مسلم ابن عوسجہ حسین کا بوڑھا سپاہی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کوفے کے انتہائی نیک شریف النفس، عابد، لوگوں کا بھلا چاہنے والے اہل خیر سخی افراد میں کا نام آئے اور مسلم ابن عوسجہ کی بات نہ ہو [1]ممکن نہیں ہے ، کوفے کے لوگ گواہ ہیں کہ جب کسی کو ضرورت پڑی بغیر کسی جھجھک اس نے خود کو مسلم ابن عوسجہ کے در پر پہنچا دیا کچھ ہی دیر ضرورت پوری ہوئی لبوں پر مسکراہٹ سجائے وہ دعائیں دیتا ہوا پنی منزل کی طرف بڑھ گیا ، نہ جانے کتنے لوگ اپنے قرض کی معافی کے لئے روز مسلم بن عوسجہ کے در پر نظر آتے نہ جانے کتنے لوگ زندگی کی سختیوں میں مشورہ کی غرض سے آتے ہر ایک کے لئے کوفے میں جس کا دروازہ کھلا تھا اسکا نام مسلم بن عقیل تھا اپنی بات کا پکا شجاع، بہادر، وعدہ کو وفا کرنے والا حسین ابن علی کا وہ سپاہی جسکی شہادت مظلوم کربلا کو بہت شاق گزری ۔
کون تھے مسلم بن عوسجہ؟
السَّلَامُ عَلَی مُسْلِمِ بْنِ عَوْسَجَةَ الْأَسَدِی الْقَائِلِ لِلْحُسَینِ وَ قَدْ أَذِنَ لَهُ فِی الِانْصِرَافِ أَ نَحْنُ نُخَلِّی عَنْک وَ بِمَ نَعْتَذِرُ إِلَی اللَّهِ مِنْ أَدَاءِ حَقِّک وَ لَا وَ اللَّهِ حَتَّی أَکسِرَ فِی صُدُورِهِمْ رُمْحِی وَ أَضْرِبَهُمْ بِسَیفِی مَا ثَبَتَ قَائِمُهُ فِی یدِی وَ لَا أُفَارِقُک وَ لَوْ لَمْ یکنْ مَعِی سِلَاحٌ أُقَاتِلُهُمْ بِهِ لَقَذَفْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ ثُمَّ لَمْ أُفَارِقْک حَتَّی أَمُوتَ مَعَک وَ کنْتَ أَوَّلَ مَنْ شَرَی نَفْسَهُ وَ أَوَّلَ شَهِیدٍ مِنْ شُهَدَاءِ اللَّهِ قَضَی نَحْبَهُ فَفُزْتَ وَ رَبِّ الْکعْبَةِ شَکرَ اللَّهُ لَک اسْتِقْدَامَک وَ مُوَاسَاتَک إِمَامَک إِذْ مَشَی إِلَیک وَ أَنْتَ صَرِیعٌ فَقَالَ یرْحَمُک اللَّهُ یا مُسْلِمَ بْنَ عَوْسَجَةَ وَ قَرَأَ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضی نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ ینْتَظِرُ وَ ما بَدَّلُوا تَبْدِیلًا لَعَنَ اللَّهُ الْمُشْتَرِکینَ فِی قَتْلِک عَبْدَ اللَّهِ الضَّبَابِی وَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ خَشْکارَةَ الْبَجَلِی.[2]
زیارت ناحیہ کے یہ جملے اس شہید کربلا کے لئے ہیں جسے معصوم زبان نے اس پہلے شہید کی سند دی ہے جس نے اپنے امام سے کئے گئے اپنے عہد کو پورا کر دیا ، معصوم کی زبان سے نکلے الفاظ شخصیت جناب مسلم عوسجہ کا وزن بتانے کے لئے کافی تھے لیکن معصوم نے اس سے آگے بڑھ کر رب کعبہ کی قسم کھا کر اس شہید کی عظمت کا اعتراف کیا آپکے قاتلوں کا نام لیکر لعنت کی ساتھ ہی ان لوگوں پر لعنت کی جو آپ کے قتل میں شریک رہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کے امام کے نزدیک آپ کی کیا منزلت و اہمیت تھی۔ حبیب ابن مظاہر کے علاوہ بنی اسد” قبیلے سے تعلق رکھنے والا یہ وہ شہید ہے جو قبیلہ مذحج و بنی اسد کا سردار تھا [3] اپنا تعارف کراتے ہوئے جناب مسلم ابن عوسجہ نے جو رجز پڑھا ہے و ہ آج بھی تاریخ میں محفوظ ہے :
إن تسألوا عنی فإنی ذو لَبَد، و ان بیتی فی ذری بنی اسد؛
فمن بغانی حائد عن الرشد، و کافر بدین جبار صمد۔
ترجمہ: اگر میرے بارے میں سوال کرتے ہو تو میں شجاعت کا حامل شیر ہوں اور میرا گھر بنی اسد کے خاندان میں ہے۔ جو بھی مجھ پہ ستم کرے گا وہ راہ رشد و ہدایت سے روگردان ہے اس وہ خدائے جبار و بے نیاز کا منکر ہے [4]۔
