مظلوم فلسطینیوں کے دکھ سکھ کے ساتھی ابراہیم رئیسی کی خدمات

فاران: طویل انتظار اور تلاش کے بعد آخر کار کل سوموار کی صبح ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ اور ان کے ساتھ موجود وفد کی المناک ہیلی کاپٹرحادثے کی خبرنے ہر طرف شدید صدمے کی لہر دوڑا دی۔ان کا ہیلی کاپٹر اتوار کو شمال مغربی صوبہ آذربائیجان کے پہاڑوں میں خراب موسم کے دوران […]

فاران: طویل انتظار اور تلاش کے بعد آخر کار کل سوموار کی صبح ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ اور ان کے ساتھ موجود وفد کی المناک ہیلی کاپٹرحادثے کی خبرنے ہر طرف شدید صدمے کی لہر دوڑا دی۔ان کا ہیلی کاپٹر اتوار کو شمال مغربی صوبہ آذربائیجان کے پہاڑوں میں خراب موسم کے دوران تباہ ہوگیا تھا۔

بلا شبہ یہ حادثہ نہ صرف ایرانی عوام کے لیے ایک گہرے صدمے کا باعث بنا بلکہ یہ پورے عالم اسلام بالخصوص مزاحمت اور آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی اقوام کے لیے بھی کسی بڑے سانحے سے کم نہیں تھا۔

اس المناک حادثے میں نہ صرف ایرانی صدر کی جان چلی گئی بلکہ ان کے ساتھ وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان، تبریز کے امام آیت اللہ الھاشم، مشرقی آذربائیجان کے گورنر ملک رحمتی، ایرانی صدر کے سکیورٹی چیف بریگیڈیئر جنرل سید مہدی موسوی، ایرانی صدر کے تحفظ کے یونٹ کے ایک رکن اور پائلٹ بھی شہید ہوگیا۔

پیر کے روز ایرانی حکومت کے بیان میں رئیسی کو “ایرانی عوام کے محنتی اور مستعد صدر کے طور پر بیان کیا گیا، جو ملک کی ترقی کے راستے پر عظیم ایرانی عوام کی خدمت کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے”۔

ابراہیم رئیسی کا تعارف

شہید ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 14 دسمبر 1960 کو ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے۔ 1981 میں انہوں نے البرز گورنری کے پبلک پراسیکیوٹر کا عہدہ سنبھالا۔ پچیس سال کی عمر میں انہوں نے دارالحکومت تہران کے پبلک پراسیکیوٹرکا عہدہ سنھبالا۔

رئیسی نے انسانی حقوق کے شعبے میں کام کیا اور 1988ء میں انہیں جیلوں میں اختلاف کرنے والوں کے خلاف سزائے موت پر فیصلہ کرنے کے لیے چار رکنی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا۔

سنہ 1989ء اور 1994ء کے درمیان رئیسی نے تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں اور 1994 میں انہیں ریاستی نگران اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا اور وہ 10 سال تک اس عہدے پر رہے۔

رئیسی کو 2004 میں عدلیہ کا پہلا نائب سربراہ مقرر کیا گیا۔ 2014ء میں رئیسی کو ایران کا پراسیکیوٹر جنرل مقرر کیا گیا اور 2016 میں خامنہ ای نے انہیں خامنہ امام رضا مزار اور کمپلیکس فاؤنڈیشن کا صدر مقرر کیا۔

رئیسی 19 مئی 2017 کے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار کے طور پر سابق صدر حسن روحانی سے صدارتی انتخابات ہار گئے تھے۔

رئیسی کو عدلیہ کے سربراہ کے خالی عہدے پر مارچ 2019ء میں خامنہ ای کی جانب سے عدلیہ کے سربراہ صادق آملی لاریجانی کو برطرف کیے جانے اور ایکسپیڈینسی ڈسرنمنٹ کونسل کے سربراہ کے طور پر ان کی تقرری کے بعد تعینات کیا گیا تھا۔

ایران میں 18 جون 2021ء کو ہونے والے انتخابات میں رئیسی نے 62 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی اور ملک کے آٹھویں صدر بن گئے۔

