واقعہ کربلا؛ کیا امام حسین (علیہ السلام) کو شیعہ کوفیوں نے شہید کیا؟

کیا کربلا کے واقعے کے اصل بانی کوفی تھے؟ کیا شیعہ امام حسین (علیہ السلام) کے قتل میں شریک تھے جیسا کہ بنی امیہ کے فکری احفاد دعویٰ کرتے ہیں؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: الکوفی لا یوفی، ابن الوقتوں کی جماعت، بے وفا لوگ، عہدشکن لوگ، وغیرہ وغیرہ وہ القاب ہیں جو منشیوں کی لکھی ہوئی تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں کوفیوں کو دیئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ابتداء میں امویوں نے شروع کیا، عباسیوں کے دور میں جاری رہا اور بعد کے ادوار میں اسی زمانے کی تصنیفات و تالیفات کے حوالے سے جاری رکھا گیا حتی کہ شیعہ عوام کے افواہ میں بھی رائج ہؤا؛ واعظوں اور ذاکروں نیز شاعروں اور مداحوں نے بھی اسی سلسلے کی پیروی کی۔
ہم عزائے امام حسین (علیہ السلام) کے ان ایام میں سنہ 61 ہجری کے کوفیوں کو بالکل نئے زاویئے سے دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں:
پہلا سوال:
کیا کربلا کے واقعے کے اصل بانی کوفی تھے؟ کیا شیعہ امام حسین (علیہ السلام) کے قتل میں شریک تھے جیسا کہ بنی امیہ کے فکری احفاد دعویٰ کرتے ہیں؟
جواب:
کوفہ کا نام لیتے ہی بعض لوگ سوچتے ہیں کہ گویا اس شہر کی اکثریتی آبادی کا تعلق مذہب تشیّع سے تھا حالانکہ یہاں شیعہ آبادی مطلق اقلیت میں تھی بلکہ امام محمد باقر (علیہ السلام) محمد بن عمر کشی کی روایت کے مطابق امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے زمانے میں یہاں اعتقادی شیعوں کی تعداد 50 ہزار افراد تک پہنچتی تھی۔ (كشي، محمدبن عمر، اختیار معرفه الرجال، ج 1، ص 62) ادھر معاویہ جب مسلمانوں پر مسلط ہؤا تو اس کی سخت گیر پالیسیوں اور شیعوں کو خوف و ہراس اور قتل و اسیری جیسے مسائل کا سامنا تھا چنانچہ اعتقادی شیعوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ کم تھی جتنا کہ تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ زیادہ تر شیعہ کوفہ سے چلے گئے تھے یا بالکل گوشہ نشین ہو چکے تھے۔ معاویہ نے اپنے زمانے میں شیعوں کی آبادی میں اضافے سے خوفزدہ ہو کر 25 ہزار شیعوں کو خراسان کی طرف کوچ کروایا اور 25 ہزار عثمانیوں کو کوفہ میں بسا کر شیعوں کی تعداد کو مطلق اقلیت میں تبدیل کیا۔
عاشورا سنہ 61ھ کی آمد پر، کوفیوں کو چار گرہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1۔ علوی:
کوفہ اور عالم اسلام کی اکثریت اس زمانے میں بھی اور آج بھی اس گروہ کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو شیخین (ابوبکر اور عمر) کی محبت سینے میں سموئے ہوئے تھے، اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو بھی – امام برحق کے طور پر نہیں بلکہ – خلیفۂ رابع کے طور پر مانتے تھے۔ شاید آج کے اکثر سنی اسی فکر کے پیروکار ہیں؛ گوکہ یہ لوگ کلامی اور فقہی مکاتب کے ظہور پذیر ہونے پر، “علوی” کے بجائے، اہل سنت کہلائے۔
2۔ شیعہ:
یہ وہ لوگ تھے جو ابتداء ہی سے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو امام برحق سمجھتے تھے اور ان کی رائے یہ تھی کہ سقیفہ میں آپ کا حق ضائع کیا گیا اور غدیر میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وصیت کو نظر انداز کیا گیا۔ آج کے زمانے کے شیعہ اسی گروہ کے زمرے میں آتے ہیں۔
3۔ عثمانی:
یہ وہ لوگ تھے جو خلفائے ثلاثہ کی خلافت پر یقین رکھتے تھے، عثمان بن عفان کے قتل کو ناحق سمحھتے تھے، اور ان کے قاتلوں کو جانتے ہوئے بھی، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ان کے قتل میں ملوث کرتے تھے حالانکہ معاویہ، خلیفہ وقت کے حکم پر ایک بڑا لشکر لے کر ان کی مدد کو آیا تھا لیکن مدینہ کے نواح میں پڑاؤ ڈال کر مدینہ میں داخل ہی نہیں ہؤا، یہاں تک کہ خلیفہ قتل ہو گئے اور معاویہ شام واپس چلا گیا۔ اس لحاظ سے معاویہ پر اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام کچھ زیادہ ہی جچتا ہے۔ بہرحال معاویہ اور یزید اور ان کے پیروکار اس عقیدے کے پیروکار تھے۔
