انتفاضہ کے حامی

پروفسور حاتم بازیان کا تعارف

پروفیسر بازیان نے اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بالکل "جدید قدامت پسندانہ افکار" کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ سرکاری حکام، اسرائیل نوازی، عیسائیوں کے حقوق اور تیل کی صنعت وہ چار عناصر ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی کی پشت پر ہیں۔

فاران؛ پروفیسر حاتم بازیان (1) مقامی فلسطینی باشندوں میں سے ہیں اور حال حاضر میں جامعہ کیلیفورنیا، برکلی (University of California, Berkeley یا U.C, Berkeley) میں مطالعاتِ مشرق قریب کی پروفیسر اور امریکی-ایشیائی مطالعات کے شعبے میں مصروف تدریس ہیں۔
وہ اپنی تدریسی زندگی میں برکلی یونیورسٹی، سان فرانسسکو ریاستی یونیورسٹی، برکلی کے شعبۂ الہیات کے فارغ التحصیل طلباء کی یونین میں ٰاسلامیات، اسلامی قانون، تصوف، عربی اور مشرق وسطیٰ کی سیاست جیسے مضامین پڑھاتے رہے ہیں۔ نیز وہ ہفتہ وار ریڈیو پروگرام “آج کا اسلام” کے پروڈکشن اسسٹنٹ اور میزبان بھی ہیں۔ یہ پروگرام ریڈیو کیلیفورنیا سے نشر ہوتا ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے مسائل کے لئے مختص ہے۔
مورخہ 10 اپریل 2004ء کو سان فرانسسکو میں عراق میں جنگ کے خلاف مظاہر ہؤا تو پروفیسر بازیان نے امریکہ میں ایک تحریک انتفاضہ شروع کرنے کی تجویز دی۔ مظاہرے میں شرکاء کے اٹھائے ہوئے پلے کارڈوں پر لکھا ہؤا تھا: “عراق اور ہر مقام پر مسلحانہ مزاحمت کی حمایت کرو”۔
ایک مسکراتے ہوئے طالب علم نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا جس پر تحریر تھا: “فلوجہ زندہ باد”۔ اور فلوجہ اس زمانے میں القاعدہ کے عراقی سرغنے ابو مصعب زرقاوی اور اس کے ماتحت دہشت گردوں کا قلعہ سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے طالب علم نے ایک جارج ڈبلیو بش کا پتلا ایک سلاخ کے اوپر اٹھا رکھا تھا۔
پروفیسر بازیان نے پرجوش مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “ہم یہاں بیٹھے ہیں اور وقت کے گذرنے کا تماشا دیکھ رہے ہیں جبکہ لوگوں کو بمباریوں کا سامنا ہے اور اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس ملک میں اور ہمارے ہاں ایک انتفاضہ تحریک کا آغاز کیا جائے جو بنیادی طور پر اس ملک کی سیاسی حرکیات کو تبدیل کر دے”۔
انھوں نے اپنی اس دعوت کو ایک دوسرے وعدہ پر ختم کر دیا اور کہا: “وہ کہیں گے کہ بعض فلسطینی بہت انتہاپسند ہیں، اچھا تو جان لو کہ تم نے ابھی انتہا پسندی کو دیکھا نہیں ہے”۔
اسٹیون ایمرسن (Steven Emerson) اپنی کتاب “امریکی جہاد: دہشت گرد جو ہمارے درمیان رہ رہے ہیں” (American Jihad: The Terrorists Living Among Us) میں پروفیسر بازیان کے ظاہری خد و خال بیان کرتا ہے جنہوں نے مئی 1999ء میں سانٹا کلارا کیلی فورنیا میں “امریکی مسلمانوں کے اتحاد” کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
پروفیسر بازیان فلسطین کی اسلامی حکومت کے لئے تبلیغ کرتے ہوئے کہتے ہیں: “حدیث میں بیان ہؤا ہے کہ جب تک تم یہودیوں کے ساتھ جنگ نہیں کرو گے، روز قضا کبھی بھی نہیں آئے گا ۔۔۔ اور پتھر کہیں گے اے مسلمان! ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہؤا ہے، آؤ اس کو ہلاک کردو”۔
سنہ 2002 میں جب کیلیفورنیا یونیورسٹی میں “فلسطین میں عدل و انصاف کے لئے”، کے عنوان سے طلبہ کے مظاہرے کے دوران 79 افراد حراست میں لیے گئے تو پروفیسر بازیان نے گرفتاریوں کے خلاف منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “اگر تم جاننا چاہو کہ یونیورسٹی کے اوپر دباؤ کہاں سے آتا ہے اور پس پردہ لوگ کون ہیں، تو یونیورسٹی کی عمارتوں پر رکھے گئے یہودیوں کے ناموں کو دیکھو”۔
اس تحریر کا محقق جوناتھن کالٹ ہیرس مزید لکھتا ہے: “برکلی یونیورسٹی کے مرکزی دفتر کی طرف سے آج تک پروفیسر بازیان کے کچے اور نسل پرستانہ الفاظ – جو ببانگ دہل کہے جاتے ہیں – پر کوئی رد عمل نہیں آیا ہے حالانکہ اس یونیورسٹی کے حکام دوسروں کو ہراساں کرنے اور نسل پرستانہ اقدامات کی نسبت شدید حساسیت کے حوالے سے مشہور ہیں۔
مئی 2002ء میں پروفیسر بازیان سان فرانسسکو کے جارج واشنگٹن ہائی اسکول میں منعقدہ دو روزہ کانفرنس کے واحد مقرر تھے۔ یہ کانفرنس اس قدر تناؤ اور تشدد سے بھرپور تھی کہ اسکول کے منتظمین کو لوگوں سے معذرت کرنا پڑی”۔
اس کانفرنس میں – مشرق وسطی کے ثقافتی تقریب کے لئے تبلیغ و تشہیر کے نام پر، جبکہ طلبہ فلسطینی پرچم لے کر مارچ کررہے تھے – ایک طالب علم ریپ گانا گا رہا تھا اور صہیونیوں کا جرمن نازیوں سے کررہا تھا۔
جو طلبہ اور اساتذہ اس روداد کے عینی شاہد تھے انھوں نے پروفیسر بازیان کے خطاب کو “مکمل طور پر فلسطین حمایت” پر مبنی قرار دیا۔
فروری 2004ء میں بازیان نے مونٹریال کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی (McGill University) میں ایک خیراتی ادارے کے سیمینار میں ایک مسلم طالب علم کو تقریر کا موقع دیا اور اس تقریر کا عنوان تھا: “جدید امریکی سلطنت اور مشرق وسطی میں اس کی مہم جوئیاں”۔
پروفیسر بازیان نے اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بالکل “جدید قدامت پسندانہ افکار” کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ سرکاری حکام، اسرائیل نوازی، عیسائیوں کے حقوق اور تیل کی صنعت وہ چار عناصر ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی کی پشت پر ہیں۔
انھوں نے کہا: “نیویارک کے رہائشی قدامت پسند چاہتے تھے کہ مشرق وسطی کو ایک پرامن محلے میں تبدیل کریں لیکن اس کا امن عربوں کے لئے نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ مشرق وسطی کو اسرائیل کے لئے ایک پرامن محلے میں تبدیل کر دیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: جوناتھن کالٹ ہیرس (Jonathan Calt Harris)
ترجمہ: ابو اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ پروفیسر حاتم بازیان (Hatem Bazian) کا نام بھی مبینہ 101 خطرناک امریکی پروفیسروں کی فہرست میں شامل ہے۔