وہ ایک ماں تھی

کچھ ایسا ہی تو تھا کہ وہ ان بچوں ہی کی نہیں ہم سب کی ماں تھی ہماری خلقت اسی کے وجود کی رہین منت تھی بلکہ پوری کائنات اسی کے طفیل میں خلق کی گئی وہ محورِ کائنات تھی وہ نقطۂ پرکار حیات عالم تھی۔ وہ فاطمہ(سلام علیہا)  تھی۔ حقیقی معنی میں وہ ایک ماں تھی۔

فاران: گھر میں سناٹا چھایا ہو اتھا بچے اور شوہر باہر گئے ہوئے تھے وہ تنہا تھی اور اپنے حجرے میں بند اپنے رب سے ملاقات کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر رہی تھی۔ اور اپنے مالک کی تسبیح و تہلیل میں مصروف تھی اس کے پردہ ذہن پر ماضی کے واقعات یکے بعد دیگر آتے جا رہے تھے۔
اس کے بابا جب سے اس دنیا سے گئے تھے دنیا اس سے دشمنی پر اتر آئی تھی ابھی بابا کی وفات کو چند ہی دن گزرے تھے کہ اس نے دیکھا اس کا شوہر اس کا ہمدم اس کا مونس نہ جانے کن سوچوں میں گم سر جھکائے گھر کے کونے میں بیٹھا ہے وہ قریب گئی۔
علی! نظریں اٹھاؤ میری طرف دیکھو۔
علی ! دیکھو یہ کون ہے
علی یہ وہی ہے جس کو پا کر تم نے سجدۂ شکر ادا کیا تھا ۔
علی یہ وہی تو ہے جس سے تم سب کچھ بیان کر دیا کرتے تھے .
علی ! یہ وہی ہے جس کو دیکھ کر تم اپنا درد اپنا الم بھول جایا کرتے تھے مگر آج تمھیں کیا ہوگیا ہے ۔
تم اپنے غم کو مجھ سے نہیں بتاؤ گے تو پھرکس سے کہوگے ؟
علی ع نے اپنی آنکھوں میں اتر آنے والے آنسوؤں کو اپنے اندر پیتے ہوئے نظریں اٹھائیں… لرزتی پلکوں تھرتھراتے وجود کے ساتھ اپنی شریکۂ حیات کی طرف دیکھا
آنکھوں میں امید کے نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے دیئے روشن تھے
علی  ان کو اسی طرح روشن دیکھنا چاہتے تھے سو جلدی سے اپنی نظریں جھکا لیں علی نہیں چاہتے تھے کہ ان کی جان سے زیادہ عزیز رفیقہ حیات اس سے زیادہ دکھ جھیلے بس اتنا کہا پارۂ قلب رسول!
اور آنسووں کی ایک لڑی فاتح خیبر کے رخساروں پر ڈھلکتی چلی گئی شاید علی کے یہ قطرہ ھائے اشک زبان بے زبانی سے فریاد کر رہے ہوں ۔۔۔ ائے دختر رسول علی کو معاف کرنا کہ تیرے رخسار پر طمانچہ لگا میں کچھ نہ کر سکا ،تیرے بازوؤں پر تازیانے مارے گئے مگر مجھ سے کچھ نہ ہو سکا۔ تیری پسلیاں ٹوٹ گئیں مگر میں کچھ نہ کرسکا ، میں کیا کروں جب تیرے اوپر یہ مظالم ہو رہے تھے تو میرے گلے میں رسی کا پھندا تھا میرے ہاتھ بندھے تھے۔ ۔۔۔ اپنے آنسؤوں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے علی بلک بلک کر رو رہے ہیں ۔ بس اتنا ہی کہا اے مادرِ حسنین ! مجھے معاف کر دو اور فرط غم سے علی نڈھال ہو گئے… اور وہ اس فولاد پیکر کو دیکھتی رہی جو اندر ہی اندر کرچی کرچی ہو چکا تھا۔ یہ تو ماضی کی ایک تصویر تھی جو پردہ ذہن پر آکر اسے درد کی کربناک اذیتوں میں تڑپتا چھوڑ کر چلی گئی تھی پھر نہ جانے کتنی ہی تصویریں ان کے ذہن پرآتی رہیں اور وہ اندرونی درد سے تڑپتی رہی۔ اور پھر دھیرے دھیرے ماضی کی یادوں کے دریچے بند ہونے لگے اب ان کو ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی روح نکلنے ہی والی ہو انہوں نے اشارے سے خادمہ کو قریب بلایا اور کہا اب میں چند لمحوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتی جب میرے بچے آئیں تو پہلے ان کو کھانا کھلا دینا پانی پلا دینا اور اس کے بعد میرے بارے میں کچھ بتانا اور علی … نہ جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھیں کہ ان کی آواز نے ہونٹوں تک آتے آتے دم توڑ دیا اور ان کے تارہائے انفاس ٹوٹ گئے۔۔۔ اب  وہ اس قید خانے سے رہا ہو کر اپنے بابا کے پاس جا چکی تھیں۔
۔۔۔۔۔
ننھے ننھے بچے اپنے چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ گھر میں آتے ہی دونوں نے ہم صدا ہو کر آواز دی اماں … اماں ہم آگئے… اماں ! ہمارے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتیں بچے ابھی ماں کو تلاش ہی کررہے تھے کہ گھر کی خادمہ قریب آئی دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھا دونوں کو پیار کیا اور اپنی آغوش میں لیکر صحن خانہ میں آئی اور کہا بچو! پہلے کھانا کھا لو پھر اماں سے بعد میں مل لینا بچوں نے یک  صدا ہو کر کہا اسماء! کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ ہم نے اپنی ماں کے بغیر کھانا کھایا ہو اسماء جب تک ہم اماں کی آغوش میں نہ جائیں گے کھانا نہیں کھا سکتے اسماء جو ابتک ضبط کا باندھ باندھے بچوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ مل رہی تھی اب اپنے آپ کو نہ روک سکی اور رو پڑی ہچکیوں اور ٹپکتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسماء نے جو کچھ کہا اس کو سن کر بچوں نے بس یہی کہا اماں!!! ننھے ننھے بچوں کی آواز ہوا کے دوش پر بلند ہو کر نہ جانے کتنی دور تک گئی… مگر ہاں پھر ایسا لگا جیسے ہر اک چیز گریہ کر رہی ہو ۔ درودیوار رو رہے ہوں آسمان آنسو بہا رہا ہو زمین ہچکیاں لے رہی ہو… ہر طرف سے بس ایک ہی آواز آرہی تھی ماں! ماں! ماں! ایسا لگ رہا تھا جیسے ان بچوں کے ساتھ کائنات کا ذرہ ذرہ رو رہا ہو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان بچوں کی نہیں کائنات کی ماں اس دنیا سے چلی گئی ہو۔ اور ایسا ہی تھا… کچھ ایسا ہی تو تھا کہ وہ ان بچوں ہی کی نہیں ہم سب کی ماں تھی ہماری خلقت اسی کے وجود کی رہین منت تھی بلکہ پوری کائنات اسی کے طفیل میں خلق کی گئی وہ محورِ کائنات تھی وہ نقطۂ پرکار حیات عالم تھی۔ وہ فاطمہ(سلام علیہا)  تھی۔ حقیقی معنی میں وہ ایک ماں تھی۔