ان کے دور صدارت میں ایک خارجہ پالیسی پر عمل کیا گیا جس میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی گئی۔ اس دوران سعودی عرب کے ساتھ تعلقات 7 سال بعد بحال ہوئے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے نومبر 2019 میں رئیسی پر پابندیاں عائد کیں۔ یہ اس کمیٹی میں ان کی رکنیت کی وجہ سے جس نے 1988 میں مخالفین کے لیے سزائے موت کا فیصلہ کیا تھا اور 2009 میں مظاہرین کو دبانے میں اہم کردار ادا کرنے کے امریکی الزامات عاید کیے گئے۔

فلسطینی کاز کے پرزور حامی

شہید ایرانی صدر رئیسی فلسطینی عوام کی حمایت اور اپنی سرزمین سے صیہونی قابض دشمن کو شکست دینے کے حق کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمتی دھڑوں کی بھرپور حمایت کے لیے جانے جاتے تھے۔

7 اکتوبر کے واقعات کے بعد غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسل کشی کے آغاز کے ساتھ رئیسی کی قیادت میں ایران کے پاس مزاحمت کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کو مسترد کرنے کے لیے ٹھوس تاریخی موقف نے ان کی مزاحمتی قوتوں میں قدرو منزلت بڑھا دی تھی۔

چند روز قبل رئیسی نے اسلامی دنیا کے ممتاز ادیبوں اور ادبی و ثقافتی شخصیات کے ایک گروپ سے ملاقات کی، جو 35ویں تہران بین الاقوامی کتاب میلے میں شرکت کے لیے ایران گئے تھے۔

جناب رئیسی نے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین آج دنیا کے تمام اسلامی اور آزاد ممالک کے درمیان پہلا اور مشترکہ مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دشمن کی جانب سے ملت اسلامیہ میں مایوسی پھیلانے کی کوششوں کے باوجود اس کے ساتھ کھڑے ہونے اور مزاحمت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ غزہ کے مظلوم عوام کے تاریخی جبر کے خلاف بیدار اور آزاد قومیں اس پیغام کی ترجمانی کرتی ہیں کہ فلسطینی قوم کی فتح اور مجرم صیہونی وجود کی نابودی یقینی ہے۔

اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ اور ان کے ہمراہ وفد کے ساتھ ملاقات میں رئیسی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی عوام کے حقوق کے دفاع میں مضبوطی سے کھڑا ہے اور اسے اس پر فخر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کا مسئلہ غزہ کے مظلوم عوام کی مزاحمت اور بہادری سے ثابت قدمی کی روشنی میں عالم اسلام کی سرحدوں کو عبور کر کے انسانیت سے متعلق عالمی مسئلہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کے لوگ صیہونی مجرم اور اس کے اصل حامی امریکہ سے شدید نفرت کرتے ہیں جبکہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کے لیے انتہائی فکر مند ہیں۔

فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے رہ نماؤں سے ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ “اسرائیل” فلسطینی عوام کے حقوق کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے تمام وزن کے ساتھ میدان میں آیا ہے۔ مسلمانوں سے فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی اور یروشلم کو آزاد کرانے کے لیے متحرک ہونے کی اپیل کی ہے۔

رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سرفہرست رکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ عالم اسلام اس مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔

الاقصیٰ سیلاب کی حمایت

یروشلم فورم کی تقریب سے خطاب میں رئیسی نے زور دیا کہ “صیہونی وجود کے خلاف فلسطینیوں کی تاریخی کارروائیاں ہمیں متوقع فتح کے قریب لاتی ہیں”۔ صہیونی ریاست غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی اور انسانی قوانین کو نظر انداز کرتا ہے اور پوری دنیا اس پرشرمناک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔

اسلامی اتحاد کانفرنس سےاپنے خطاب میں شہید صدر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مسئلہ فلسطین اور یروشلم عالم اسلام کے اہم ترین مسائل ہیں اور مزاحمت ہی ان کو بچانے کا راستہ ہے۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ غاصب صہیونی  وجود کے خلاف فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی مدد کریں۔

مزاحمتی قوتوں کا رنجم وغم کا اظہار

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت کے اعلان کے فوراً بعد فلسطینی دھڑوں نے آج شہید اور ان کے ساتھیوں کے لیے تعزیتی بیانات جاری کرتے ہوئے رئیسی اور ان کے وزیر خارجہ عبداللہیان کے تاریخی مقام کو یاد کیا۔

حماس نے اس واقعے میں ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی موت پر رہبر انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریہ ایران جناب علی خامنہ ای، ایرانی حکومت اور ایرانی عوام سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