4۔ خوارج:
یہ لوگ شیخین سے محبت رکھتے تھے اور ان کا گمان تھا کہ ان دو خلفاء کے بعد بنی ہاشم اور بنی امیہ غلط راستے پر نکلے تھے۔ یہ گروہ دونوں کا دشمن تھا۔ خوارج حکومت کے حوالے سے خاص طرز فکر کی بنا پر زیادہ تر حکومتوں کے ساتھ اختلاف سے دوچار ہوئے۔ چنانچہ آج کے زمانے میں سلطنت عمان اور شمالی افریقہ میں خوارج کی مختصر سی آبادی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس زمرہ بندی – نیز معاویہ کی آبادیاتی تبدیلی اور جبری نقلی مکانی کی پالیسی – کی رو سے کوفہ کی آبادی کی اکثریتی کا تعلق علویوں اور عثمانیوں [اہل سنت اور اموی دھڑے) سے تھی اور یہ درست ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کو دعوت نامے شیعہ زعماء نے بھی لکھے تھے لیکن زیادہ تر دستخط کرنے والے علوی تھے۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ زیادہ تر خطوط لکھنے والے اعتقادی شیعہ تھے اور ان پر دستخط کرنے والوں کی غالب اکثریت ان علویوں کی تھی جو بعد میں اہل سنت کہلائے، تو کربلا میں کوفیوں کی عدم حاضری کے اسباب کا بہتر ادراک کر سکیں۔
دوسرا سوال:
روز عاشورا، کون تھے جو امام حسین (علیہ السلام) کے مقابلے پر آئے؟ شیعہ کہاں تھے؟
جواب:
1۔ جو سپاہ کوفہ کے یزیدی گورنر عبید اللہ بن زیاد نے امام حسین (علیہ السلام) کے خلاف فراہم کر دی، اس کے افسر اور جنگجو اس غلط مفروضے پر اتفاق رائے رکھتے تھے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) قتل عثمان میں ملوث تھے، جیسا کہ کوفہ کے گورنر نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کے نام اپنے خط میں تحریر کیا ہے کہ “حسین اور ان کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ، یہاں تک کہ وہ پانی کی ایک بوند بھی نہ پی سکیں؛ وہی برتاؤ کہ مسلمانوں کے مظلوم پاک خصلت اور پرہیزگار امیر عثمان بن عفان کے ساتھ روا رکھا گیا”۔ (تاریخ طبری، فارسی ترجمہ، ج7، ص3006)۔ اس خطے کے مضمون اور عمر بن سعد کے برتاؤ کی نوعیت، بطور خاص پانی کی بندش، کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ بنی امیه نے خلیفہ ثالث عثمان بن عفان پر باغیوں کی طرف کی پانی کی بندش کا بدلہ آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور خاص طور پر امام حسین (علیہ السلام) سے لیا جو اپنے بھائی امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ خلیفہ کی حفاظت کرتے ہوئے زخمی ہوئے تھے!۔ واضح رہے کہ خلیفہ ثالث خود بھی بنی امیہ میں سے تھے۔
2۔ امام حسین (علیہ السلام) نے اشقیائے شام کی سپاہ کے ساتھ مناظرہ کیا اور فرمایا:
“وَيْلَكُمْ أَتَقْتُلُونِي عَلَى سُنَّة بَدَّلْتُهاَ؟ أَمْ عَلَى شَرِيعَةٍ غَيَّرْتُها، أَمْ عَلَى جُرْمٍ فَعَلْتُهُ، أَمْ عَلَى حَقٍّ تَرَكْتُهُ؛
ہلاکت ہو تم پر! کیا تم مجھے اس لئے قتل کر رہے ہو کہ میں نے کسی سنت کو بدل دیا ہے، یا کسی شریعت کو تبدیل کیا ہے، یا کسی جرم کا مرتکب ہؤا ہوں یا میں نے کسی حق کو ترک کردیا ہے؟”
جو کچھ امام کے ان سوالات کے جواب میں انھوں نے کہا وہ کسی کوفی شیعہ کا جواب نہیں ہو سکتا ہے۔ اس جواب سے ان کی سوچ کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہٹ دھرم، اسلام فراموش اور شقی دشمنوں نے نہایت بے شرمی کا ثبوت دیتے ہوئے، کفار و مشرکین کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قیادت میں ہونے والے غزوات میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے بنیادی کردار کو جرم قرار دیا اور کہا:
“إِنّا نَقْتُلُكَ بُغْضاً لأبيكَ؛
ہم آپ کو اس لئے قتل کر رہے ہیں کہ آپ کے باپ سے بغض و نفرت کرتے ہیں!!!
