فاران تجزیاتی خبرنامہ:
1۔ “سفید اتحاد” – جسے آپ ” کالا اتحاد” پڑھ سکتے ہیں – دشمن کا ایک پرانا حربہ اور چال ہے، جو جنگوں کے آغاز اور سازشوں کے منصوبے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس حربے کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں کفار نے “جنگ احزاب” کے دوران اسی طریقے کو اپنایا تھا اور اسلام کے خلاف ایک بڑی فوج تیار کی تھی۔ اس حربے کے تانے بانے اس بنیاد پر تھے کہ اگر مختلف گروہ یا جماعتیں کسی مقصد کے لیے اتحاد کرنا چاہیں، تو اتحاد کی بنیاد صرف چند مشترکہ نکات پر رکھی جائے۔ کیونکہ زیادہ نکات پر اتحاد کرنا مشکل اور تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، جتنا اتحاد کے دائرے کا شعاع بڑھایا جائے گا، اتحادیوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ اسی لیے بڑے پیمانے پر اتحاد بنانے کے لیے، گروہوں کو اپنے اختلافات کو وقتی طور پر نظرانداز کرنا پڑتا ہے اور صرف ایک یا دو مشترکہ نکات پر توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے۔
ریچرڈ ہاؤس، جو کہ امریکہ کی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سربراہ ہیں، اس اتحاد کو “سفید اتحاد” کہتے ہیں، کیونکہ اس میں شامل گروہوں نے ایک وسیع اتحاد تک پہنچنے کے لیے اپنے اختلافات وقتی طور پر نظرانداز کیے ہیں۔ یہی حربہ 2009 ء کے فتنے میں استعمال کیا گیا تھا، جہاں امریکہ اور اسرائیل کی سازش کے تحت مختلف مخالف گروہوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے خلاف اکٹھا کیا گیا تھا۔
2۔ لبنان میں حزب اللہ اور صیہونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کے دو گھنٹے بعد ہی، ترکی کی سرحد کے ذریعے شمالی شام سے قریباً 20 ہزار دہشت گردوں کا ایک بڑا ہجوم شام کی سرزمین پر داخل ہوا۔ یہ علاقہ ترکی کے زیر کنٹرول ہے اور وہاں امریکہ کے 20 سے زائد فوجی اڈے موجود ہیں۔ یہ دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے لیس تھے، جن میں سے زیادہ تر امریکہ اور اسرائیل کے بنے ہوئے تھے۔ ان دہشت گردوں کو “تحریر الشام” ( شام کو آزاد کرانے والے) کا نام دیا گیا، اور ان کا تعلق مختلف قومیتوں جیسے تاجک، ازبک، اویغور، ترکمنستان، اردن، اور شام وغیرہ سے تھا۔
3۔ اتنے بڑے پیمانے پر مختلف قومیتوں کے 20 ہزار دہشت گردوں کو جمع کرنا، انہیں تربیت دینا، اور اچانک حملے کے لیے منظم کرنا، کم از کم 2 سے 3 ماہ کی منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔ یہ کام کسی دہشت گرد گروہ، خاص طور پر تکفیری گروہوں کے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ یقیناً ایک یا زیادہ حکومتوں کے ذریعے انجام دیا گیا ہے۔ ان دہشت گردوں نے ترکی کی سرحد سے شام میں داخل ہونے کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جہاں ترکی کی حکومت اور امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی ہے۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ ترکی اور امریکہ اس حملے سے آگاہ تھے۔ دہشت گردوں نے ابتدائی مراحل میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور حتیٰ کہ صیہونی ریاست کے ساتھ دوستی کا ذکر کیا۔ اگرچہ ان بیانات کے بغیر بھی ان کے عزائم واضح تھے، کیونکہ ان کے موقف مکمل طور پر اسرائیلی پالیسیوں سے ہم آہنگ تھے۔ جنوبی شام اور اردن کی سرحد سے بھی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کی آمد یہ ظاہر کرتی ہے کہ اردن کی حکومت بھی اس منصوبے میں شامل تھی۔
۴۔ مذکورہ بالا نکات جو موجود شواہد کا صرف ایک حصہ ہیں، اس بات میں کوئی شک نہیں چھوڑتے کہ بشار الاسد کی حکومت ایک مشترکہ حملے کے نتیجے میں، جو امریکہ، اسرائیل، ترکی اور اردن کی جانب سے کیا گیا، گر چکی ہے۔ دہشت گردوں کا کام صرف ان ہدایات پر عمل کرنا تھا جو انہیں دی گئی تھیں۔ اس تمام صورتحال میں، شام کی حکومت کے اندر موجود چند دیگر عوامل – جو اس حادثہ میں مؤثر یا تیز رفتار ہیں – کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور نہیں کرنا بھی چاہیے۔ ان میں ایک یہ ہے کہ شام کی فوج کو دشمن کے حمایتی عناصر سے مکمل طور پر پاک نہیں کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ شہید ہمدانی کے درجات بلند کرے، جنہوں نے پچھلے دور کے فتنہ میں جب فوج کی سستی دیکھی تو بشار الاسد کو مشورہ دیا کہ عوام کو مسلح کریں۔ اس ہوشیار رہتے ہوئے ہونے والے اقدام نے حکومت کو گرنے سے بچایا۔ بیرونی حکومتوں اور طاقتوں کے وعدوں پر بھروسہ اور ان کی وعدہ خلافی کو بشار الاسد کی حکومت کے تیزی سے زوال کا ایک اور اہم عنصر قرار دیا جا سکتا ہے۔ شام کی معیشت مستحکم نہیں تھی۔ مثال کے طور پر فوجی اہلکاروں کی تنخواہیں ان کی روزمرہ زندگی کے اخراجات کے لیے ناکافی تھیں، اور…
