ماہ ذی الحجہ کا آخری عشرہ اور عید مباہلہ کے تعلیمات
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ماہ ذی الحجہ اپنے اختتامی مراحل میں ہے وہ مہینہ جس میں اسلامی تاریخ کی اہم مناسبتیں ہیں ، ہم اس کے آخری عشرے میں ہیں یہ وہ مہینہ ہے جو مالک کے نزدیک بہت محترم ہے ، ماہ ذی الحجہ حقیقت میں ماہ ولایت ہے ، اس لئے کہ اس مہینہ میں محض غدیر کا واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تشریح و توصیف کے لئے مختلف آیات کا نزول بھی ہے جن میں آیہ انما ہے جو آیہ ولایت کے نام سے مشہور ہے جس میں امیر المومنین علیہ السلام نے راہ خدا میں نماز کی حالت انگوٹھی دے دی تو آیت نازل ہوئی ۔بعض مفسرین کا کہنا ہے آیہ تطہیر بھی اسی مہینے میں نازل ہوئی ہے اگر دیکھا جائے تو ولایت کو بیان کرنے والی زیادہ تر آیات اسی مہینے میں نازل ہوئی ہیں آیہ اکمال اسی مہینہ میں ہے آیہ ابلاغ یا غدیر خم کے موقع پر پیغام الہی کو لوگوں تک پہنچانے کے حکم پر مشتمل آیت بھی اسی مہینے میں ہے غدیر کا مشہور واقعہ اسی مہینہ میں ہے مباہلہ کا مشہور واقعہ اسی مہینے میں ہے ۔ اور اس مہینے کے فورا بعد کا مہینہ محرم الحرام کا مہینہ ہے جس کا ایک درس یہ ہے کہ راہ ولایت میں کس طرح سب کچھ لٹا کر انسان ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بن جاتا ہے اور کس طرح راہ ولایت میں قربان ہو کر انسان تاریخ انسانیت کے لئے بے نظیر و بے مثال نمونہ بن جاتا ہے ۔
سچائی کی طاقت اور مباہلہ:
۲۴ ذی الحجہ کی تاریخ اسلام کی اس تاریخی فتح کی یادگار ہے جب حضور سرورکائنات ص کو نصارای نجران پر ایک لازوال کامیابی نصیب ہوئی جس سے واضح ہوا کہ سچائی کے اندر جو طاقت ہے اسے نہ پروپیگنڈے سے دبایا جا سکتا ہے نہ ہی طاقت کے بل پر اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ اگر دین محمدی سچا نہ ہوتا تو آج اسقدر ہونے والے چوطرفہ حملوں کے مقابلے اسے کمزور ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہر طرف سے یلغار کے بعد اسکے تعلیمات کی طرف لوگوں کا کھنچ کر آنا بتا رہا ہے کہ سچائی کو نہ کوئی حملہ دبا سکتا ہے نہ کوئی پروپیگنڈہ ۔ مباہلہ سے واضح ہے کہ جس انسان کے وجود کے اندر سچائی ہوتی ہے وہ قربانیوں سے نہیں ڈرتا ہے بلکہ اس کے وجود کی صداقت ہر محاذ پر اسے ڈٹے رہنے کی دعوت دیتی ہے ۔
مباہلہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟
شک نہیں کہ مباہلہ کی خوشی میں خوش ہونا ہمارے وجود کے اندر رسول و آل رسول سے محبت و عشق کی دلیل ہے اور اسکا اظہار ہمارا دینی فریضہ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنی دینی مناسبتوں کو یاد کر کے اپنی تاریخ کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہتے ہیں یہ وہ چیز ہے جو ہماری قلبی وابستگی کا اظہار کرتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس مباہلہ سے کیا حاصل ہوا کیا یہ ایک ایسا تاریخی واقعہ تھا جو ایک کلینڈر پر رقم ہو گیا ، جو رونما ہو گیا اور بس یا پھر اس بات پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ پیغام مباہلہ کیا ہے؟ مباہلہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم تاریخ کی انگلی تھام کر اس مقام پر پہنچیں جہاں دین حق کی صداقت پر حرف آ رہا تھا تو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گھر والوں کو لیکر میدان مباہلہ پہنچ گئے اور خدا پر مکمل بھروسے کا لازوال و یادگار نقش آپ نے چھوڑا ۔ اگر ہم حق پر ہیں تو اپنے گھر والوں کو لیکر اپنے بچوں کو لیکر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے خدا ہماری مدد کرے گا ہمیں خدا کی راہ میں آگے بڑھنے کی ضرورت ، آج جو مختلف جگہوں پر ملک میں نفرتوں کے بڑھکتے شعلے دیکھ کر کچھ لوگ جذباتی فیصلے کر رہے ہیں، اپنے دین و ایمان کا سودا کر رہے ہیں ، بات تبدیلی مذہب تک پہنچ گئی ہے جہاں حالات ذرا خراب ہوئے لوگ دین کے تعلیمات کو ہی بھولے جا رہے ہیں ، ایسا لگتا ہے ہر مشکل کی جڑ دین ہے تو ان لوگوں کو مباہلہ کے پیغام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تائید الہی اسی وقت آئے گی جب ہم تن من دھن دین خدا کی راہ میں لٹانے کا جذبہ رکھتے ہوں اور یہ زبانی دعووں سے نہیں عمل سے ہوگا ۔
مباہلہ کا ایک اہم پیغام :
مباہلہ نے جہاں ایک طرف تو سچے نبی کی صداقت کو واضح کیا وہیں حقانیت پیغمبر (ص) کو بھی آشکار کیا اور یہ بتایا ہر معرکہ محض تلوار کے زور پر نہیں جیتا جا سکتا ہے کچھ میدان ایسے ہوتے ہیں جہاں کردار سے جیت حاصل ہوتی ہے اور کمال تو تب ہے جب ہمارا مدمقابل خود صداقت و حقانیت کا اعتراف کر لے، جیسا کہ میدان مباہلہ میں ہوا، نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ کہا اور نہ ہی انکے اہلبیت (ع) کی کسی فرد نے زبان کھولی، یہ خاموش تھے لیکن انکی خاموشی میں اتنا وزن تھا کہ دشمن نے خطرے کو بھانپ لیا اور سمجھ لیا کہ جنکی خاموشی میں اتنا وقار ہے وہ اگر لب کھول دیں گے تو کیا ہوگا؟ خاموشی میں وزن اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کے وجود کے اندر صداقت و سچائی ہو۔ کبھی خاموشی انسان کی بے بسی کو بیان کرتی ہے کبھی خاموشی انسان کے اختیار کو بیان کرتی ہے مباہلہ کے میدان میں سچے نبی نے اپنی خاموشی کے ساتھ اپنے اختیار کو بیان کیا تھا وہ بھی اپنے بے داغ کردار کی چمک سے بے داغ کردار کی چمک تلوار کی چمک سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ، یہ تلوار کی جنگ ہوتی ہے جہاں اس کی چمک نظر آتی ہے تو دشمن جان بچا کر بھاگتا ہے وہ بھی تب جب تلوار کسی دھنی و شجاع کے ہاتھوں میں ہو اور ہر طرف سے موت برس رہی ہو ایسے میں لشکر کے پیر اکھڑ جاتے ہیں اور وہ جان بچانے کے لئے بھاگتا نظر آتا ہے لیکن کردار کی چمک کی گونج اگر کسی میدان میں ہو تو دشمن اپنے اختیار سے اسلحے سامنے ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ہم حق پر نہیں ہیں ۔
آج اگر یہ کہا جائے کہ مباہلہ سے ہم نے کیا حاصل کیا تو مباہلہ کا ایک اہم درس یہی ہے کہ ہم سجھ لیں کل اگر پیغام نبی رحمت ص میں سچائی نہ ہوتی صرف زبانی دعوے ہوتے تو کبھی اپنی زبانی نصارائے نجران کبھی اپنی شکست کا اعلان نہ کرتے ، اگر پیغام توحید کو محض تلوار کے بل پر پھیلانے کی کوشش کی گئی ہوتی تو ہرگز مباہلہ میں کردار کی لازوال فتح نہ ہوتی ، تلوار جب کردار کے وزن کے ساتھ چلتی ہے تو جسموں کے ساتھ ساتھ روحوں کو بھی مغلوب کرتی ہے ۔
مباہلے کی کھلی ہوئی فتح کے بعد بھی آج مسلمان مغلوب کیوں ؟
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کل واضح طو ر پر جب مسلمانوں کو فتح ملی جسکا اعتراف نصارای نجران نے خود ہی کیا اور مباہلے سے پیچھے ہٹ گئے تو آخر آج کیا ہو گیا ہے کہ وہی لوگ مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے جبکے مسلمانوں کے پاس جواب میں کچھ بھی نہیں ہے ہر طرف سے عملی طو پر انکا کلچر انکی تہذیب اختیار کر کے مسلمان خود انکی فتح کا اعلان کرتے جا رہے ہیں اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ کل کے فاتح آج کے مغلوب کیسے تو اسکا