شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد خطے کے بدلتے حالات اور خون شہادت کی تاثیر (پانچواں حصہ)

ٹرمپ انتظامیہ اور صہیونی حکومت دونوں کے ہاتھ لگی ناکامی

ان دونوں اہداف کے پیش نظر یہ طے پایا کہ پہلے سردار شہید سلیمانی کو راستے سے ہٹایا جائے اسکے بعد دوسرے رہنماوں کو شہید کیا جائے تاکہ مزاحمتی محاذ کی کمر توڑی جا سکے چنانچہ شہید قاسم سلیمانی پر حملہ ہوا تاکہ لوگوں کے دل میں ایک رعب و وحشت بیٹھ جائے اور لوگ سامراج کے خلاف کھڑے ہونے کا خیال دل سے نکال دیں ، اوراسی کے تحت یہ بڑا خطرناک قدم اٹھایا گیا ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
یہ تو واضح سی بات ہے کہ نہ ٹرمپ کو وہ فائدہ اس شہادت سے ہوا جسے سوچ کر اتنا بڑا فیصلہ لیا گیا تھا اور نہ ہی صہیونی حکومت کو لیکن وہ جو بظاہر مقصد تھا وہ کیا تھا اس بات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور صہیونی لابی کی سطحی و اوپری سوچ کیا تھی چنانچہ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایسا کام کیوںکر کر دیا جسکی وجہ سے خود امریکہ میں صدارت کی کرسی جانے کے بعد سے لیکر اب تک سب تھوک رہے ہیں اور جسکی اتنی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے کہ ٹرمپ کے بعد سے اب تک امریکہ سے عراق کی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہمارے ملک سے نکل جاو۔ اس وقت باقاعدہ عراق میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ہمیں اب ہمیں امریکہ کی ضرورت نہیں ہے اپنے مسائل ہم خود ہی حل کر لیں گے بلکہ عراق کے الیکشن کے بعد تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض مبصرین باقاعدہ اپنے تبصروں میں اس بات پر زور دیتے نظر آرہے ہیں کہ ہمارے لئے وہ جہنم بہتر ہے جس میں ہمیں خود مختاری حاصل ہو اور وہ جنت قبول نہیں جس میں امریکہ ہمارے اوپر مسلط ہو اور یہ وہ بات ہے جسکی گھن گرج امریکہ میں بھی سنی جا سکتی ہے چنانچہ”امریکہ کی بہشت سے عراق کا جہنم بہتر” عنوان کے تحت واشنگٹن اگزامنر (washingtonexamine) ” نامی امریکہ کی ایک تجزیاتی سائٹ نے عراق میں واشنگٹن کی جانب سے پائی جانے والی اتھل پتھل اور آشفتگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سے عراقیوں کے نزدیک صدام نے عراق میں جو جہنم بنایا تھا وہ امریکہ کی اس بہشت سے کہیں بہتر تھا جو امریکہ نے عراق میں تیار کی ہے ۔فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی اس سائٹ نے اپنی Carlo J.V. Caro کی جانب سےدائر کی گئی ایک رپورٹ میں عراق کے بگڑتے حالات کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس بات کو بیان کیا ہے کہ ۲۰۰۳ء میں عراق پر واشنگٹن کے حملے کے بعد امریکہ نے جو حالات عراق کے لئے رقم کئے خاص کر سپاہ پاسداران اسلامی کی قدس شاخ کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد کے ائیر پورٹ کے نزدیک شہید کر کے امریکہ نے جو فضیحت اپنے لئے بٹوری ہے وہ ایسی ہے کہ بہت سے عراقی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ صدام نے عراق میں جو حالات پیدا کئے تھے اور جو جہنم بنایا تھا وہ اس بہشت سے کہیں بہتر تھا جسکا وعدہ واشنگٹن نے اس ملک کو دیا تھا ۔اس رپورٹ کی ابتدا میں عراق کے موجودہ حالات اور وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات رقم کی گئی ہے کہ امریکہ کے ایک ڈرون حملے کے بعد جو کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس شاخ کے کمانڈر کی شہادت کا سبب بنا عراق کی پارلیمنٹ نے امریکہ کے عراق سے نکل جانے کے بارے میں ووٹنگ کرتے ہوئے اس بات کو منظوری دی کہ امریکہ عراق چھوڑ دے ۔ جس طرح واشنگٹن اگزامنر نے وضاحت کی ہے اسکے بموجب عراق و امریکہ کے درمیان یہ ناگہانی دشمنی کا اظہار ایک ناامید کرنے والی حقیقت کا عکاس ہے ۔
