نیٹو اور مغرب کی شرمناک شکست کے سات عبرت آموز اسباق
فاران؛ یمن کی قومی نجات حکومت کے وزیر اعظم “عبدالعزیز صالح بن حبتور” نے ایک یادداشت میں افغانستان میں مغرب اور اس کے سربراہ “امریکہ” کی شرمناک شکست پر ایک تجزیئے کے ضمن میں “سات اسباق” کی طرف اشارہ کیا جو اس واقعے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے لکھا کہ یہ واقعہ ان لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا سبق تھا جو قابض قوتوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں اور وہ یہ تھا: “ایک آزاد سرزمین ایسے لوگوں کو قبول نہیں کیا کرتی اور انہیں اپنی مادر وطن، دین اور تاریخ کے ساتھ خیانت اور غداری کے نتیجے میں، پوری کرہ ارض پر بھاگتے رہنا پڑے گا”۔
اس یادداشت کا ایک نسخہ ویب گاہ “26 ستمبر” میں مندرج کیا گیا جس میں کہا گیا ہے: “پوری دنیا ایک دن یاد کرے گی، بالکل اسی تاریخ کو، انسانی تاریخ اتوار 15 اگست 2021ء کو یاد کرے گی، بھاری شکست کے تاریخی دن کو، ثبت کرے گی کہ اس دن امریکہ کی قیادت میں شمالی اوقیانوسی معاہدہ تنظیم (NATO) کو شکست کا تلخ پیالہ نوش کرنا پڑا جس کی تلخی ہمیشہ کے لئے اور کئی عشروں تک مغرب کے سیاسی اور عسکری سربراہوں کے ذائقے میں باقی رہے گی اور پوری دنیا کے باسی اس خاص تاریخ کو یاد رکھیں گے۔ وہ یاد رکھیں گے کہ ویت نام، کوریا، صومالیہ، عراق اور لبنان میں “امریکی سلطنت” کی شکستوں میں ایک نئی شکست کا اضآفہ ہؤا اور اس کے ناکامیوں کے نئے مرحلے کا آغاز ہؤا”۔
“انسانی تاریخ کے دوسرے بڑے واقعات کی طرح، جن کے بارے میں مفکرین، نظریہ پرداز اور ابلاغیاتی و سیاسی مبصرین کئی زمروں میں تقسیم ہوتے ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ پہلی نگاہ میں شکست کا منظرنامہ دیکھ کر – جو کہ دنیا کے سب سے بڑے فوجی معاہدے کے ماتھے پر ایک دھبہ ہے – دل کو ٹھنڈا کرکے خوشی سے بھر دیتا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو افسوسناک ہے اور وہ یہ کہ یہ عبرتناک شکست افغان سرزمین پر نیٹو اور امریکہ کے حملے اور ان کے ہاتھوں اس پر قبضے کے 20 سال بعد رقم ہوئی ہے”۔
“اتوار کا دن صبح سویرے سے اپنی تمام تر بھاری گھڑیوں اور دقیقوں کے ساتھ، مغربی، عربی اور اسلامی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا؛ صبح ہی سے مغرب کے سیاسی اور سفارتی عملوں کے شرمناک واقعات جاری رہے، ہیلی کاپٹر کابل کے گرین زون اور کابل ایئرپورٹ کے درمیان محو پرواز رہے۔ گرین زون – جہاں مغربی سفارتخانے واقع ہیں – اور کابل کے ہوائی اڈے کے درمیان چند ہی کلومیٹر کا فاصلہ حائل ہے۔ ہیلی کاپٹروں کی پرواز مسلسل جاری رہی یہاں تک کہ سفارتخانوں کا پورا مغربی عملہ ایئرپورٹ منتقل ہؤا۔ یہ لوگ ہلکے سے سوٹ کیس لے کر ایئرپورٹ منتقل ہوئے۔ یہ سوٹ کیس یقینا اصلی دستاویزات سے بھرے ہوئے تھے اور بقول مشہور “جو کچھ زیادہ ہلکا اور زيادہ قیمتی تھا، وہ ساتھ لے گئے”۔ اس واقعے کا سبب یہ تھا کہ طالبان کے جنگجو کابل کی طرف پیش قدمی کررہے تھے”۔
“افغانستان کے ہوائی اڈے کے ذریعے فرار ہونے والوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سفیر بھی تھا جو اس فیصلہ کن شکست کی آخری علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس سے چند ہی گھڑیاں قبل، امریکہ کا دوست اور امریکیوں کا وفادار افغان صدر “اشرف غنی احمدزئی” اپنے اعلی سرکاری ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان کو ترک کرچکے تھے۔ گوکہ وہ اپنے فرار سے ایک ہی دن قبل کابل کے صدارتی محل میں پرجوش خطاب کرچکے تھے اور کہہ چکے تھے کہ “میں اور میری کابینہ” افغانستان اور اس کے عوام کا دفاع کریں گے، خواہ وہ تنہا ہی کیوں نہ رہ جائیں؛ وہ تنہا رہ کر بھی صدارتی محل میں، دفاع کریں گے”۔ یہ وہ کھوکھلی تقریر تھی جو ہم اس سے پہلے ہزاروں بار بھاگتے ہوئے عربی اور یمنی سیاستدانوں سے سن چکے تھے؛ اور یہ تقاریر معاصر تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوچکی ہیں”۔
افغانستان کے تجربے کے اہم ترین اسباق
اول: امریکی صدر جو بائیڈن نے حالیہ ہفتوں کے دوران کہا تھا کہ وہ افغان “مترجمین” کو دوسرے ممالک میں منتقل کررہے ہیں تاکہ ان کے لئے امریکہ میں قیام کا انتظام کیا جاسکے۔ مترجمین سے ان کی مراد مغرب کے وہ زرخرید افغان چیلے اور ٹولے ہیں جنہوں نے امریکیوں کے ساتھ تعاون کیا ہے کیونکہ اگر وہ افغانستان سے نہ بھاگتے تو افغان عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے اور انہیں غداری کی سزا دی جاتی۔ یہ پوری دنیا میں غیرملکیوں سے وابستہ کرائے کے گماشتوں کے لئے ایک درس عبرت ہے جن میں یمن کے غدار بھی شامل ہیں جو جارح قوتوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔
دوئم: دنیا کی کوئی بھی آزاد اور حریت پسند سرزمین، کسی بھی قابض اور جارح کو برداشت نہیں کرتی خواہ وہ قابض و جارح جتنا بھی جابر و طاقتور ہی کیوں نہ ہو۔ اسی بنا پر نیٹو کے اڈے اور امریکی، برطانوی، جرمن، فرانسیسی، اطالوی و۔۔۔ سپاہیوں کو بالآخر بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھا کر نکال باہر کیا جائے گا۔ یہ تمام حقائق افغانستان پر جارحیت کا ارتکاب کرنے والے ممالک کے عوام اور ان ممالک کے مسلم عوام کے دلوں میں ایک دائمی اور ابدی صدمے کی صورت میں باقی رہیں گے۔
سوئم: دنیا کے لوگوں کو 11 ستمبر 2001ء اور نیویارک میں واقع عالمی تجارتی مرکز کی جڑواں عمارتوں کا انہدام بخوبی یاد ہے، جس میں 3000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس بےباکانہ اقدام کی ذمہ داری القاعدہ اور کچھ طالبان پر ڈال دی گئی۔ امریکہ سنہ 2001ء نیٹو کے دوسرے رکن ممالک کے ساتھ مل کر، طالبان کی مداخلت پر مبنی کسی بھی سند و ثبوت کے بغیر، آتش و آہن کی مدد سے، افغانستان اور اس میں قائم حکومت پر حملہ آور ہؤا۔ یہ جبر و تکبر، خود غرضی اور استکبار کی انتہا تھی جس میں بنی نوع انسان اور افغان معاشرے کو نظرانداز کیا گیا۔ انھوں نے افغان عوام پر بدترین اور المناک ترین مظالم کے پہاڑ توڑے۔ چنانچہ ایک اہم سبق یہ تھا کہ امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں اور ان کے بےشرمانہ سامراجی منصوبے کو شکست فاش اور مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
چہارم: مغرب کے استعماری طرز فکر میں وقت گذرنے کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور دوسری اقوام اور ممالک کو اپنے پرانے ہی طریقوں سے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کی پرانی آرزو آج بھی مغربیوں کے افکار میں سر فہرست ہے؛ چنانچہ آپ انہیں مسلسل اپنی غلطیاں دہراتے دیکھیں گے کیونکہ وہ ان غلطیوں کو سیاسی، ثقافتی، سرمایہ دارانہ اور لبرل مغربی نظام کا حصہ سمجھتے ہیں؛ جو کچھ کابل میں رونما ہؤا وہی ویت نام کے شہر سائیگون (Saigon) یا ہو چی منہ سٹی (Ho Chi Minh City)، صومالیہ کے دار الحکومت موغادیشو اور دنیا کے کئی دوسرے شہروں میں دہرایا گیا۔
پنجم: نیٹو افواج دنیا کے جدیدترین ہتھیاروں اور فوجی وسائل اور ہزاروں فوجیوں کو افغانستان میں کھو بیٹھیں؛ ان فوجیوں میں ہالکین، زخمی اور گمشدہ سپاہیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ افغان عوام نے مزاحمتی جنگ لڑکر اس سے کئی گنا زیادہ جانوں کی قربانی دی۔ نیٹو افواج آج ایک غربت زدہ اور زخمی ملک کو – جس کے پاس جدید زندگی کے پیشرفتہ وسائل نہیں ہیں – چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں۔ پوری تاریخ میں جارحوں اور غاصبوں کا انجام یہی رہا ہے لیکن اسی اثناء میں افغانستان کے عوام نے بیرونی قابضین کو بھگا کر قومی آزادی حاصل کرلی ہے جو بہت زیادہ قابل قدر ہے اور اس پورے قضیے کی اہم ترین حصول یابی ہے۔
ششم: اتوار کا تاریخی دن گذر گیا اور سوموار کے دن سے اندرون ملک سماجی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سطح پر متوازن تعلقات نیز پڑوسی ممالک کے ساتھ تعامل کی ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے۔ طالبان کو ملکی انتظام و انصرام کے سلسلے میں اگلے مرحلے کے چیلنجوں سے قانون کے مطابق – اور تمام تر سیاسی اور سماجی حتی کہ مذہبی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے – نمٹنا پڑے گا؛ بےشک ممالک اور حکومتوں کا انتظآم صرف اسی روش سے ممکن ہے؛ کیونکہ اقتدار پر اجارہ داری اور انانیت بہت ہی افسوسناک نتائج پر منتج ہوگی اور اپنے 20 سال قبل – اور اس سے بھی پہلے – کے کردار سے درس عبرت حاصل کرنا، طالبان کے لئے ایک آزمائش ہے اور یہ سب ان کے مستقبل کے کردار کے تعین کے لئے ضروری ہے۔
ہفتم: اہم ترین سبق ان لوگوں کے لئے ہے جو جارح قابضوں کے ساتھ تعاون اور دوستی کرتے ہیں۔ یقینا ایک آزاد سرزمین ایسے افراد کو برداشت نہیں کرتی اور اپنی مادر وطن، دین اور تاریخ کے ساتھ غداری کی وجہ سے، انہیں تا حیات پورے کرہ خاکی میں بھاگتے رہنا پڑتا ہے۔
المختصر یہ انسانی تاریخ اپنی ابتداء ہی سے، ہمیں بتاتی ہے کہ دوسرے ممالک پر بیرونی یلغاریوں کا انجام شکست ہے۔ جب وہ جارح یلغاری شکست کھا کر ٹوٹے پرچم کے ساتھ اپنے وطن کی طرف پلٹتا ہے، وہ لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں جنہوں نے اس جارح کو تسلیم کرلیا تا اور اس کی متابعت کو اپنا فریضہ سمجھ بیٹھے تھے؛ وہ اپنے ان کرائے کے کارندوں کے ساتھ اپنے وطن میں پلٹ جاتے ہیں۔
اور اللہ کا ارشاد گرامی ہے:
“وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ؛ اور ہر علم والے سے اوپر ایک بڑا علم والا ہوتا ہے۔
(سورہ یوسف، آیت 76)۔
وزیر اعظم
جمہوریہ یمن – صنعاء
تبصرہ کریں