واقعہ کربلا کیوں پیش آیا؟

در اصل پیغمبرِ اکرم ؐ کو بخوبی علم تھا کہ ان کے اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ امت نہایت ہی ناروا سلوک روا رکھے گی۔ اسی لئے آپ ؐ نے اپنی زندگی میں بار بار اہلبیت کی عظمت و کرامت اپنے اصحاب کے سامنے بیان فرمائی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: واقعہ کربلا تاریخ ِ انسانیت کا ایک ایسا غم انگیز سانحہ ہے کہ جس نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔اثر انگیزی کے اعتبار سے کوئی بھی تاریخی واقعہ اس کامقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔کربلا اثر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ فکر انگیز بھی ہے ۔ بالفاظِ دیگر جہاں ایک طرف کربلا ہر صاحبِ دل انسان کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتی ہے۔ وہاں دوسری جانب ہر صاحبِ عقل و شعور کو اس بات پر غور وفکر کرنے پر بھی آمادہ کرتی ہے کہ آخر کیوں یہ واقعہ پیش آیا؟ کیوں پیغمبر اسلام کی وفات کے چند سال بعد ہی آپ کے سب سے زیادہ قریبی اور چہیتے امام حسین ؑ کو مع عیال و احباب بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا؟ ستم بالائے ستم یہ کہ انہیں شہید کرنے والا گروہ امتِ محمدی سے ہی تعلق رکھتا تھا۔
در اصل پیغمبرِ اکرم ؐ کو بخوبی علم تھا کہ ان کے اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ امت نہایت ہی ناروا سلوک روا رکھے گی۔ اسی لئے آپ ؐ نے اپنی زندگی میں بار بار اہلبیت کی عظمت و کرامت اپنے اصحاب کے سامنے بیان فرمائی۔ انہوں نے ان کی عظمت و رفعت کو بیان کرتے ہوئے جتنے بھی ذرایع اس دور میں موجود تھے استعمال میں لائے اور جو بھی طریقہ رائج تھا اس کو اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے اس حوالے سے نہ صرف زبانی فرامین امت کی جولی میں ڈال دئیے بلکہ عملی اعتبار سے بھی امت کوبارہا باور کرایاکہ اہلبیت علیھم السلام کے حقوق کیا ہیں؟اور ان کے ساتھ کس ادب و احترام سے پیش آنا چاہیے ۔مثال کے طور پر ایک جانب انہوں نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے متعلق فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے تو دوسری جانب جب بھی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اپنے بابا کے حضور میں تشریف آور ہوتیں تو ٓآنحضور ؐ تعظیماً کھڑے ہو کر اپنی بیٹی کا استقبال کرتے اور انہیں اپنی جگہ بٹھاتے۔ اسی طرح امام حسین ؑ کے متعلق جہاں آپ ؐ نے یہ فرمایا کہ حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں وہاں آپ ؐ نے امام حسین ؑ کی خاطر اپنا سجدہ طویل کر کے یہ عملی پیغام امت تک پہنچایا کہ حسین ؑ کا مقام و مرتبہ کس قدر عظیم ہے۔ لیکن اس کے باوجود رسالت مآب کو یہ معلوم تھا کہ آپ کے اہلبیت کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک روا رکھا جائے گا۔ اسی لئے آپ ؐ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امت کو دو چیزوں کے بارے میں بار بار یہ تاکید و تلقین کی کہ خبردار ان کے بارے میں غفلت سے کام نہ لینا ۔ وہ گراں بہاچیزیں قرآن اور اہلبیت ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امت نے پیغمبرِ اکرم کی وصیت کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا اور آپ ؐ کی رحلت کے فوراً بعد کچھ ایسے گل کھلائے کہ جس کا غمیازہ آج تک وہ خود ہی بھگت رہی ہے۔
یعنی اگر ہم مختصر طور پر اس سوال کا جواب دینا چاہیں کہ سانحۂ کربلا کیوں پیش آیا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ امت نے اپنے رسولؐ کی اس آخری وصیت پر کان نہیں دھرا۔اور اگر تارریخ کے اوراق میں سے اس سوال کا جواب تلاش کریں تو بعدِ وفاتِ رسول تسلسل کے ساتھ بہت سارے غیرمتوقع واقعات دیکھنے کو ملے گیں۔