۵۔ رہبر انقلاب اسلامی کے حکیمانہ نکات پر غور کریں:
رہبر انقلاب اسلامی نے رواں سال ایرانی مہینے خرداد (یعنی حالیہ واقعے سے چھ ماہ قبل) بشار الاسد سے ملاقات کے دوران انہیں خبردار کیا تھا:
“مغربی ممالک اور ان کے علاقائی اتحادیوں نے شام کے خلاف جنگ کے ذریعے اس کے سیاسی نظام کو گرانے اور شام کو خطے کے معاملات سے نکالنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن وہ ناکام رہے۔ اب بھی وہ نئے طریقوں سے، بشمول کھوکھلے وعدں کے ذریعہ جو کبھی پورے نہیں ہوں گے، شام کو خطے کے معاملات سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
یہ اس بات پر تنبیہ تھی کہ “ایسے وعدوں پر بھروسہ نہ کریں جو کبھی پورے نہ ہوں۔”
رہبر معظم نے آبان ۱۳۹۶ میں داعش کے خاتمے کے بعد شہید سردار قاسم سلیمانی کو دئے گئے اپنے ایک پیغام میں فرمایا تھا:
“میں آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں، لیکن اس کے ساتھ تاکید کرتا ہوں کہ دشمن کی چالاکیوں سے غافل نہ ہوں۔ جنہوں نے بھاری سرمایہ کاری سے یہ سازش تیار کی ہے کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وہ اس منصوبے کو کسی اور علاقے میں یا کسی اور شکل میں دوبارہ عملی کرنے کی کوشش کریں گے۔ حوصلے کو برقرار رکھنا، ہوشیاری کو قائم رکھنا، اتحاد کو مضبوط رکھنا، خطرناک باقی ماندہ فتنوں کو ختم کرنا، بصیرت افزا ثقافتی کام کرنا، اور مکمل تیاری کو بھولنا نہیں چاہیے۔ میں آپ اور عراق، شام، اور دیگر ممالک کے تمام مجاہد بھائیوں کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور آپ سب کو دعا اور سلام پیش کرتا ہوں۔”
شہید سردار سلیمانی اور ان کے بعد سردار قاآنی نے اس پیغام کو متعلقہ افراد تک پہنچایا اور اس نگرانی پر زور دیا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بشار الاسد نے سردار سلیمانی اور سردار قاآنی کی جانب سے دیے گئے بعض اہم انتباہات کو نظرانداز کیا۔
6۔ ان دنوں امریکہ، اسرائیل، ترکی، اردن اور چند دیگر عرب حکومتیں، جو دراصل ان کے دست نشاندہ ہیں، شام کی حکومت کے زوال پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہیں۔ شام کی حکومت، جو محاذِ مزاحمت کے لیے ایک مؤثر مرکز تھی، اس کے زوال پر ان کے داخلی کارندے بھی خوشی میں ان کے ساتھ شریک ہو کر اپنی زلفیں ان کے دم سے باندھ رہے ہیں۔ تاہم، یہ سب کچھ اس حقیقت کو بدل نہیں سکتا کہ دمشق کا زوال پوری کہانی نہیں ہے۔ محاذِ مزاحمت، جس کی قیادت ایرانِ اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور جس کی رہبری امام خمینیؒ اور امام خامنہ ای کر رہے ہیں، ماضی میں اس سے بھی بڑے اور دشوار حالات کا کامیابی سے سامنا کر چکی ہے۔
آج یہ محاذ نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور قطب بن چکا ہے۔ اس محاذ کی بنیادیں آج بھی بے مثال قوت کے ساتھ قائم ہیں۔ امریکی ادارے “ہری ٹیج” کی رپورٹ کے مطابق، یہ محاذ دلوں کو فتح کرنے میں مصروف ہے، نہ صرف مسلم اقوام میں بلکہ دنیا کے دور دراز کےحصوں میں بھی اپنے اثرات و نقوش چھوڑ رہا ہے دمشق کا زوال بلاشبہ ایک افسوسناک اور ناخوشگوار واقعہ ہے، لیکن یہ کہانی کا اختتام نہیں بلکہ اس کی ایک نئی شروعات ہے۔
جیسا کہ قرآن میں ان لوگوں کے لیے کہا گیا ہے جو وقتی کامیابی پر خوش ہو رہے ہیں:
“فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا”
(پس تھوڑا ہنس لو، جبکہ تمہیں زیادہ رونا پڑے گا)۔
7۔ جنگ بدر، جو مسلمانوں کی ایک بڑی کامیابی تھی، ہجرت کے دوسرے سال ہوئی۔ جنگ اُحد، جو مسلمانوں کی شکست کا باعث بنی، ہجرت کے تیسرے سال پیش آئی۔ اس شکست کے بعد کچھ مسلمان مایوسی کا شکار ہوگئے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:
“إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ”
(اگر تمہیں اُحد میں زخم پہنچا تو دشمنوں کو بھی بدر میں ایسا ہی زخم پہنچا تھا۔ ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے ہیں تاکہ اللہ مؤمنوں کی آزمائش کرے اور تم میں سے کچھ کو گواہ بنائے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا)۔
(سورۃ آلِ عمران، آیت 140)
اس کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوا، جو مسلمانوں کی سب سے بڑی کامیابی تھی اور اس کے نتیجے میں اسلام کی عالمگیر پذیرائی ہوئی انشاء اللہ آگے بھی کچھ ایسا ہی ہوگا ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں