میں نے کبھی مزاحمتی محاذ کا ساتھ نہیں چھوڑا: بشار الاسد
فاران تجزیاتی خبرنامہ: شام کے سابق صدر نے شام چھوڑنے کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے۔ علاوہ ازایں نشریہ “اسپیکٹیٹر” نے بھی ایک نوٹ شائع کیا جس میں اسد کے دمشق چھوڑنے اور روس میں پناہ لینے کا ذکر کیا گیا اور اس بات کو بیان کیا ہے کہ موجودہ حالات میں پوتین شام کے سابق رہنما کے لیے کس طرح کی زندگی فراہم کریں گے؟ بہر کیف بشار اسد کے بیان کے سلسلہ سے فارسی سائٹ “انتخاب” نے بشار اسد کے حوالے سے لکھا ہے: شام میں دہشت گردی کے پھیلاؤ اور 7 دسمبر 2024 کی شب کو دمشق تک اس کے پہنچنے کے بعد صدر کے مستقبل اور قیام کے مقام کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے، جبکہ الجھنوں اور غیر حقیقی کہانیوں کی بھرمار ہوئی جنہوں نے عالمی دہشت گردی کو ایک شامی آزادی کی تحریک کے طور پر پیش کرنے میں مدد فراہم کی۔
ایک حساس تاریخی لمحے میں، جب حقیقت کو واضح ہونا چاہیے تھا، ایک نکتہ ہے جسے وضاحت کی ضرورت ہے اور جسے ایک مختصر بیان کے ذریعے بیان کیا جانا چاہیے۔
سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر رابطوں کی مکمل معطلی نے اسے مناسب وقت پر بیان کرنے سے روکا، اور اس کا مختصر خلاصہ ان تمام بعد کے واقعات کی مکمل وضاحت کی جگہ نہیں لے سکتا، جس کی تفصیل مناسب موقع پر پیش کی جائے گی۔ بشار اسد نے مزید کہا:
سب سے پہلے، میں نے ملک کو منصوبہ بندی کے مطابق نہیں چھوڑا، جیسا کہ افواہیں تھیں، بلکہ میں اتوار کی صبح 8 دسمبر 2024 تک دمشق میں موجود رہا اور اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔
دمشق میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کے بعد، میں اپنے روسی اتحادیوں کے ساتھ ہم آہنگی میں لاذقیہ منتقل ہوا تاکہ وہاں سے عسکری کارروائیوں کی نگرانی کر سکوں۔ حمیمیم کے ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ تمام محاذوں سے افواج پسپا ہو چکی ہیں اور فوجی چوکیوں کا سقوط ہو چکا ہے۔ اس علاقے میں میدانِ جنگ کی صورتِ حال مزید خراب ہو گئی تھی اور روسی فوجی اڈے پر ڈرون حملے شدید ہو رہے تھے۔
جب کسی بھی سمت میں اڈے کو چھوڑنا ناممکن ہو گیا، تو ماسکو نے اڈے کی کمانڈ سے کہا کہ اتوار کی شام 8 دسمبر کو فوری طور پر روس منتقلی کے لیے ضروری اقدامات کریں، یعنی دمشق اور آخری فوجی چوکیوں کے سقوط کے ایک دن بعد۔
ان واقعات کے دوران، نہ میں نے اور نہ ہی کسی فرد یا گروہ نے پناہ یا استعفیٰ کا ذکر کیا۔ ہمارے سامنے واحد راستہ دہشت گرد حملوں کے خلاف دفاع جاری رکھنا تھا۔
اس ضمن میں، میں یہ بات واضح کرتا ہوں کہ جنگ کے پہلے دن سے لے کر اب تک، میں نے کبھی یہ قبول نہیں کیا کہ اپنے ملک کو بچانے کی قیمت پر اپنی ذات کو بچاؤں یا مختلف پیشکشوں اور ترغیبات کے ذریعے اپنے عوام کے ساتھ سودے بازی کروں۔ وہی شخص جو اپنے فوجی افسران اور سپاہیوں کے ساتھ محاذ پر کھڑا رہا، دہشت گردوں سے چند میٹر کے فاصلے پر، اور وہی شخص جو جنگ کے مشکل ترین برسوں میں اپنے خاندان اور عوام کے ساتھ دمشق میں موجود رہا، دہشت گردی کے خطرے اور بمباری کا سامنا کرتے ہوئے، وہ اپنی عوام کو ترک نہیں کر سکتا۔
میں نے کبھی ذاتی مفادات کی تلاش نہیں کی بلکہ خود کو ایک قومی منصوبے کا حامل سمجھا، جس کی حمایت اُن لوگوں سے حاصل ہوتی رہی جو اس پر ایمان رکھتے تھے۔ میں نے اپنے عوام کے ارادے اور ان کی صلاحیتوں کو ان کے ملک کو بچانے اور اس کے اداروں کا دفاع کرنے میں آخری لمحے تک اٹھایا۔ لیکن جب ملک دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا جائے اور کچھ پیش کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہے، تو عہدہ خالی اور بے معنی ہو جاتا ہے اور اس پر موجود رہنے کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔
یہ کسی بھی طور اپنے ملک سے تعلق کو ترک کرنے کے مترادف نہیں ہے، بلکہ ایک ثابت تعلق ہے جو نہ عہدے سے متاثر ہوتا ہے اور نہ حالات سے۔ یہ تعلق امید سے بھرا ہوا ہے کہ شام ایک دن آزاد اور خودمختار ہوگا۔
تبصرہ کریں