تاریخ ِ اسلا م کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ رحلت پیغمبر کے بعد ہوس ِ اقتدار نے بعض با اثر افراد کو اپنی گرفت میں لے لیا جس کی وجہ سے انہوں نے رسولِ اسلام کی وصیت کو پس پشت ڈال دیا۔ اور امت میں فتنے کی باعث بن گئے ۔ امام علی ؑ کے خلاف ایک بڑا محاذ قائم کیا گیا ۔ جنہوں نے جنگی صورت حال کو جنم دیا اور کئی ایک خونریز جنگیں مسلمانوں کے دو گروہ کے درمیان ہوئیں ۔ایک جانب امام علی ؑ تھے اور دوسری جانب مختلف سربر آوردہ شخصیات۔ جن میں امیر ِ شام سر فہرست ہیں۔ یہ بات تاریخ ِ اسلام کے کسی بھی حقیقت پسند طالب ِ علم سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امیر ِ شام نے اقتدار و حکومت پر قابض ہونے کے لئے کوئی بھی کسر چھوڑ نہیں رکھی۔ اس کے ترکش میں جتنے بھی تیر تھے وہ استعمال میں لائے وہ نہ صرف خود خلافت پر براجمان رہنا چاہتا تھا بلکہ اسے اپنی خاندانی وراثت کے طور اپنے ہی خاندان میں دیکھنے کا بھی متمنی تھا۔ اس نے اپنی ذہنی اور عسکری طاقت کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا اور جب اسے یہ احساس ہوا کہ وہ قریب المرگ ہے تو اس نے اپے بد کردار بیٹے یعنی یزید کو خلافت کے تخت پر بٹھانے کے لئے بھر پور جتن کئے ۔اور اس سلسلے میں اپنے تمام تر ہتھکنڈے آزمائے۔ لوگوں نے اس خطرناک منصوبے کو محسوس کیا تھا اور اس کے برے اثرات کو بھی وہ بخوبی جان گئے تھے۔ مگر امیر شام نے دولت و طاقت کے بل پر جمہور کی رائے کے برعکس اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کیا۔بعض افراد نے امیر معاویہ کو اس اقدام کے نتائج سے آگاہ بھی کیا اور دبے الفاظ میں ہی سہی اس اقدام کو روکنے کے لئے احتجاج بھی کیا ۔ ان افراد میںاحنف بن قیس بھی شامل ہے احنف بن قیس کے بارے میں ابن الاثیر نے اپنی تاریخ میں واضع طور لکھا ہے کہ معاویہ کا یہ اقدام اس قدر غیر اخلاقی ،غیر شرعی اور اسلامی تصورِ خلافت کے برخلاف تھا کہ احنف بن قیس نے بھی معاویہ کو خبردار کیا کہ وہ یزید کی ولی عہدی سے باز رہے امیر شام کی اس رائے سے شدید اختلاف ظاہر کرتے ہوئے اس نے معاویہ سے کہا ’’کہ آپ کے سامنے سچی بات کہتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں لیکن خداخوفی کا تقاضا ہے کہ بات سچی کی جائے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یزید کی راتیں کہاں بسر ہوتی ہیں اور دن کیسے گزرتے ہیں۔ آپ کے سامنے اس کا ظاہر و باطن سب عیاں ہے۔ پھر آپ اسے کس طرح اپنا جانشین بنا رہے ہیں؟۔ کبار صحابہ کی مخالفت کے باوجود معاویہ نے اپنے نااہل بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ البتہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انھوں نے یزید کو کئی مرتبہ نصیحت کی کہ اگر کبھی حسین بن علی سے معاملہ پیش آجائے تو نرمی اور درگزر کا رویہ اپنانا۔ ‘‘
امیر معاویہ کی موت کے بعد یزید نے اپنی تمام تر خباثتوں کو شرعی رنگ دینے کے لئے ایک مہم چھیڑ دی۔ اسے معلوم تھا کہ جب تک فرزند ِ رسول امام حسین ؑ کی ذاتِ اقدس مخالف کیمپ میں موجود ہے وہ چاہے پوری دنیا کو اپنے ساتھ کیوں نہ کر لے اس کا اقتدار دانوال ڈول ہی رہے گا اور اس اقتدار کی آڑ میں جن شیطانی منصوبوں کی تکمیل چاہتا ہے وہ کبھی بھی پورے نہیں ہو سکتے ہیں۔اس لئے اس کے سامنے دو ہی راستے تھے یا وہ امام حسین ؑ کو بیعت پر مجبور کرتا۔ یا انہیں شہید کر دیتا چنانچہ یزید نے حسین ؑ کو بیعت کروانے کے لئے اپنے تمام زور آزمائے۔ مگر امام حسینؑ صبرو اسقامت کے پہاڑ ثابت ہوئے امام حسین ؑ نے واضع الفاظ میں بیعت ِ یزید کو پایہ حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔اور پھر پورے عالم نے دیکھا کہ امام حسینؑ نے کس شان سے حق کا علم بلند کیا۔ کربلا کی تپتی ریت پر اپنے گرم لہو بہا کر اسلام کو بچایا ۔اور حق و باطل کی کتاب کا ایک زریں باب رقم کیا۔ یزید باطل کی علامت بن گیا حسین ؑ سراپا حق بن کر ابھرا۔ یزید اور اس کے آباو اجداد کا مشن زمین بوس ہو گیا۔علامہ اقبال نے اسی تناظر میں صد فی صد درست فرمایا ہے
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید