پروفیسر برنارڈین ڈوہرن Professor Bernardine Dohrn کا تعارف

پروفیسر ڈوہرن نے اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: "ہم نے جنگ کا بھی مقابلہ کیا اور نسل پرستی کا بھی؛ نیز ہم نے یہ بھی سیکھا کہ صرف امریکہ میں کچھ افراد کی زندگی ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ تمام انسانوں کی زندگی ایک سطح پر قابل قدر اور اہم ہے"۔

فاران؛ کچھ عرصہ قبل ایک کتاب بعنوان “101 خطرناک پروفیسرز” امریکہ میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع چند سال پہلے امریکہ میں یہودی مصنف ڈیوڈ ہاروویٹز کی کتاب بعنوان “101 خطرناک پروفیسر”  شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع 101 امریکی پروفیسروں کا تعارف ہے جن کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنی کلاسوں اور کتابوں میں میں ہالوکاسٹ اور یہودیت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی دوسری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو خبردار کیا گیا کہ “چونکہ ان لوگوں نے سرخ لکیروں کو عبور کرلیا ہے، چنانچہ ان کی کاوشوں سے استفادہ نہ کیا جائے؛ [گویا وہ کہنا چاہتے تھے کہ] جب آزادی لامحدود ہوجائے، تو یہ بجائے خود خطروں کا باعث بنتی ہے اور آخرکار یہ آزادی مخدوش ہوجائے گی۔ ذیل کا متن یہودیوں کے ہاں کے 101 خطرناک پروفیسروں میں سے ایک، یعنی “پروفیسر برنارڈین ڈوہرن” ، کے تعارف پر مشتمل ہے۔

پروفیسر برنارڈین ڈوہرن Professor Bernardine Dohrn
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی
– نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر
– نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر مرکز برائے اطفال بچوں اور خاندانی انصاف کا قانونی مرکز
– 1970 کی دہائی میں اندرونی دہشت گرد گروپ بنام “زیر زمین موسمیاتی گروپ” (Weather Underground) کی راہنما
پروفیسر برنارڈین ڈوہرن
پروفیسر برنارڈین ڈوہرن 1960 کی دہائی میں موسمیاتی پارٹی (Weather Underground) اور “جمہوری معاشرے میں طلبہ” نامی تنظیم کی راہنما تھی، جس کی سرگرمیاں 1969 میں زیر زمین جاری رہیں اور یہ جماعت ریاستہائے متحدہ میں پہلا دہشت گرد فرقے میں تبدیل ہوئی۔
سنہ 1969ع‍ میں ریاست مشی گن کے شہر فلنٹ (Flint) میں جنگی کونسل کے کے نام سے منعقدہ ریلی میں ڈوہرن نے اپنے پیروکاروں سے یادگار ترین اور نفرت انگیز ترین خطاب کیا۔ انھوں نے حال ہی میں مانسن فیملی (Manson Family) کے ہاتھوں کیے گئے خونی قتل کا حوالہ دیا جس میں ایک حاملہ اداکارہ شیرون ٹیٹ (Sharon Tate) اور فولگرز کافی (Folgers Coffee) کی وارث خاتون نیز بینیڈکٹ کینین عمارت کے کئی دوسرے باشندوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ پروفیسر ڈوہرن نے اپنی تین انگلیوں کو کانٹے کی صورت میں اٹھا کر کہا: “یہ انوکھا اقدام ہے، انھوں نے پہلے ان خنزیروں کو قتل کیا اور پھر اسی کمرے میں ان کے ساتھ رات کا کھانا کھایا”۔
انھوں نے حتیٰ کہ اپنے ایک شکار کے پیٹ میں کانٹا بھی گھونپ دیا! کیا جنگلی لوگ ہیں یہ! اس واقعے میں قاتلوں نے شیرون ٹیٹ کو کانٹا گھونپ کر قتل کیا تھا۔ جنگی کونسل ریلی امریکہ کے خلاف جنگ (War against “AmeriKKKa,”) کے عنوان سے باضابطہ اعلامیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی؛ اور ان کے ہاں مریکہ کی مبینہ طور پر ناقابل تلافی سفید نسل پرستی کو ظاہر کرنے کے لیے ہمیشہ تین K (KKK) کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔
پروفیسر ڈوہرن اپنے انتہاپسندانہ ماضی کے سلسلے میں کسی قسم کی ندامت کا اظہار نہیں کرتیں؛ اگرچہ وہ بینڈکٹ مینشن کے سلسلے میں اپنے الفاظ کا انکار کرتی ہیں (اور طعنہ آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں کہ “یہ ایک مذاق تھا”)۔ نیز اس کے سیاسی خیالات بھی ماضی کی طرح انتہاپسندانہ ہیں۔ حال حاضر میں وہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر ہیں۔
وہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے قانونی مرکز برائے اطفال بچوں اور خاندانی انصاف کی ڈائریکٹر ہیں اور امریکی بار ایسوسی ایشن (جو وکلاء اور قانون کے طلبہ کی رضاکارانہ انجمن ہے) نیز امریکہ کی شہری آزادیوں کی انجمن کی اہم کمیٹیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن ہیں۔
پروفیسر ڈوہرن موسمیات نامی جماعت میں اپنے ماضی کے بارے میں کہتی ہیں: “ہم دہشت گردی کو قابل قبول نہیں سمجھتے تھے۔ ہم خیال رکھتے تھے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ بےشک یہ بات بہت غلط ہے”۔
حالانکہ موسمیات (یا Weather Underground) میں ان کا ” دوہرا ایجنڈا دہشت گردی اور جنگ سے عبارت تھا (اور اسی بنا پر ڈوہرن کا ہیرو چارلس مینسن تھا؛اور اس تنظیم کا وجود ہی ایک رسمی “اعلان جنگ” کے ساتھ شروع کیا گیا تھا)۔
اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ سفید فام لوگ امریکی وہ “سفید جلد سے حاصل ہونے والے استحقاق” کو دور پھینکیں اور تیسری دنیا کے لوگوں کی جانب سے پرتشدد نسلی جنگ شروع کریں۔ پروفیسر دوھرن اور ان کے رفقائے کار نے لوگوں کو نقصان پہنچایا۔ شکاگو میں “موسمیاتیوں” کی بغاوت کے دنوں میں شکاگو کے ایک ڈسٹرکٹ اٹارنی رچرڈ ایلروڈ (Richard Elrod) بری طرح زخمی اور ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوگیا۔
ڈوہرن نے ایلارڈ کے مفلوج ہونے پر ایک نفرت انگیز جشن بپا کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ باب ڈیلن کے گانے “Lay, Lady, Lay” کی مضحکہ خیز نقل اتارتے ہوئے “Lay, Elrod, Lay” کے عنوان سے گانا گایا۔ موسمیاتی جماعت کے عسکری شعبے “Red Army” کے تین سپاہی جو – فورٹ ڈکس میں فوجی سروس کے پہلے دن کی خوشی میں منقعدہ عمومی رقص جہاں سپاہی اپنی سہیلیوں کے ساتھ “معصومانہ!” انداز سے عیش و عشرت میں مصروف تھے – میں دھماکہ کرنے کی غرض سے اینٹی پرسنل بم بنا رہے تھے، دھماکے سے اڑ کر ہلاک ہوئے۔ پولیس ابھی تک سان فرانسسکو میں ہونے والے ایک دھماکے کے بارے میں تحقیق کررہی ہے جس میں ایک پولیس افسر ہلاک ہؤا تھا۔ پروفیسر ڈوہرن مشتبہ افراد میں سے ایک ہیں۔ علاوہ ازیں ڈوہرن نے اپنے شوہر پروفیسر بل آئرس (Bill Ayers) کے موقف کی مخالفت نہیں کی ہے جنہوں نے 11 ستمبر 2001ع‍ کو نیویارک ٹائمز کی نامہ نگار ڈینشیا سمتھ (Dinitia Smith) سے کہا تھا کہ “مجھے بم نصب کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے؛ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے کافی کام نہیں کیا”۔
پروفیسر ڈوہرن اس سے پہلے سنہ 1970ع‍ کی دہائی میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مفرور تھیں جس کی وجہ سے ان کا نام ایف بی آئی کے 10 انتہائی مطلوب اشتہاریوں کی فہرست میں درج ہؤا تھا۔ سنہ 1980ع‍ میں وہ اور ان کے ساتھیوں نے ہتھیار ڈال دیئے لیکن تمام الزامات سے بری ہوگئے کیونکہ ان سے غیر قانونی طور پر تفتیش کی گئی تھی۔