کربلا میں جب سب سے پہلے شہداء کا نام آتا ہے جو جناب مسلم ابن عوسجہ کا نام سر فہرست رہتا ہے کہ سب سے پہلے اس بوڑھے مجاہد نے اپنے امام کی راہ میں خود کو قربان کیا [5]
تاریخی پس منظر اور فضل و کمال :
جناب مسلم ابن عوسجہ امام حسین علیہ السلام کے ان جانثار اصحاب میں ہیں جنہوں نے حضور سرورکائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا آپکا شمار صدر اسلام کے ان بہادر جنگجو اور شجاع افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے آذربائیجان اور دیگر علاقون کی فتح میں مسلمان لشکر کی ہمراہی کی[6] آپ امام حسین علیہ السلام کے ان معدودے اصحاب میں ہین جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایات بھی نقل کی ہیں [7] کوفے میں جب تک رہے ہمیشہ ابن زیاد کو کھٹکتے رہے کیوںکہ کبھی خاموش نہیں بیٹھے آپکی غیرت آپکی دینی حمیت کبھی آپ کو خاموش نہیں بیٹھنے دیتی تھی ہمیشہ متحرک رہے جب جناب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچتے ہیں تو آپ ہی تھے جنہوں نے اسلحہ کی جمع آوری کی ساتھ ساتھ لوگوں سے جناب مسلم کی بیعت لی [8]۔
۲۔ جناب ہانی کی طرح دل و جان سے جس شخص نے جناب مسلم کا ساتھ دیا ہے اسکا نام مسلم ابن عوسجہ ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں تاریخ یہ لکھتی ہے کہ جناب مسلم ابن عقیل جناب ہانی ابن عروہ کے یہاں قیام پذیر رہے وہیں یہ بھی لکھتی ہے کہ :”مسلم بن عقیل کوفہ میں پہلے مسلم بن عوسجہ کے گھر مقیم ہوئے[9] آپ ہی کے گھر لوگ جناب مسلم سے ملنے جاتے آپ ہی سامنے امام حسین ؑ کی بیعت کرتے اور خون کے آخری قطرے تک امام کی حمایت کی یقین دہانی کرواتے تھے چنانچہ جب اس بات کی اطلاع سید الشہداء کو ملی کہ لوگ تیزی کے ساتھ جناب مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کر رہے ہیں تو آپ نے کوفہ کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ چاہے جناب مسلم کا کوفے پہنچنا ہو ، جناب مسلم کا استقبال ہو یا پھر شہادت جناب مسلم کے بعد کوفے کے شیعوں کو دوبارہ منظم کرنا اور انہیں حوصلہ دینا ہو ان تمام مراحل میں مسلم بن عوسجہ نے جو کردار ادا کیا ہے اسے بھلایا نہیں جا سکتا [10]
شب عاشور جناب مسلم ابن عوسجہ کی معرکۃ الاراء تقریر:
شب عاشور جب امام حسین ؑ نے اپنی بیعت سے اپنے اصحاب کو آزاد کر دیا اور کہا کہ رات کی تاریکی کو سپر بنا کر تم لوگ نکل جاو میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت کا بوجھ اٹھائے لیتا ہوں [11] تو یہ موقع تھا جہاں ہر ایک اپنے امام سے اپنی قلبی وابستگی کا اعلان کر رہا تھا ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سے گفتگو کی ، مسلم ابن عوسجہ نے یہاں بھی حد ادب کی رعایت کی اپنے جذبات پر قابو رکھا بنو ہاشم کو اپنی بات رکھنے میں مقدم کیا چنانچہ پہلے علمدار کربلا حضرت ابو لفضل العباس کھڑے ہوئے اور وا ضح طور پر آپ نے فرمایا : آپ کے بعد ہم بچ جائیں یہ ہمیں گوارا نہیں پھر بنی ہاشم کے بعض جوانوں نے اسی انداز سے قربانی کی سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم آپ کو چھوڑ کر ہرگز نہیں جائیں گے وہ زندگی ہی کیا جو آپ کے بغیر ہو [12]
قمر بنی ہاشم جناب ابو الفضل العباس و بنی ہاشم کے نوجوانوں کے بعد سب سے پہلے جس شخص نے اپنے مولا کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا وہ یہی مسلم بن عوسجہ ہیں جو کھڑے ہوئے اور فرمایا :
“اے ابا عبد اللہ ! کیا آپ ہم پر سے اپنی بیعت کو اٹھا رہے ہیں کیا آپ ہمیں آزاد کر رہے ہیں ؟ بارگاہ الہی میں اپنے حق کی ادائیگی کا ہم کیا جواب دیں گے ؟ہم آپ کو کسی صورت اکیلا نہیں چھوڑیں گے کسی صورت نہیں چھوڑیں گے مولا میں کیسے آپ کو تنہا چھوڑ دوں میں آپکو اکیلا نہیں چھوڑونگا یہاں تک کے اپنا نیزہ دشمنوں کے سینوں میں پیوست نہ کر دوں اور اس قدر شمشیر نہ چلالوں کہ وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ جائے حتی کہ ہاتھ میں اسلحہ نہ ہونے کی صورت میں دشمنوں پر پتھروں سے حملہ آور ہوں گا ۔خدا کی قسم ! آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ خدا کے سامنے یہ ثابت نہ کردوں کہ میں نے آپ کے بارے میں حرمت رسول اللہ کی پاسداری کی ہے ۔اللہ کی قسم ! اگر میں یہ جان لوں کہ میں قتل ہو جاؤں گا پھر زندہ کیا جاؤں گا پھر مجھے جلا کر خاکستر کردیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے گا اور ایسا ستر مرتبہ کیا جائے گا تو تو بھی میں کسی صورت میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ آپ کی نصرت میں شہادت کے درجے پر فائز ہو جاؤں۔ جب مجھے ایک بار زندگی ملی ہے تو میں کیوں نہ ایسا کروں ۔ اس کے بعد دائمی زندگی اور سعادت ہے [13] یہ وہ معرکۃ الارا ء تقریر ہے جس کے بعض جملوں کو معصوم نے زیارت ناحیہ میں شامل کر لیا کہ رہتی دنیا تک امامت شمع امامت کے ان پروانوں کو سلام کرتی رہے گی جنہوںنے اپنی ہستی لٹا دی لیکن امام وقت کی نصرت سے ایک لحظہ کے لئے دریغ نہ کیا
۳۔ جناب مسلم ابن عوسجہ کی شہادت اور امام حسین علیہ السلام کے لئے آپ کی فکر مندی :
مسلم ابن عوسجہ محض امام علیہ السلام کے جانثار صحابی نہ تھے بلکہ ایسے صاحب بصیرت مطیع محض تھے کہ جو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ کر کے امام کی اطاعت پر بھروسہ کرتے تھے چنانچہ روز عاشورا حضرت امام حسین ؑ اور انکے اصحاب نے جب خیام کی حفاظت کیلئے خیموں کی پشت پر خندق کھود کر آگ روشن کی اور شمر بن ذی الجوشن نے آ گ کے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہا : اے حسین ! قیامت سے پہلے ہی آگ جلا لی ہے ۔امام نے فرمایا : یہ کون ہے لگتا ہے شمر ہے ؟ جواب دیا گیا ہاں وہی ہے ۔امام نے سورۂ مریم کی ۷۰سترویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اے چرواہے کے بیٹے!تو اس آگ کیلئے سزاوار ہے ۔تو اس وقت شمر مسلم بن عوسجہ کے نشانے کی زد پر تھا مسلم نے کمان میں تیر جوڑی چلہ کمان کو پوری طاقت سے کھینچا شمر مکمل طور پر نشانے پر ہے لیکن تیر کو رہا نہیں کہا بلکہ کہا :فرزند رسول شمر میرے تیرکے نشانے پر ہے اور میرا تیر خطا نہیں جائے گا آپ اجازت دیں تو اسکا کام تمام کر دوں امام نے جواب میں فرمایا : میں جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتا لہذا تیر مت چلاو مسلم نے چلہ کمان سے تیر کو ہٹا لیا اور مولا کے فرمان پر سر جھکا کر کہا جیسا میرے مولا فرمائیں ۔