اس رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ عراق پر تقریبا دو دہائیوں سے قبضے کے بعد سے لیکر اب تک یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ امریکہ اب ایک ناپائیدار ملک میں تبدیل ہو گیا ہے اور اپنی فوجی طاقت کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور ہتھکنڈہ نہیں بچا ہے جسے استعمال کر سکے ، اور کسی ملک کو دبانے یا چپ بٹھانے کے لئے اس کے پاس اور راستہ نہیں ہے جبکہ عراق کے اندر مکمل نفوذ اور عراق کی کل طاقت ایران کے ہاتھ میں ہے۔
اس رپورٹ کے ایک حصے میں صدام کے دور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عثمانی سلطنت کے دوران ، اور عراق میں صدام کے دور حکومت میں ہزاروں کی تعداد میں عراق سے شیعوں کو نکال دیا گیا اور انہوں نے ایران کی طرف ہجرت کی جبکہ یہی لوگ صدام کا تختہ پلٹتے ہی اپنے ملک واپس پہنچ گئے۔
اس امریکی سائٹ نے اس کے بعد شہید سلیمانی کی لوگوں کے درمیان محبوبیت کو بیان کرتے ہوئے ایران اور عراق کے دوستانہ تعلقات کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ عراق کے بہت سے سیاسی حکام و عمائدین وہ ہیں جنہیں صدام کے دور حکومت میں عراق سے نکال دیا گیا تھا اور انہوں نے ایران میں پناہ لی تھی اور ایران نے انہیں قبول کیا تھا یہ وہ لوگ ہیں جنکے شہید سلیمانی سے ذاتی اور بہت گہرے دوستانہ تعلقات تھے ان سیاسی اہلکاروں اور حکام میں جنکے شہید سلیمانی سے دیرینہ تعلقات تھے قاسم الاعرجی ، کا نام لیا جا سکتاہے جو کہ بدر آرمی کے ایک رکن ہیں اور ۲۰۱۷ ء سے ۲۰۱۸ ء تک عراق کے وزیر داخلہ رہے ہیں ، اسکے علاوہ ہادی العامری ٹرانسپورٹ کے سابقہ وزیر اور پارلیمنٹ میں الوطنیہ متحدہ محاذ کے ایک رکن کی طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے جن کے قاسم سلیمانی کے ساتھ گہرے تعلقات تھے ۔
امریکی سائٹ نے آگے چل کراس بات کو بیان کیا ہے کہ عراق کی نظر میں امریکہ بادی النظر میں ایک حملہ آور ہے اس کے بعد ایک ایسا صنعت کار ہے جو کسی لائق نہیں ایسا تعمیر کار ہے جس کے اندر کوئی صلاحیت نہیں ہے ۔عراق میں واشنگٹن نے جو اسٹراٹیجی اختیار کی ہوئی ہے اسکا حاصل یہی ہے کہ امریکہ روز بروز عراق سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔
اس رپورٹ کے مطابق اس نفرت کے علاوہ جوعراقیوں کو امریکہ سے انکی سرزمین پر دھاوا بولنے کی بنیاد پر ہے ، ایک اور بڑی مشکل اور خطرناک بات جو عراقیوں کو امریکہ سے بد ظن کرتی ہے یہ ہے کہ صدام کے تختہ الٹ جانے کے بعد عراق میں موجود واشنگٹن کے حمایت یافتہ سیاست مداروں نے مغربی ایشیا کے ملک میں ایک سیاسی و مذہبی اختلاف کی ایسی فصل لگائی جس کے نتیجہ میں داعش وجود میں آیا ۔
