فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آج کے اس پر آشوب دور میں جب عام طور پر لوگ عالمی سامراج کے بت کے آگے سجدہ ریز ہیں اپنی صلاحیتوں کو توحید کی راہ میں صرف کرنے کے بجایے :اللہ اکبر” کا نعرہ لگاتے ہوئے شرک و الحاد کے ہاتھوں کو مضبوط کر رہیں ہم نے ایسے بھی جیالوں کو دیکھا جو اسی دنیا کا حصہ ہیں اور شرک و الحاد کے پنجے میں پنجہ ڈال کر اس سے نبرد آزما ہیں انکی پہچان نہ جھکنا ہے انکی پہچان ڈٹے رہنا ہے انکی پہچان مزاحمت ہے۔
وہ مزاحمت جسے ہم قرآن کی زبان میں استقامت کہتے ہیں وہ مزاحمت جو مھدویت کے نظریہ کے بطن سے نکلتی ہے ۔
آج مھدویت کا نظریہ تمام توحیدی مزاج رکھنے والے حریت پسندوں کے لیے ایک روحانی، اخلاقی اور سیاسی تحریک کا ذریعہ ہے، جو انہیں ظلم کے خلاف اٹھنے، مزاحمت کرنے اور ایک بہتر مستقبل کی امید دینے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ نظریہ انسانوں کو نہ صرف دنیا میں ظلم کے خلاف لڑنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ انہیں یقین دلاتا ہے کہ آخرکار سچائی اور انصاف کی فتح ہوگی۔ اس نظریہ کا مقصد صرف انتظار نہیں بلکہ ایک عملی جدوجہد کرنا ہے تاکہ انسانیت کا فلاحی مستقبل ممکن بنایا جا سکے۔
قرآن کریم اوراحادیث میں استقامت اور مہدویت کے موضوع پر اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو ہمیں ملے گا کہ مزاحمت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہے قرآن میں جہاں کہیں بھی استقامت کا ذکر ہے اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب تم نے اللہ کی کبریائی کا اعلان کر دیا تو دنیا میں خود کو بڑا دکھانے والے تمہارے مقابل کھڑا ہوگا تمہارا محاصرہ کرے گا تم پر ظلم کرے گا لیکن تمہیں استقامت کے ساتھ اپنے راستے پر چلنا ہے اور مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہی یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی توحید، نبی کریم ص کی رسالت اور اسلام کو قبول کرنے کے بعد پوری دلجمعی اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر قائم رہے۔ زندگی بھر اپنے اس قول و قرار کو دیانتداری اور راست بازی سے نبھائے، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی کو شریک نہ کرے، اور نہ ہی حالات کے مطابق اپنے رنگ بدلے۔
بدلتے رہتے ہیں انداز کوی و شامی
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
قرآن مجید میں سورۂ فصّلت کی آیات 30 تا 32 میں استقامت اختیار کرنے والوں کے لیے بشارتیں دی گئی ہیں:
“بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو، اور جنت کی خوشخبری سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔”
راغب اصفہانی (502 ھ) استقامت کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“استقامت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سیدھے راستے پر قائم رہے۔”
(المفردات فی غریب القرآن، صفحہ 465)
شیخ طوسی (460 ھ) اپنی تفسیر “التبیان فی تفسیر القرآن” میں ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ استقامت سے مراد دین میں ثابت قدمی اور اللہ کی اطاعت پر مداومت ہے۔
(التبیان فی تفسیر القرآن، جلد 9، صفحہ 45)
مہدویت اسی استقامت و مزاحمت کے ایک مکمل نظام کو پیش کرنے ذریعہ ہے ۔
مہدویت کا عقیدہ اسلامی تعلیمات میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، جس کے مطابق آخری زمانے میں حضرت امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے چنانچہ کتاب “کمال الدین و تمام النعمة” میں شیخ صدوق (381 ھ) نے امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اور ظہور کے بارے میں متعدد احادیث نقل کی ہیں۔ مثلاً، امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“قائم ہماری نسل سے ہیں… جب وہ قیام کریں گے تو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔”
