پروفیسر نیکولس ڈی جینووا (Prof. Nicholas de Genova) کا تعارف

پروفیسر نیکولس ڈی جینووا: امریکی حب الوطنی استعماری جنگوں اور سفیدفاموں کی فوقیت کے تصور سے الگ نہیں ہے۔ امریکی جھنڈے آج عراق میں جارح امریکی جنگی مشینری کی علامت ہے۔ امریکی جھنڈے جارحیت اور قبضے کی علامت ہیں"۔

فاران؛ حالیہ برسوں میں ڈیوڈ ہورو ویٹز (David Horowitz) نے “101 خطرناک پروفیسر” نامی کتاب لکھی جنہیں تدریس کے وقت یا کتابوں میں ہالوکاسٹ اور یہودیوں کے بارے میں بولنے اور لکھنے کی پاداش میں “خطرناک” قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ دوسری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو خبردار کیا گیا کہ چونکہ ان پروفیسروں نے سرخ لکیر سے عبور کرلیا ہے، ان کی کاوشوں سے استفادہ نہ کریں اور یہ کہ جب آزادی لامحدود ہوجاتی ہے، تو یہ مسائل پیدا کرتی ہے اور وہ افراد کو آخرکار محدود کرے گی”۔
ذیل کی سطور میں پروفیسر نیکولس ڈی جینووا (Prof. Nicholas de Genova) – جو 101 مبینہ خطرناک پروفیسروں میں سے ایک ہیں – کا تعارف جوزف ولسن کے قلم سے، پیش کیا جارہا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی
1۔ نیکولس ڈی جینووا کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ بشریات (Anthropology) کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
2۔ انھوں نے [سنہ 2003ء میں] 10 لاکھ “موگادیشو” (a million Mogadishus) [یعنی موگادیشو جیسے 10 لاکھ شہر] دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور ان کا اشارہ 1993ء میں صومالیائی مسلح افراد کے ہاتھوں 18 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی طرف تھا۔
3۔ ان کا کہنا ہے کہ “حقیقی ہیرو وہ لوگ ہیں جو امریکی افواج کو شکست دینے کے لئے مناسب راستے تلاش کرتے ہیں”۔
53 سالہ پروفیسر نیکولس ڈی جینووا کولمبیا یونیورسٹی میں بشریات (Anthropology) کے استاد ہیں۔ سنہ 2003ء میں انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی – جو عراق کی جنگ کی مخالفت کی طرف کم ہی توجہ دیتی تھی – میں ایک تدریسی خطاب کے ضمن میں دس لاکھ موگادیشو (صومالیہ کا دارالحکومت جیسے شہر) بنانے کی تجویز دی [جہاں امریکیوں کا قتل عام کیا جائے] اور ان کا جملہ 1993ء کے دوران صومالیہ میں امریکی افواج کی شکست کی طرف اشارہ تھا جس میں 18 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ پروفیسر ڈی جینووا اور ان جیسے لوگ، درحقیقت بائیں بازو کے وہ جنگ مخالف لوگ ہیں جو جارج بش اور صدام کو ایک ہی تصویر کے دو رخ سمجھتے ہیں اور امریکی افواج کی پسپائی کے خواہاں ہیں۔ پروفیسر ڈی جینووا اپنی اصلی تقریر میں موگادیشؤوں کی تشکیل کے جملے سے اسی “اینٹی وار” گروپ کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد وہ عبارت ہے جو متن میں مندرج ہوئی ہے۔
پروفیسر ڈی جینووا نے کولمبیا یونیورسٹی کے 3000 طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: امریکی حب الوطنی استعماری جنگوں اور سفیدفاموں کی فوقیت کے تصور سے الگ نہیں ہے۔ امریکی جھنڈے آج عراق میں جارح امریکی جنگی مشینری کی علامت ہے۔ امریکی جھنڈے جارحیت اور قبضے کی علامت ہیں۔ “حقیقی ہیرو وہ لوگ ہیں جو امریکی افواج کو شکست دینے کے لئے مناسب راستے تلاش کرتے ہیں”۔
پروفیسر ڈی جینووا اس سے پہلے بھی متنازعہ موقف اپناتے رہے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2002ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں ایک تدریسی خطاب کے ضمن میں کہا: “ہالوکاسٹ کے ورثے کا تعلق فلسطینی عوام سے ہے۔ اسرائیلی حکومت کو ہالوکاسٹ کے ورثے اوپر اپنا حق جتانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مظلوموں کا ورثہ مظلوموں کو ملنا چاہئے نہ کہ جابروں اور ظالموں کو”۔
جوزف ولسن لکھتا ہے: فطری امر ہے کہ جب سنہ 1948ء میں تمام پڑوسی عرب ممالک نے نوزائیدہ اسرائیلی ریاست پر ہلہ بول دیا اور فلسطینی بھی اسرائیل کے خلاف تھے، اور یہ مخالفت آج بھی جاری ہے اور بعض عرب ممالک بھی ان کی حمایت کررہے ہیں، [تو اسرائیل کو بھی اپنی حفاظت کرنا پڑے گی لیکن] پروفیسر ڈی جینووا کا تصور یہ ہے کہ اسرائیل کی سیاسی کیفیت اسرائیلی حکومت کے جبر و ظلم کے مترادف ہے۔
ان دو اقوال کے بعد پروفیسر ڈی جینووا نے اپنے موقف کی وضاحت اور تفسیر کی خاطر ایک مکالمے کا اہتمام کیا جو بہت زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ انھوں نے کہا: “دس لاکھ موگادیشؤوں سے میرا مطلب تھا اور مجھے امید تھی کہ کہ امریکی افواج ویت نام جیسی ایک گوریلا جنگ میں متزلزل ہوجائیں”۔
پروفیسر ڈی جینووا نے اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: “میرا مطلب یہ تھا کہ اسرائیل کی حکومت نازیوں کے ظلم کی قانونی وارث نہیں ہے!”۔
جوزف ولسن کے مطابق، پروفیسر ڈی جینووا سنہ 2003ء میں کولمبیا یونیورسٹی کے مقام پر ایک گول میز کانفرنس کے دوران – اس کے باوجود کہ اس یونیورسٹی میں مقامی امریکی (سرخ فام) طلبہ کی تعداد بہت کم ہے – مطالبہ کیا کہ اس یونیورسٹی کے قومیتوں اور نسلوں کے شعبے میں “امریکی مقامی باشندوں کے مطالعے” کا شعبہ قائم کیا جائے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے شعبۂ انسانیات کی ویب گاہ پر پروفیسر ڈی جینووا کے ذاتی صفحے پر مکتوب ہے کہ میرے مطالعات “قومی سلامتی کی حکومت” اور دہشت گردی کے خلاف “نام نہاد جنگ” پر مرکوز ہیں، اور گول میز کانفرنس میں انھوں نے کہا: “ہم بدستور سماجی تعلقات میں مداخلت کرتے ہیں اور ہماری کوشش انہیں درہم برہم کرنے پر مرکوز ہے۔ اور یہ عمل نسل پرستی کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے معاشرے کا جدائی ناپذیر جزء میں تبدیل کرتا ہے۔
نیز دیکھئے:
– پروفیسر ڈینا کلاؤڈ Dana Cloud
– پروفیسر ایلزابتھ ایم برمفیل Elizabeth M. Brumfiel,
– پروفیسر رابرٹ جنسن Robert Jensen
– پروفیسر پیٹر کیرسٹائن Peter Kirstein
– پروفیسر اونیدا میرانٹو Oneida Meranto
۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: جوزف ویلسون Joseph Wilson
ترجمہ: ابو اسد