ایک فرعی سوال: بدر و احد کے مجاہدوں کے مجاہدانہ کردار کو باعث نفرت سمجھنے والے اور اس نفرت کی بنا پر کسی کے اہل خانہ سے بدلہ لینے والے شخص یا جماعت کا شرعی حکم کیا ہے؟
اس جواب سے دو نکتے واضح ہو جاتے ہیں:
1۔ عمر بن سعد کی کمان میں حاضر ہونے والی یزیدی سپاہ پر عثمانی جماعت کی فکر کا غلبہ تھا۔
2۔ عمر بن سعد کے لشکر میں شیعہ تو کیا، علوی (سنی) بھی موجود نہیں تھے۔ اور سوال یہ ہے کہ کیا کوئی علوی یا سنی ایسا ہو سکتا ہے اور یا کوئی شیعہ ایسا ہو سکتا ہے جو امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کا بغض دل میں رکھتا ہو اور اسی بنا پر آپ کے فرزندوں کو قتل کرنا چاہے؟
3۔ اعتقادی شیعہ کربلا میں حاضر ہی نہ ہو سکے۔ جب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ (سلام اللہ علیہما) یزیدی گورنر عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے، (تاریخ طبری، فارسی ترجمہ، ج7، ص2962) تو اس کے گماشتے شک و گمان کی بنیاد پر کوفیوں کو قیدخانوں میں بند کرنے لگے اور کوفہ میں خوف و دہشت کی ایسی فضا قائم کرلی کہ شیعوں کے لئے – کربلا جاکر امام حسین (علیہ السلام) کی حمایت کرنا تو در کنار – ہلنا جلنا بھی ممکن نہ رہا۔

4۔ عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ نے اپنی جبر کی پالیسی کے تحت، اولاً کوفہ کے داخلی اور خارجی راستوں پر کڑی نگرانی کا اہتمام کیا اور ثانیاً کوفہ کے شیعہ محلے کی مکمل ناکہ بندی کرلی؛ یہاں تک کہ حبیب بن مُظاہر اسدی اور مُسْلِم بن عَوْسَجَہ اَسَدی خفیہ طور پر کوفہ سے خارج ہو کر فرات کے کنارے کے راستے سے کربلا پہنچے۔ اس سلسلے میں شواہد اور ثبوت بہت ہیں۔
مثال کے طور پر، طبری نے یونس بن ابی اسحاق السبیعی سے نقل کیا ہے کہ جب عبید اللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ حسین (علیہ السلام) مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے ہیں تو اس نے حصین بن نمیر کو قادسیہ میں تعینات کیا اور قادسیہ سے قطعطانہ اور لعلع کے علاقوں تک سوار متعین کروائے۔ (تاریخ طبری، فارسی ترجمہ، ج7، ص2981) حالات اس قدر سخت تھے کہ قبیلہ ہمدان کا ایک شخص اپنے مرحوم باپ کا ترکہ وصول کرنے کی غرض سے کوفہ آیا تو یزیدی گماشتے اسے پکڑ کر ابن زیاد کے پاس لے گئے اور اس نے کوئی سوال پوچھے بغیر اس کے قتل کا حکم جاری کیا (باقر شریف القرشی، حیاۃ الإمام حسین علیہ السلام، ج3، ص117) جس کی وجہ سے خوف و ہراس میں مزید شدت آئی۔
5۔ بہت سارے غیر شیعہ کوفی بھی یہ نہیں سمجھتے تھے امام حسین (علیہ السلام) کی تحریک کا انجام شہادت امام سے عبارت ہوگا۔ اور یزیدیوں کے اقدامات سے ان کا تاثر کچھ اور تھا؛ چنانچہ حر بن یزید ریاحی نے امام کے خلاف یزیدی لشکر کے رویوں کو دیکھا تو آپ کا راستہ روکنے سے پشیمان ہو گئے اور اپنے بیٹے اور غلام کے ہمراہ امام حسین (علیہ السلام) سے جا ملے؛ اور امام سے عرض کیا: “میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ آپ کی نصیحتوں کو قبول نہیں کریں گے اور آپ کو اس انجام سے دوچار کریں گے؛ خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ بات یہاں تک پہنچے گی تو ہرگز آپ کا راستہ نہ روکتا’۔ (سید ہاشم رسولی، زندگی نامہ امام حسین (علیہ السلام)، 192۔
اس حقیقت کے اثبات کے لئے متعدد دوسرے دلائل بھی ہیں کہ عمر بن سعد کے لشکر کے عقائد ان لوگوں کے عقائد تھے جو اس زمانے میں عثمانی کہلاتے اور بعد میں انہیں محدثین یا اہل حدیث کا نام دیا گیا یہ وہی لوگ تھے جو بعد میں، بنی امیہ کے دور میں ہی، جعلی حدیثوں کے کاروبار! میں مصروف رہے۔ اور یہ ثابت کرنے کے لئے بےشمار دلائل و شواہد موجود ہیں جنہیں اس مختصر مضمون میں نقل کرنا ممکن نہیں؛ تو سوال یہ ہے کہ کوفیوں (یعنی کوفہ کے اعتقادی شیعوں) نے مسلم اور ہانی کی حمایت میں کوتاہی کیوں کی؟
شیعہ امام اور دوسروں کے درمیان بہت عظیم فرق کے قائل ہیں، اور اس سوال کا جواب بھی اسی فرق میں تلاش کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر سلیمان ابن صرد خزاعی جیسے افراد امام معصوم کی عدم موجودگی میں قیام بالسیف (مسلحانہ قیام) کو مکروہ سمجھتے تھے؛ یا جب مسلم اور ہانی کی شہادت کی خبر امام حسین (علیہ السلام) کو دی گئی تو امام کے ایک ساتھی نے عرض کیا کہ اگر آپ خود کوفہ تشریف لے جائیں تو کوفیوں کا رویہ بالکل مختلف ہوگا۔
اب ان تفصیلات کی روشنی میں کوفیوں کے طرز عمل کو ایک اور زاویئے سے دیکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ واقعۂ عاشورا کے بعد بنی امیہ اور ان کے بعد بنی عباس کی تشہیری مشینری نے اہل تشیّع کو دبانے اور خوار کرنے کے لئے شیعوں کو امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلوں کے طور پر متعارف کرایا، لیکن مذکورہ بالا چند نکات کی روشنی میں کم از کم اس حقیقت کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اعتقادی شیعہ نہ صرف امام حسین (علیہ السلام) کے مقابلے میں نہیں آئے بلکہ انہیں حتیٰ کہ امام کی حمایت کا موقع بھی نہیں ملا۔ اور پھر بیان ہؤا کہ لشکر یزید کا تعلق عثمانی فرقے سے تھا اور “يَا لَثَارَاتِ عُثْمَانَ، کہاں ہیں عثمان کے خون کا بدلہ لینے والے”، کا نعرہ لگا کر اپنے بقول خلیفہ عثمان بن عفان کے قتل کا بدلہ لینے کے درپے تھے، اور اسی بہانے اہل بیت (علیہم السلام) سے دشمنی رکھتے تھے!
یہ بھی ثابت ہؤا کہ جو لوگ دعویٰ کرتے تھے یا ان ہی کے روحانی اور فکری باقیات جو آج بھی اسی مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں؛ یہ دعویٰ کرکے اہل تشیّع کو بدنام نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ دعویٰ صرف ان کی کم علمی اور جاہلانہ تعصب کا ثبوت ہو سکتا ہے۔
المختصر، تاریخی واقعات کا جائزہ لینے والوں اور مطالعے کے شوقین حقیقت پسندوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ درست تجزیہ کریں تاکہ درست فیصلے پر پہنچ سکیں۔
بقلم: آریَن اَفخَمی، نامہ نگار اسنا (Iranian Students News Agency [ISNA])