(کمال الدین و تمام النعمة، جلد 1، صفحہ 331)
جس ظلم و ستم سے مقابلہ کی بات اس حدیث میں کی گئی وہ بغیر استقامت و مزاحمت کے ممکن نہیں ہے
علامہ مجلسی (1110 ھ) اپنی کتاب “بحار الانوار” میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات اور ان کی حکومت کے بارے میں تفصیلی احادیث جمع کرتے ہوئے ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے شیعوں کی سماعت اور بصارت کو اس قدر تیز کر دے گا کہ ان کے اور قائم کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہوگا۔ وہ ان سے بات کریں گے اور وہ سنیں گے اور انہیں دیکھیں گے۔”
(بحار الانوار، جلد 52، صفحہ 336)
ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہوگا، اور ان کی آمد سے قبل اور بعد میں مختلف علامات اور واقعات رونما ہوں گے۔ “الامام المہدی فی القرآن و السنۃ” اور “المحجۃ فیما نزل فی القائم الحجۃ” جیسی کتب میں مہدویت کے موضوع پرانہیں عمیق مباحث کی طرف اشارہ کرتی ہیں جن میں آخر زمان میں شیعوں کی استقامت و مزاحمت کو بیان کیا گیا ہے تفصیل کے لئیے دیکھیں
(الامام المہدی فی القرآن و السنۃ، صفحہ 45؛ المحجۃ فیما نزل فی القائم الحجۃ، صفحہ 210)
سید حسن نصر اللہ اور مزاحمت
کیسے ممکن ہے مزاحمت ومقاومت کی بات ہو اور سید مقاومت کو انسان فراموش کر دے ۔جس نے اگر “اللہ اکبر ” کہا تو تا دم حیات اس پر قائم بھی رہا اور اپنے زمانے کے امام عج سے لو لگائے دنیا کے بڑے بڑے ظالموں سے لوہا لیتا رہا زندگی کے آخری پل تک امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ شک نہیں کہ شہید حسن نصر اللہ اور مزاحمتی محاذ کی فکری بنیادوں میں مھدویت کا نظریہ ایک اہم اور مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نظریہ محض ایک دینی عقیدہ نہیں بلکہ ایک سیاسی، سماجی اور ثقافتی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کا مقصد امت مسلمہ کی بیداری، استقلال اور ظالم طاقتوں کے خلاف مزاحمت کو فروغ دینا ہے۔
مھدویت کا عقیدہ اور مزاحمت:
مھدویت کا عقیدہ تمام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، جس کے مطابق امام مھدی (عج) کا ظہور آخر الزمان میں ہوگا اور وہ ظلم و فساد کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف کا قیام کریں گے۔ یہ عقیدہ اسلامی امت کو ایک اعلیٰ مقصد کے لیے متحد کرتا ہے اور انہیں ظلم کے خلاف اٹھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
شہید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ کی مزاحمتی تحریک نے اس عقیدہ کو اپنی فکری بنیادوں میں شامل کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ امام مھدی کا ظہور نہ صرف ایک روحانی اور دینی مسئلہ ہے بلکہ ایک عملی اور سیاسی حقیقت بھی ہے۔ مزاحمت کا یہ نظریہ اس بات پر مرکوز ہے کہ انسانوں کو ظلم کے خلاف اٹھنا ہوگا اور اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا، چاہے وہ فلسطین ہو، لبنان ہو یا دنیا کا کوئی اور حصہ۔
مھدویت کے نظریہ کا سیاسی اور اجتماعی اثر:
شہید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے امام مھدی کے ظہور کے متعلق اس نظریہ کو محض ایک روحانی امید کے طور پر نہیں بلکہ ایک عملی اہداف کے طور پر اپنایا۔ ان کا ایمان تھا امام مھدی (عج) کا ظہور اُس وقت ممکن ہوگا جب مسلمان اس عالمگیر جدوجہد میں حصہ لیں گے اور اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کریں گے۔ اس لیے حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہ اس عقیدہ کو اپنے سیاسی بیانیے میں شامل کرتے ہیں تاکہ اپنے عوام کو ایک جامع نظریہ فراہم کر سکیں۔
