نئی امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کا آمنا سامنا (پہلا حصہ)

صہیونی ریاست کے حکام امریکی حکام کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے دوران - ویانا مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں - متبادل منصوبہ متعین کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کی امریکیوں کی سنجیدہ اور تزویراتی عدم دلچسپی اور خطے میں فوجی موجودگی کو کم کرنے کے امریکی عزم کی وجہ سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی ریاست کے حکام امریکی حکام کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے دوران – ویانا مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں – متبادل منصوبہ متعین کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کی امریکیوں کی سنجیدہ اور تزویراتی عدم دلچسپی اور خطے میں فوجی موجودگی کو کم کرنے کے امریکی عزم کی وجہ سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔
صحافی اور علاقائی مسائل کے ماہر ڈاکٹر علی رضا عرب نے “اسرائیل کا نئی امریکی انتظامیہ کی حکمت عملیوں کے ساتھ ٹکراؤ” کا تجزیہ کیا، جس کا متن حسب ذیل ہے:
صہیونی اخبار اسرائیل ہایوم (Israel Hayom) نے اتوار 14 نومبر سنہ 2021ع‍ کو لکھا: “اسرائیل کو تشویش ہے کہ امریکہ ایسے کسی نئے معاہدے پر دست نہ کرلے جو جامع مشترکہ منصوبۂ عمل “JCPOA” (1) سے بھی بدتر ہو! چنانچہ وزیر اعظم نفتالی بینٹ (naftali bennet) نے ایران کے ایٹمی معاہدے کے احیاء کی مخالفت کی غرض سے ایرانی امور میں بائیڈن کے خصوصی ایلچی رابرٹ میلی (Robert Malley) سے ملنے سے انکار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رابرٹ میلی خطہ مقبوضہ فلسطین کے دورے پر ہیں”۔
لیکن وزیر جنگ بینی گانٹز (Benny Gantz) اور بینٹ انتظامیہ کے قومی سلامتی کے مشیر إیال خُلاطا (Eyal Hulata) اور خفیہ ایجنسی موساد کے کچھ اہلکار رابرٹ مالی کے ساتھ ایران کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ اسرائیل ہایوم کے مطابق، امریکہ ایران کے ساتھ سمجھوتے میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا، لیکن اس کے باوجود اسرائیلی حکام اس بات سے ناخوش ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ میزائل پاور اور شام میں ایران کی موجودگی جیسے مسائل کے بارے میں مذاکرات کی صہیونی تجویز قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ: نفتالی بینیٹ کی حکومت [جسے وہ change government کا نام دیتا ہے] اور نئی امریکی حکومت کی حکمت عملیوں سے ٹکراؤ کو کس طرح جانچا جاسکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو اب نئے امریکی سیاسی پروگرام (بائیڈن وژن) کے دائرے کے اندر رہ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ لہٰذا، اسرائیل پر لازم ہوگا کہ مغربی ایشیا کے خطے سے متعلق اپنی حکمت عملیوں کو چار ترجیحات میں بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ہم آہنگ رکھے۔
1۔ امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ تعلقات کی بحالی: یہ مسئلہ اسرائیل کے لئے ضروری ہے۔
2۔ مسئلۂ فلسطین: امریکہ فلسطین میں دو ریاستی حل (The two-state solution) پر زور دے رہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کو امریکہ کی نئی حکومت کے آگے سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔
3۔ معمول پر لانے (normalizations) کے عمل کی توسیع: چین اور مشرقی ایشیا پر اپنی توجہ مرکوز کرنے اور مشرق وسطی میں فوجی کردار کم کرنے اور اسی اثناء میں سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے لحاظ سے موجود رہنے کی نئی امریکی حکمت عملی کے پیش نظر، اسرائیل کی کوشش ہے کہ امریکہ کے عرب اتحادیوں کو فوجی، معاشی نیز فنی اور ٹیکنولاجیکل امداد فراہم کرکے علاقے میں امریکہ کی خالی جگہ کو حتی الوسع پر کر دے۔
4۔ ایران کا مسئلہ (جوہری صنعت – میزائل منصوبہ اور علاقائی اثر و رسوخ): چونکہ خطے میں فوجی طاقت استعمال کرنے کی سابقہ امریکی رغبت و رجحان میں بہت زیادہ کمی آئی ہے اور اس وقت امریکہ کی پہلی ترجیح چین اور مشرقی ایشیا ہے، جبکہ ایران کے حوالے سے اس کی ترجیح جوہری معاہدے کی بحالی پر اصرار اور صرف سفارتکاری تک محدود رہنے اور زیادہ سے زیادہ، معاشی پابندیوں پر انحصار کا عزم ہے۔ چنانچہ اس شعبے میں امریکہ کے حوالے سے اسرائیل کو بہت ساری پیچیدگیوں اور مسائل کا سامنا ہے۔
1۔ امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ تعلقات کی بحالی:
شک نہیں ہے کہ حالات بدل چکے ہیں اور اسرائیل اس وقت امریکی سیاست میں کم ہی بیک وقت دو جماعتی حمایت (Bipartisan support) حاصل کرسکتا ہے۔ جبکہ چند سال قبل اسرائیل امریکیوں کا مشترکہ اور قومی مسئلہ سمجھا جاتا تھا اور دونوں جماعتیں (ڈیموکریٹ اور ریپبلکن) اس کی غیر مشرط حمایت کی پابند تھیں۔ اس وقت ریپبلکن جماعت تو پہلے کی طرح اس کے حامی ہے لیکن ڈیموکریٹ جماعت میں “امریکہ کی اسرائیلی حمایت” کے سلسلے میں دراڑ پڑ گئی ہے۔
گوکہ ڈیموکریٹ جماعت کا ترقی پسند دھڑا – جو رشید طُلَیب (Rashida Tlaib)، الہان عمر (Ilhan Omar) اور برنی سینڈرز(Bernie Sanders) جیسے افراد پر مشتمل ہے اور – اس وقت اقلیت سمجھا جاتا ہے لیکن امریکی معاشرے کے اندر عمرانیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر، اس کے فکری رجحانات کو فروغ مل رہا ہے اور یہ اقلیت تمام امریکی ریاستوں میں مسلسل پھیل رہی ہے؛ جو روزافزوں انداز سے اسرائیل پر تنقید کرتی ہے، یہاں تک کہ آج امریکہ میں اسرائیل پر تنقید شجرہ ممنوعہ نہیں سمجھی جاتی اور یہ سلسلہ ہالی ووڈ سمیت تمام امریکی سماجی، سیاسی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں تک پھیل گیا ہے۔ البتہ فی الوقت کانگریس کی حد تک ڈیموکریٹ جماعت میں اسرائیل کی قوی حمایت موجود ہے جو البتہ مذکورہ افراد اور ان جیسے دوسرے افراد کی وجہ سے کبھی پھیکی بھی پڑ جاتی ہے۔
امریکہ میں سیاسی منظرنامہ بدل گیا ہے۔ اسرائیل کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈیموکریٹ جماعت کے ہاں اپنی کھوتی ہوئی ساکھ کو بحال کرے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ڈیموکریٹ جماعت کی بائیں بازو کے اراکین اور انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی قربت حاصل کریں جو ایک نہایت کٹھن کام ہے اور اس کے لئے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور سرگرم کارکنوں کے نظریات کو بدلنا ہوگا! ایک عجیب واقعہ جو حال ہی میں رونما ہؤا، یہ تھا کہ انتہائی دائیں بازو کی ڈیموکریٹ اقلیت نے حالیہ امریکی کانگریس کی ووٹنگ کے دوران اسرائیل کے آئرن ڈوم میزائل دفاعی سسٹم کے بجٹ کو مرکزی بجٹ بل میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ نہیں دیا اور اس کی مخالفت کی، جو اس بات کی علامت ہے کہ ڈیموکریٹ جماعت کے نزدیک اسرائیل کی حمایت کم ہوگئی ہے۔ بہرحال قانون ساز آئرن ڈوم میزائل دفاعی سسٹم بجٹ کی منظوری کی غرض سے اس کے لئے الگ ووٹنگ کرائی جو بہرحال 420 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور ہؤا اور 9 اراکین نے اس کی مخالفت کی جن کا تعلق انتہائی بائیں بازو سے تھا۔ چنانچہ آج اسرائیل کا مسئلہ پہلی کی نسبت بہت کم ہی دو جماعتی مسئلہ ہے۔
آہنی گنبد دفاعی نظام (Iron Dome air defense system) مکمل طور پر دفاعی نظام ہے جسے اسرائیلی ریاست اپنے شہروں اور نو آبادیوں کو اسلامی مزاحمت تحریک کے میزائلوں سے محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ بعض امریکی قانون سازوں کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل کے پاس یہ سسٹم نہ ہوتا تو اسے حماس اور دوسری مزاحمتی جماعتوں کے میزائل، تباہ کرنے کے لئے غزہ پر زمینی حملے کے لئے اپنی بری فوج بھیجنا پڑتی اور غزہ کے رہائشی فلسطینیوں کے لئے اس اسرائیلی حملے کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی!!! (2)

جاری ۔۔۔