وحدت اسلامی کانفرنس (۲)

وحدت کانفرنس میں رہبر انقلاب کی تقریر اور کچھ قابل غور نکات

رہبر انقلاب اسلامی نے وحدت کانفرنس میں آئے ہوئے دنیا بھر کے علماء اور دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ ایک اہم سوال اٹھایا کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ آج ہمارا اہم مسئلہ کیا ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں مسلمانوں اور مومنین کا کیا فریضہ ہے؟ کیا ہماری کوئی ذمہ داری بھی بنتی ہے یا نہیں ؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: وحدت کانفرنس کے اختتام پر رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ اہم نکات کی طرف ہماری توجہ کو مبذول کرانے کی کوشش کی ہے ہم سب پر لازم ہے ان نکات پر توجہ کریں تاکہ عالم اسلام جن مسائل سے جوجھ رہا ہے انکا کچھ حل نکل سکے ۔
آج کے دور میں کیا ہے ہماری ذمہ داری
رہبر انقلاب اسلامی نے وحدت کانفرنس میں آئے ہوئے دنیا بھر کے علماء اور دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ ایک اہم سوال اٹھایا کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ آج ہمارا اہم مسئلہ کیا ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں مسلمانوں اور مومنین کا کیا فریضہ ہے؟ کیا ہماری کوئی ذمہ داری بھی بنتی ہے یا نہیں ؟
پھر آپ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے دو اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔{۱} اسلام کی جامعیت اور اس جامعیت سے لوگوں کو آشنا کرانا اس جامعیت کے حق کو ادا کرنا {۲} اتحاد بین المسلمین۔
آپ نے ان دونوں ہی باتوں کے سلسلہ سے فرمایا کہ یہ دونوں باتیں، ہمارے آج کے اہم مسائل میں شامل ہیں۔
آپ نے اس بات کی طرف بھی عالم اسلام کی توجہ کو مبذول کرانے کی کوشش کی کہ آج سیاسی اور مادی طاقتیں اس بات پر بضد ہیں کہ اسلام کو ایک ذاتی عمل اور قلبی عقیدے تک محدود کر دیں۔ یعنی اسلام کا سماج اور معاشرے سے کوئی تعلق نہ ہو بس یہ کہا جائے انکا اسلام انکی ذاتی زندگی سے جڑا ہے انکی طرز فکر انکا عقیدہ ان کے دل سے وابستہ ہے سماج و معاشرہ اپنے راستے چل رہا ہے ہم سے مطلب نہیں ہے کہ دنیا کدھر جا رہی ہے ہمیں جو صحیح لگ رہا ہے ہم وہ کر رہے ہیں دوسروں کو جو صحیح لگ رہا ہے وہ اسے انجام دے رہے ہیں
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے عقیدے تک دین کو محدود کرنے پر دنیا کے زور کے سلسلہ سے اس اہم گوشے کی طرف اشارہ کیا کہ اسکی وجہ دنیا کی بڑی سیاسی طاقتوں کے اسلام مخالف منصوبے ہیں جنہیں وہ اسی طرح عملی کرنا چاہتے ہیں کہ معاشرے سے دین کو نکال کر انفرادی بنا دیں جبکہ اسلامی تعلیمات پورے دو ٹوک انداز میں اس طرز فکر کو مسترد کرتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلام کی جامعیت و آفاقیت کے حق کی ادائگي کی تشریح کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ : “ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام کے بارے میں خود اس کی رائے کو بیان کریں یہ دیکھیں کہ وہ زندگی کے کون سےشعبوں کے بارے میں زیادہ زور دے رہا ہے ، اب جب ہم اسلام کے مختلف شعبہ ہائے حیات کو دیکھتے ہیں تو جو چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ کہ اسلام کی فعالیت کا میدان، اسلامی تعلیمات کا تعلق کسی ایک خاص شعبے میں نہیں بلکہ انسانی زندگي کا ہر پہلو اسلام کے پیش نظر ہے ، انسان کے دل کی گہرائيوں سے لے کر سماجی مسائل تک، سیاسی مسائل تک، عالمی مسائل تک اور وہ تمام مسائل جو انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں، سب کے سب اسلام کی سرگرمیوں کے دائرے میں ہیں۔
اسلام کے پاس انسان کی سماجی زندگي کے تمام اہم پہلوؤں کے سلسلے میں پروگرام موجودپایا جاتا ہے رہبر انقلاب اسلامی نے خاص طور اسلامی جامعیت کو بیان کرنے کے لئے قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اسلام کا منصوبہ کیا ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن کریم پر غور کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ جو قرآن اور احکام قرآن سے آشنا ہے وہ سمجھتا ہے کہ قرآن جس اسلام کا تعارف کراتا ہے، وہ یہی اسلام ہے جو جامع ہے جو آفاقیت کا حامل ہے اور ہرشعبہ حیات کے لئے اس کے پاس ٹھوس منصوبہ موجود ہے ۔