روز عاشور عمر بن سعد نے لشکر کے دائیں حصے کا علم عمرو بن حجاج کے سپرد کیا تھا اس حصے نے حضرت امام حسین کے اصحاب با وفا پر حملہ کیا ۔دونوں میں لڑائی شروع ہوئی تو دونوں طرفیں اسی دوران فرات کی طرف چلے گئے ۔ مسلم بن عوسجہ اس حملہ میں موجود تھے ۔مسلم بن عبد اللہ ضبائی اور عبدالرحمان بن ابی خشکارہ نے مسلم بن عوسجہ پر حملہ کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا ۔حضرت مسلم بن عوسجہ جب خون میں غلطان تھے تو حضرت امام حسین اور حبیب بن مظاہر آپ کے سرہانے پہنچے ۔امام نے اسے کہا :اے مسلم! خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔اور پھر اس آیت فَمِنهُم مَن قَضی نَحبَهُ و مِنهُم مَن یَنتَظِر و ما بَدّلوا تَبدیلاً کی تلاوت فرمائی۔ حبیب بن مظاہر اسکے قریب ہوئے اور کہا :تمہارا قتل ہونا میرے لئے نہایت سخت ہے لیکن میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔مسلم بن عوسجہ نہایت نہیف آواز میں کہا :میں بھی تمہیں خیر کی بشارت دیتا ہوں ۔ حبیب نے کہا: اگر تمہاری خدا حافظی کا وقت قریب نہ ہوتا تو میری خواہش تھی کہ تم مجھے وصیت کرتے تا کہ میں اپنے دینی اور رشتہ داری کے حق کو ادا کرتا مسلم بن عوسجہ نے امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حبیب سے امام علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:میں تمہیں انکے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے بدن میں جان باقی ہے انکا دفاع کرنااور اپنے قتل ہونے تک ا نکی مدد اور حمایت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ حبیب نے جواب میں کہا : میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور تمہاری آنکھوں کو روشن کروں گا۔[14] یوں مولا کے اس جانثار مین جاتے جاتے جو وصیت بھی کی تو اپنے بارے میں نہیں تھی بلکہ امام کے بارے میں تھے شاید یہی وجہ ہے کہ معصومین علیھم السلام نے مختلف زیارتوں میں جناب مسلم ابن عوسجہ کی وفا داری کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔
حواشی
[1] ۔ شیخ طوسی، رجال، ص۸۰.
[2] ۔ زیارت ناحیہ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ص۵۰.
[3] ۔ قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۱۲۰.
[4] ۔ سماوی، ابصارالعین، ص۱۳۹.
[5] ۔ ابی مخنف، وقعة الطف، ص۲۲۵.
[6] ۔ زرکلی، خیرالدین، اعلام، ج ۷، ص۲۲۲.
[7] ۔ أبو مخنف، مقتل الحسین(ع)، ، ص۱۳۶ـ ۱۳۸.
[8] ۔ قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۱۲۰.
[9] ۔ ابن کثیر، البدایه و النهایه، ج ۸، ص۱۵۲.
[10] ۔ ایضا، ج۸، ص۱۶۳.
[11] ۔ قال: هذا اللیل قد غشیکم، فاتخذوه جملا، ثم لیأخذ کل رجل منکم بید رجل من اهل بیتى، تفرقوا فی سوادکم و مدائنکم حتى یفرج الله، فان القوم انما یطلبونی، و لو قد أصابونی لهوا عن طلب غیرى، الطبری أبو جعفر محمد بن جریر (م 310)، تاریخالطبری،ج5،ص:419:”
[12] ۔ ، فقال له اخوته و ابناؤه و بنو أخیه و ابنا عبد الله بن جعفر: لم نفعل لنبقى بعدک، لا أرانا الله ذلک ابدا، بداهم بهذا القول العباس بن على ثم انهم تکلموا بهذا و نحوه، “. تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم ، بیروت، دار التراث ، ط الثانیة، 1387/1967.. ؛ عز الدین أبو الحسن على بن ابى الکرم المعروف بابن الأثیر (م 630)، الکامل فی التاریخ ،ج4،ص:57، بیروت، دار صادر – دار بیروت، 1385/1965؛ الرازى ابو على مسکویه (م 421)تجارب الأمم، ج2،ص:75 تحقیق ابو القاسم امامى، تهران، سروش، ط الثانیة، 1379ش. أبو الفرج عبد الرحمن بن على بن محمد ابن الجوزى (م 597)، المنتظم فى تاریخ الأمم و الملوک، ج5،ص:337 ،تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفى عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیة، ط الأولى، 1412/1992….
[13] ۔ سید بن طاووس، لهوف، ص۱۱۷.
[14] ۔سید بن طاووس، لهوف، ص۱۳۳.
تبصرہ کریں