۔ شہر کا بڑا حصہ جو القدس کے نام سے مشہور ہے۔ 1860ء کے بعد وجود میں آیا تھا۔ شہر القدس کا پرانا حصہ موجودہ بیت المقدس کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور اسے پرانا شہر کہا جاتا ہے۔ بیت المقدس، بعثت رسول سے ہجرت کے دوسرے سال تک مسلمانوں کا قبلہ رہا۔ مسجد ” مسجد بیت المقدس مسلمانوں کی ان چار اہم ترین مساجد میں سے ہے، جن میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے، بیت المقدس جو کہ برگزیدہ شخصیتوں اور اللہ کے فرستادہ انبیاء کا شہر ہونے کیساتھ ساتھ قبلہ اول اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے، تقریباً پانچ ہزار سال پہلے بلکہ اس سے بھی پہلے بھی بلکہ اس سے بھی پہلے رسم الخط کی ایجاد کے وقت موجود تھا اور اس میں کنعانیوں اور فلسطینیوں کی ضروریات زندگی پوری ہوتی رہتی تھیں۔

اگرچہ اس شہر کی عروج و زوال سے بھری ہوئی صدیوں کی تاریخ حملوں، قتل وغارت اور خونریزی کے کئی واقعات کی شاہد ہے، اسرائیل کے نام سے وجود میں آنیوالی غاصب صہیونی حکومت نے جنم لیتے ہی اس مقدس سرز مین میں پیدا ہو گیا۔ اسرائیل کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ کچھ بین الاقوامی مجرم اسلامی ممالک کے دلوں میں ایسے نفاق وکینہ کے بیج بو دیں، جو سرطان کی طرح اسلامی ممالک کے تمام شعبوں میں سرایت کر جائیں اور دنیائے اسلام کو اپنی مسلسل سازشوں اور قریب کاریوں سے دو چار کرکے القدس کے مقدس شہر کو ان بین الاقوامی جارحیت پسندوں کا اڈہ بنا دیں۔ 1947ء میں اسرائیل نام کے اس غاصب حکومت کے جنم لیتے ہی استعماری طاقتوں کی مکارانہ سازشوں پر عملدرآمد شروع ہو گیا اور مسلمانوں کو ان کے گھروں اور آبائی جگہوں پر قتل عام کیا جانے لگا اور اس مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضے کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی مسلمان بے گھر ہو کر پوری دنیا میں آوارہ سرگرداں ہوگئے۔ بہت سے بے گھر اور جلا وطن فلسطینیوں نے خطے کے عرب ممالک کی مدد حاصل کر لینے کی امید پر ہمسایہ ممالک میں سکونت اختیار کر لی اور کئی سال عرب ممالک سے امیدیں وابستہ کیے رہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہ ہے کہ ان عرب ممالک کی مدد سے وہ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔

نیز دشمنوں کو اپنے گھروں سے نکال سکیں گے بلکہ انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ ان میں سے اکثر ممالک تو خود استعماری طاقتوں کے پٹھو ہیں، صہیونزم سے جہاد میں یہ لوگ نعرہ بازی اور رجز خوانی سے آگے قدم نہیں بڑھائیں گے اور اگر کبھی ان میں سے کسی کی طرف سے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے کوئی کوشش کی گئی تو وہ عدم اتحاد و اتفاق اور یکجہنی کے فقدان کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئی۔ کیمپ ڈیویڈ سمجھوتہ اور بعض عرب ممالک کے حکمرانوں کی بددیانتی فلسطین کے زخمی اور بے گھر مظلوموں کے جسم پر ایک اور کاری زخم تھا۔ یہی پے در پے وار اس بات کا باعث بنے کہ آخر کار مسلمان فلسطینی عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آباؤ اجداد کی سرزمین کی آزادی کیلئے ہمہ گیر تحریک کا آغا نہ کیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے ایک اور موقع ہے کہ وہ متحد اور متفق ہو کر القدس کی آزادی کی آواز اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے دنیا بھر کے عوام کے کانوں تک پہنچائیں اور فلسطینی قوم کی آزادی پسندانہ جدو جہد کی ہمہ گیر حمایت کا اعلان کریں۔ فلسطینی مجاہدوں کا حالیہ حملہ اسرائیل غاصب پر اس بات کا ثبوت ہے کہ مقاومت کی تحریک پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ تاکہ دشمن کو دندان شکن جواب دے سکے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای موجودہ رہبر انقلاب اسلامی ایران نے اپنے حالیہ خطاب میں فلسطینی جدوجہد کے بارے میں نہایت اہم ارشادات فرمائے جو درج ذیل ہیں۔
’’موجودہ صورت حال میں علماء اور دانشوروں کیلئے حالات سے لاتعلقی بالکل جائز نہیں‘‘ اگر صہیونی جرم جاری رہا تو استقامتی فورسز کا صبر ختم ہو جائے گا، پھر کوئی انہیں روک نہیں پائے گا۔ صیہونی کالونیوں میں جو لوگ رہ رہے ہیں، وہ عام شہری نہیں ہیں، وہ سب مسلح ہیں۔ اعلیٰ علمی ماہرین سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خدا نے علماء اور دانشمندوں سے عہد لیا ہے کہ وہ ظلم و ستم پر خاموشی اختیار نہیں کریں گے اور ردعمل کا اظہار کریں گے، آج غزہ کے معاملے میں یہ ردعمل ہم سب پر ہے، ہمیں ردعمل کا اظہار کرنا ہوگا۔ ایران کی نمایاں علمی شخصیات نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی حسینی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ جس کے دوران رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ صیہونی حکومت کے جرائم جاری رہے تو مسلمانوں اور مزاحمتی قوتوں کو کوئی نہیں روک سکتا، غاصب صیہونی حکومت کا مواخذہ ہونا چاہیئے، ہماری معلومات کے مطابق صیہونی حکومت کی گزشتہ ہفتے سے جاری جارحیت امریکیوں کے ایما پر روا رکھی جا رہی ہے، امریکہ حالیہ جرائم کا ذمہ دار ہے، فلسطینیوں پر بمباری فوری بند ہونی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا نے علماء اور دانشمندوں (سائنسدانوں) سے عہد لیا ہے کہ وہ ظلم و ستم پر خاموشی اختیار نہیں کریں گے اور ردعمل کا اظہار کریں گے۔