اس امریکی سائٹ نے ان تمام باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آخر میں عراق میں امریکہ کی جانب سے پیدا ہونے والی آشفتہ حالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عراق میں زیادہ تر اور خاص طور پر علاقائی لوگ اس جملے کو دہراتے نظر آتے ہیں کہ صدام حسین کا جہنم ہمارے لئے امریکی بہشت سے اچھا تھا کیا یہ بات قابل تعجب نہیں ہے ؟ یوں تو یہ ساری باتیں وہ ہیں جو عراق پر امریکی تسلط سے ہی کہی جا رہی تھیں لیکن جو باتیں زیر لب تھیں جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اب لوگ علی الاعلان کرتے نظر آ رہے ہیں ، اور یہ وہ چیز ہے جو بالکل اس سیاست کے برعکس ہے جو ٹرمپ کے دور میں اختیار کی گئی تھی کیونکہ ٹرمپ نے امریکہ کی بین الاقوامی برادری کے درمیان اپنی مر گھلی شناخت کو ختم کر کے ایک جیتے جاگتے سپر پاور کے طور پر پیش کرنے کے لئے جو منصوبہ بندی کی تھی وہ اب امریکہ کے گلے کی ہڈی بنتی جا رہی ہے اگر ہم اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قاسم سلیمانی کی شہادت سے پہلے ان خبروں کو دیکھنا ہوگا ان تجزیوں پر نظر ڈالنا ہوگی جس میں باقاعدہ طور پر کہا جا رہا تھا کہ درونی انتشار کو ختم کرنے اور خود کو بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایسے فعال و متحرک افراد کو نشانہ بنا کر شہید کیا جائے جنکی خطے میں گھن گرج ہے تاکہ خود کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا سکے۔
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت سے ۲۵ دن قبل کی ایک رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت یوں تو امریکہ کے ہاتھوں ہوئی ہے ورنہ در اصل یہ کام تو اسرائیل کے تحفظ کی خاطر ہوا ہے چنانچہ عربی روزنامہ ”رائے الیوم” نے ۲۰۔ ۲۵ دن پہلے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ ” گزشتہ دنوں میں عبری زبان کے اخبارات کا جائزہ لینے اور اسرائیل کے سابق جرنیلوں کےمشرق وسطی کے سیاسی و عسکری حوادث کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کے سلسلہ سے پیش کئے جانے والے تجزیوں اور تبصروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل کے داخلی حالات سے نبٹنے کے لئے اب نیتن یاہو کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اسکی وجہ سے اسرائیل کو بحران سے نکالنے کے لئے بیرونی آپریشن کی ضرورت ہے” اس تجزیہ میں دو باتوں کو بنیاد بنایا گیا تھا:
اول : بنجامن نتین یاہو پر جو الزامات لگائے گئے اور جو خیانت کا الزام اسرائیلی وزیر اعظم پر لگا اسکو دیکھتے ہوئے علاقے میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھنے کا احتمال بڑھ گیا ہے اس لئے کہ نیتن یاہو ایک زخمی چیتے کی طرح اپنی بقا کی جنگ میں مشغول ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم کی پوری کوشش ہے کہ ادھر ادھر چھلانگیں لگا کر خود کو حکومت کی آڑ میں بچایا جاسکے اور مسند اقتدار کو پیروں سے کھسکنے نہ دیا جائے۔
دوم : مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی محاذ کے قائدین کو نشانہ بنا کر شہید کرنے{ ٹارگٹ کلنگ} کی سیاست کی بازگشت جو محض فلسطین سے مخصوص نہیں بلکہ لبنان ، عراق، یا تہران جہاں بھی موساد اپنے مہروں اور مزدوروں کے ذریعہ مزاحمتی محاذ سے منسلک رہبروں کو شہید کر سکے وہاں یہ کام کیا جائے جیسا کہ موساد نے بہاء ابوالعطاء کو اپنے گماشتوں کے ذریعہ شہید کیا ۔
ان دونوں اہداف کے پیش نظر یہ طے پایا کہ پہلے سردار شہید سلیمانی کو راستے سے ہٹایا جائے اسکے بعد دوسرے رہنماوں کو شہید کیا جائے تاکہ مزاحمتی محاذ کی کمر توڑی جا سکے چنانچہ شہید قاسم سلیمانی پر حملہ ہوا تاکہ لوگوں کے دل میں ایک رعب و وحشت بیٹھ جائے اور لوگ سامراج کے خلاف کھڑے ہونے کا خیال دل سے نکال دیں ، اوراسی کے تحت یہ بڑا خطرناک قدم اٹھایا گیا ۔