ظالم طاقتوں کے خلاف نظریہ مزاحمت:
سید حسن نصر اللہ کا ایمان تھا کہ امام مھدی عج کا ظہور ایک مکمل اور عالمی انقلاب کا سبب بنے گا جس میں ظلم و استبداد کا خاتمہ ہوگا۔ ان کے نزدیک، اس وقت کے ظالم طاقتوں کا سب سے بڑا نمائندہ اسرائیل اور اس کے حامی ہیں، جن کے خلاف مزاحمت کو امام مھدی کے ظہور سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ سید حسن نصرا للہ کا ماننا تھا امام مھدی (عج) کا ظہور اُس وقت ہو گا جب مسلمان ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور یہ مزاحمت عالمی سطح پر ایک مکمل تحریک کی صورت اختیار کرے گی۔
اور اسی لئے سید حسن نصر اللہ کی کوشش تھی مزاحمت کا دائرہ وسیع ہو اور لوگ مصلحت کے لبادوں سے نکل کر ظالم کے خلاف باہر نکلیں۔
مھدویت کے نظریہ کا انقلابی اثر:
سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ نے امام مھدی (عج) کے نظریہ کو ایک انقلابی مقصد کے طور پر اپنایا ہے۔ انکی تحریک نہ صرف لبنانی عوام کی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کی علامت بنی بلکہ اس میں ایک عالمی سطح پر انصاف اور انسانی حقوق کی بازیابی کا خواب بھی ہے۔ اس نظریہ کا اثر یہ بھی ہے کہ مزاحمتی محاذ نہ صرف دفاعی بلکہ ایک انقلابی کردار ادا کرتا ہے، جہاں ان کے مطابق، ہر مسلمان کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر عالمی ظلم کے خلاف جنگ کرنی چاہیے۔
دینی عقیدہ اور سیاسی جدو جہد
سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ نے مھدویت کے نظریہ کو اپنی مزاحمتی تحریک کے سیاسی اور نظریاتی فریم ورک میں شامل کر لیا۔ ان کا ایمان تھا مھدی (عج) کا ظہور محض ایک روحانی انقلاب کے طور پر نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی جدوجہد کے طور پر بھی ممکن ہے، جو کہ ظلم و فساد کے خاتمے اور ایک جدید اور عدل پر مبنی عالمی نظام کے قیام کی طرف لے جائے گا۔
مختصر یہ کہ سید شہید حسن نصر اللہ اور مزاحمتی محاذ کے فکری بنیادوں میں مھدویت کا نظریہ ایک مضبوط اور متحرک عنصر کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے بلکہ ایک عالمی سیاسی نظریہ کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اس نظریہ نے مزاحمتی تحریکوں کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ صرف دفاعی لڑائیاں نہ لڑیں بلکہ ایک فعال اور انقلابی کردار اپنائیں جو عالمی سطح پر ظلم کا خاتمہ کر سکے
مھدویت کا نظریہ اسلامی دنیا میں ایک اہم فکری اور روحانی بنیاد ہے، جو نہ صرف ایک روحانی عقیدہ ہے بلکہ اس میں انسانیت کے لیے امید اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا بھی ایک طاقتور پیغام موجود ہے۔ مھدویت کا عقیدہ مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ آخر الزمان میں امام مھدی (عج کا ظہور ہوگا، جو دنیا بھر میں عدل و انصاف قائم کریں گے اور ظلم و فساد کا خاتمہ کریں گے۔ اس نظریہ سے امید اور مزاحمت کا سبق اس بات پر مبنی ہے کہ مسلمان اپنی موجودہ حالت میں ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور ایک عالمی انقلاب کا حصہ بنیں، جو ایک بہتر، عادلانہ اور انسانیت کی فلاح کی دنیا کی تشکیل کرے۔
امام مھدی کا ظہور اور امید کی روشنی:
مھدویت کا نظریہ مسلمانوں کو امید دیتا ہے کہ دنیا میں موجود ظلم و فساد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگا اور ایک دن عدل و انصاف کا قیام ہوگا۔ امام مھدی (عج) کا ظہور مسلمانوں کے لیے یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ ظلم اور جبر کی کوئی حالت مستقل نہیں رہ سکتی، اور خدا کی مدد سے حق و سچ کی فتح ہوگی۔ اس نظریہ سے مسلمانوں کو یہ امید ملتی ہے کہ اگرچہ وہ دنیا میں وقتی طور پر کمزوری یا ظلم کا شکار ہیں، لیکن آخرکار اللہ کی حکمت اور امام مھدی کے ذریعے انصاف کا قیام ممکن ہے۔