جواب یہی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ آج مسلمان مغلوب ہیں ، یہ اور بات ہے کہ نام کے مسلمان ضرور دنیا میں مغلوب و ذلیل نظر آ رہے ہیں لیکن حقیقی مسلمان کسی بھی جگہ مغلوب نہیں ہیں آج بھی محض وہی لوگ کل کی طرح یہودو نصاری کے سامنے ڈھیر ہیں جنکی روحیں کل بھی انکے سامنے ڈھیر تھیں اور کلمہ توحید انکی محض زبان پر تھا انکے وجود کا حصہ نہیں بنا تھا یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اندر کی خبریں ان تک پہنچاتے تھے لشکر اسلام میں رہتے ہوئے انہیں یہود و نصارا اور مشرکین کی کامیابی کی فکر رہتی ، لشکر پیغمبر ص میں ہونے کے بعدبھی کام یہودیوں کا کرتے تھے جبکہ کل کی طرح آج بھی ایسے جیالے موجود ہیں جو کل بھی دل وجاں سے اپنے دشمن کے مقابل ڈٹے تھے آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں البتہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کا دامن تھاما ہوا ہے، نہ وہ کل کسی سے ڈرے تھے اور نہ آج ڈرے ہیں۔ انکی تعداد کل بھی کم تھی اور آج بھی، ایسے میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں ہیں کیا آج مباہلے کا میدان خالی ہے ، یا محاذ بدل گیا ہے؟ کیا کوئی جنگ ہی نہیں ہے ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کے دور میں حق و باطل کے درمیان معرکہ کہاں ہے ؟ حق و باطل میں اگر تشخیص کے بغیر ہم جی رہے ہیں تو کیا یہ زندگی ہے ؟ کیا ہم مباہلہ کے پیغام سے کچھ حاصل کیا ؟ ہم نے مباہلہ کے موقع پر کیا عہد کیا؟ کیا ہم نے مالک کی بارگاہ میں عہد کیا کہ مالک مباہلہ کے موقع پر ہم عہد کر رہے ہیں کہ ہم جہاں رہیں گے حقانیت و صداقت کی راہ پر اسی طرح گامزن رہیں گے جیسے وہ لوگ چلے جنہوں نے مباہلہ کیا اور دشمن کا اپنی شکست کے اعتراف پر مجبور کر دیا؟ کیا ہم اپنے اس عہد پر قائم ہیں جو ہم نے روز غدیر پیغمبر ص سے کیا، ہماری زندگی ولایت کے سایے میں ہے، ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زبان کتنا چلتی ہے اور ہمارا عمل کتنا ہے ؟ کیا ہم غدیر سے محض نام کی وجہ سے جڑے ہیں یا ہماری فکر بھی غدیری ہے ہمارا عمل بھی غدیری ہے ، اگر ہماری فکر کے ساتھ عمل میں بھی غدیری اثر پیدا ہو جائے تو یقینا معاشرے میں حالات بدل جائیں ، کوئی ہمارے ساتھ سیاسی کھلواڑ نہ کر سکے آج کو ہماری قیادت کو کٹھپتلی کی طرح دشمن استعمال کر رہا ہے اور پورے ملک میں لوگ تھو تھو کر رہے ہیں اس کا ایک سبب محض زبانی لن ترانیاں ہیں ، کاش ہم مباہلہ کے تذکرہ کے ساتھ اسکے پیغام کو بھی اپنے وجود کا حصہ بناتے ہوئے آگے بڑ ھتے تو حالات ہی کچھ اور ہوتے ، موجودہ حالات کی ابتری کے ذمہ دار ہم خود ہیں ، ہمارے دیگر بھائی دوسری قوموں سے متعلق لوگ دیکھ رہے ہیں ان کی باتیں کچھ اور ہیں ان کا قول کچھ اور ہے اور عمل کچھ اور ہے یہ ظاہری طور پر تو امن و شانتی کی باتیں کرتے ہیں لیکن دنیا بھر میں دہشت گردانہ گروہوں کا زیادہ تر تعلق انہیں لوگوں سے ہے جو زبان پر کلمہ توحید ادا کرتے ہیں ، اس تضاد کو جب ہمارے دوسرے مذہب سے متعلق بھائی حل نہیں کر پاتے ہیں تو ہمارے دین ہی کو غلط ٹہراتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات الگ ہیں اور مسلمانوں کا عمل الگ ہے ، مباہلہ ہمیں فکر و عمل قول و فعل کی یکسانیت کی دعوت دیتا ہے ، امید کہ ہم مباہلہ کی تاریخ پر محفل جشن و سرور کے ساتھ اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ اپنے کردار کو اتنا وزنی بنائیں کہ دشمن بھی ہماری حقانیت کا اعتراف کرنے لگے ۔
تبصرہ کریں