پروفیسر ڈوہرن نے اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: “ہم نے جنگ کا بھی مقابلہ کیا اور نسل پرستی کا بھی؛ نیز ہم نے یہ بھی سیکھا کہ صرف امریکہ میں کچھ افراد کی زندگی ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ تمام انسانوں کی زندگی ایک سطح پر قابل قدر اور اہم ہے”۔
پروفیسر ڈوہرن کیلی فورنیا کے مشہور پِٹزر کالج (Pitzer College) میں گریجویشن کی تقریب سمیت متعدد گریجویشن تقاریب کی کلیدی مقرر رہی ہیں۔
پٹزر کالج میں انھوں نے فارغ التحصیل نوجوانوں سے کہا: “یہاں آپ کے طالب علمی کے سالوں کے دوران، معیشت ٹکڑوں میں بکھری ہوئی ہے، ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں، بےضابطگی (مسابقت بڑھانے کے لیے کسی خاص صنعت میں حکومتی طاقت اور اثر و رسوخ کا خاتمہ) اور انحراف (یعنی مرکزی حکومت کے بعض اختیارات کی مقامی حکومتوں کو منتقلی)، رائج ہوچکا ہے جس کی وجہ سے مرکزی حکومت اور مقامی حکومتیں دیوالیہ ہو چکی ہیں؛ (مقامی حکومتوں سے مراد امریکہ میں موجود نیم خود مختار حکومتیں ہیں)، امریکہ میں لوگوں کو ظالمانہ سزائیں دی جا رہی ہیں اور 20 لاکھ سے زائد افراد کو قید کر لیا گیا ہے، کمپنیوں کی لوٹ مار اور جرائم پیشگی جاری ہے؛ لوگ مسلسل لوڈ شیڈنگ سے دوچار ہیں، مبینہ “دہشت گردی کے خلاف جنگ” مسلسل جاری ہے، خوف و ہراس پھیل چکا ہے اور امریکہ نے عراق پر قبضہ کرلیا ہے، تشدد اور بغیر کسی مقدمے کے منظم اور ذلت آمیز نظربندیوں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کا دور دورہ ہے۔ امریکہ نے پورے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں امریکی فوجی اڈوں کا ایک ہلال قائم کیا گیا ہے؛ اور یہ سارے مسائل آپ کے کالج میں داخلے کے وقت سے یہ تمام بے ضابطگیاں خوشگوار توہمات اور فریب میں بدل چکی ہیں”۔
انسان یہ دیکھ کر اپنی حیرت سے اجتناب نہیں کرسکتا کہ ممکنہ انجام پانے والی قومی تحقیق کے بعد، اتنے سارے امیدواروں کے ہوتے ہوئے، پروفیسر برنارڈین ڈوہرن نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے لا‏ء اسکول کا اتنا اہم اور عمدہ عہدہ سنبھالنے میں کامیاب ہوئیں؛ تو کیا یہ عہدہ سنبھالنے کے لئے ایک سابقہ دہشت گرد کے سوا کوئی بھی نہ تھا؟
عجب یہ ہے کہ پروفیسر ڈوہرن کو بطور خاص قانون کے اطفال اور خاندان کے شعبے پر مقرر کیا گیا ہے، اور کمیٹی یہ جاننے میں ناکام رہی کہ وہ 1970ع‍ میں ان والدین کے کریڈٹ کارڈ کی چوری میں ملوث تھیں جو بچوں کے اسٹور سے خریدار میں مصروف تھے۔ اس زمانے میں وہ Weather Underground کے دہشت گردوں کی مالی معاونت پر مامور تھیں۔
جس وقت وہ – بالخصوص خاندان اور بچوں کے حقوق کے حوالےسے – قانون کے شعبے میں پروفیسر شپ پر ملازمت حاصل کرنے کی تلاش میں تھیں، تو کیا ان کے خلاف ان سارے مسائل کو مد نظر نہیں رکھا گیا؟ یقینا پروفیسر ڈوہرن نے لاء اسکول میں تقرری کے بعد متعدد مقالے اور مضامین، علمی جرائد و رسائل میں شائع کیے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کی زیادہ تر تحقیقات پر تشدد جرائم کے مرتکب کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو دی جانے والی سزاؤں پر مرکوز ہیں۔ چنانچہ وہ اب بھی ایک مربوط اعتقادی پروگرام پر کاربند ہیں اور کسی طرح یہ جتانے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ (ان جیسے) تشدد پسند افراد بےگناہ ہیں اور تشدد کا شکار بنے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: جان پارانزو (John Pranzo)
ترجمہ: ابو اسد