اس سے مسلمان اپنی جدوجہد اور محنت میں تسلسل اور ثابت قدمی رکھ سکتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ظلم کے خلاف ان کی لڑائی کا ایک بڑا مقصد اور آخرکار ایک عظیم فتح ہے، جو امام مھدی عج کے ظہور کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس سے وہ خود کو ناامید نہیں ہونے دیتے، بلکہ ان کی امید اس بات پر قائم رہتی ہے کہ آخرکار اللہ کا حکم غالب آئے گا۔
ظلم کے خلاف مزاحمت کا فلسفہ:
مھدویت کا نظریہ صرف ایک کلامی عقیدہ نہیں بلکہ اس میں ظلم کے خلاف ایک عملی مزاحمت کا فلسفہ بھی موجود ہے۔ امام مھدی عج کا ظہور اس بات کا غماز ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہوگا اور وہ لوگ جو حق کی راہ پر ہیں، ان کی مدد کی جائے گی۔ اس نظریہ کی روشنی میں، سید حسن نصر اللہ رضوان اللہ تعالی علیہ نے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دنیا میں موجود ظلم و جبر کا مقابلہ کرنا، ان کا فرض ہے۔ امام مھدی عج کے ظہور کا مقصد صرف ایک نیا حکومتی نظام قائم کرنا نہیں بلکہ ایک عالمی انقلاب ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو ظلم کے خلاف مزاحمت کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ظالم طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انفرادی یا اجتماعی سطح پر مزاحمت ضروری ہے۔ مھدویت کا عقیدہ مسلمانوں کو یہ بتاتا ہے کہ اگرچہ وہ وقتاً فوقتاً مظلوم ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں ظلم کے خلاف اٹھنا ہوگا اور حق کے لیے لڑنا ہوگا، چاہے وہ کتنی بھی مشکلات کا سامنا کریں۔ یہ فلسفہ مسلمانوں کو یہ بھی سکھاتا ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرنا یا ہار ماننا نہیں ہے، بلکہ کامیابی کا راستہ مزاحمت میں ہے۔
مھدویت کا نظریہ صرف دینی عقیدہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی پیغام بھی ہے۔ امام مھدی عج کا ظہور اس بات کا پیغام ہے کہ اسلامی دنیا کو نہ صرف روحانی بلکہ سیاسی طور پر بھی اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس طرح، امام مھدی (عج) کے ظہور کا عقیدہ مسلمانوں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف نہ صرف نظریاتی اور دینی سطح پر بلکہ عملی طور پر بھی مزاحمت کریں۔
سیدحسن نصر اللہ اور حزب اللہ جیسے مزاحمتی گروہ نے اسی نظریہ کو اپنے سیاسی منشور میں کلیدی حیثیت دی انہوں اپنی عملی جدو جہد سے انتظار کے جعلی مفہوم سے نقاب کشی کرتے ہوئے حقییقی و واقعی انتظار کی تصویر کو پیش کیا اور بتایا کہ امام مھدی عج کا ظہور اُسی وقت ممکن ہے جب مسلمان ظلم کے خلاف اٹھیں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے۔ مھدویت کا عقیدہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور انہیں ایک عملی راستہ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر سکیں۔
صبر، استقامت اور فتح کا یقین:
مھدویت کا نظریہ مسلمانوں کو صبر اور استقامت کی اہمیت سکھاتا ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق، امام مھدی (عج) کا ظہور ایک طویل انتظار کے بعد ہوگا، اور اس دوران مسلمانوں کو اپنے ایمان میں مضبوط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس انتظار میں، وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے اور خدا کی مدد کی امید رکھتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو مشکل حالات میں صبر اور حوصلے کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہیے، کیونکہ حقیقی فتح اور انصاف انجام کار خدا کی مرضی اور بغیر ظہور منجی بشیریت ممکن نہیں ۔
مصنف : فاران خصوصی ماخذ : ترجمہ زیدی
تبصرہ کریں