کتاب کا تعارف | یہودیت اور صہیونیت قرآن کی روشنی میں

کتاب " یہودیت اور صہیونیت قرآن کی روشنی میں" - جس کے مصنف "جناب ہادی آجیلی" ہیں اور اس کی ادبی تصحیح کا کام "جناب سید محمد رضا موسوی" نے سرانجام دیا ہے - کو سنہ 2011ع‍ میں امام صادق (ع) یونیورسٹی کے ادارہ نشر و اشاعت نے شائع کیا۔

فاران؛ کتاب ” یہودیت اور صہیونیت قرآن کی روشنی میں” – جس کے مصنف “جناب ہادی آجیلی” ہیں اور اس کی ادبی تصحیح کا کام “جناب سید محمد رضا موسوی” نے سرانجام دیا ہے – کو سنہ 2011ع‍ میں امام صادق (ع) یونیورسٹی کے ادارہ نشر و اشاعت نے شائع کیا۔ اس کتاب کے مصنف یونیورسٹی کے فیکلٹی آف سائنسز کے رکن ہیں۔ انھوں نے سیاسیات کے موضوعات اور بین الاقوامی سطح پر متعدد مقالات اور کاوشیں شائع کی ہیں۔

تحقیق کا مقصد
اس تحقیق کے مقاصد درج ذیل ہیں:
1۔ سیاست کے میدان میں قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنا؛
2۔ قرآن کے حوالے سے صہیونیت کی صحیح تر اور ٹھوس شناخت؛
3۔ عملی فوائد کے حصول کی غرض سے قرآنی تحقیقات و مطالعات کو تقویت پہنچانا؛
4۔ صہیونی-یہودی ریاست کے مد مقابل اسلامی جمہوریہ ایران کی عملی پالیسیوں کے لئے عملی حکمت عملیوں کی تجویز دینا۔
مصنف نے ذیل کے مآخذ و مصادر سے استفادہ کیا ہے
– ڈاکٹر حسین ابو ترابیان کی کتاب “بذرہائے توطئہ” (سازش کے بیج)؛
– سید ابراہیم بروجردی کی کاوش “تفسیر جامع”؛
– سید محمد مہدی جعفری کی “سیر تحول قرآن” (قرآن کا ارتقائی سفر)؛
– علامہ سید محمد طباطبائی کی “تفسیر المیزان”؛
– سید محمد شیرازی کی کتاب “دنیا بازیچہ یہود” (دنیا یہودیوں کا کھلونا)۔
یہ کتاب نہایت فصیح لب و لہجے میں، طلبہ، محققین اور ان عام لوگوں کے لئے مناسب ہے جو یہود کے بارے میں مطالعات و تحقیقات کا اشتیاق رکھتے ہیں۔
کتاب کی تصنیف کے حوالے سے مصنف کا بنیادی فکری محرک
مصنف نے ذیل کے سوالات کے جواب کے ضمن میں اپنی کاوش کے محرکات بیان کئے ہیں:

بنیادی سوال:
مصنف کی بنیادی فکر کتاب لکھنا ہے۔
سب سے اہم سوال: قرآن میں یہودی قوم کی منفی خصوصیات کی بنیاد پر صہیونی بدعت کا تجزیہ کس اندار سے کیا جاتا ہے؟

جزوی سوالات:
1۔ قرآن میں قوم یہود کی منفی خصوصیات کونسی ہیں؟
2۔ صہیونیت نامی بدعت کی منفی خصوصیات کیا ہیں؟
3۔ صہیونیت اور قرآن
قرآن کریم میں صہیونی بدعت اور یہودیوں کے درمیان تعلقات کا تجزیہ اور تعارف کیونکر ہوسکتا ہے؟
4۔ مذکورہ خصوصیات کی رو سے، صہیونیت کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کی کیسا ہونا چاہئے؟

مفروضات جو اس کاوش پر کارفرما ہیں
اس تحقیق پر کارفرما مفروضات درج ذیل ہیں:
1۔ قوم یہود کو قرآن کریم میں منفی اور مثبت خصوصیات کے ساتھ متعارف کرایا گیا ہے۔
2۔ “صہیونیت” اور “یہودیت” مکمل طور ہم معنی نہیں ہیں کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر غیر صہیونی یہودیت بھی پائی جاتی ہے اور غیر یہودی صہیونیت بھی۔ [جن میں عیسائی صہیونی اور وہابی صہیونی اور عرب و بظاہر مسلم غیر عرب صہیونی شامل ہیں]۔ اس کتاب کا منظور نظر رویہ یہ ہے کہ قرآنی نظریئے کو سمجھا جائے اور پھر اسی نظریئے کے مطابق حقائق کی فہم و ادراک کا اہتمام کیا جائے اور یوں حقائق کو قرآن کریم کے مطابق بنایا جائے؛ [چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ کتاب کی بنیاد قرآن کریم ہے]۔
اس کتاب میں یہودیت کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے قرآن سے عملی نمونے اخذ کرکے صہیونیت کا مسئلہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ کتاب چھ فصلوں پر مشتمل ہے اور ان فصلوں میں متعلقہ اصولی اور ذیلی سواوالات کا جواب دے کر متعلقہ مفروضوں کو ثابت کیا گیا ہے۔

پہلی فصل: تمہید
اس فصل میں مصنف نے تحقیق کی عمومیات، اپنی فکرمندیوں، متعلقہ سوالات اور مفروضات اور من حیث المجموع قارئین کی خدمت میں پیش کردہ معطیات و مندرجات کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔

دوسری فصل: قرآن میں قوم یہود کی منفی خصوصیات
قرآن کریم کے بیان کردہ جائزوں کی رو سے یہودیوں کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔۔۔
– اول: وہ آیات جن میں بس قوم بنی اسرائیل کے ارتقائی عمل کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان آیات میں کوئی خاص موقف اختیار نہیں کیا گیا ہے۔
– دوئم: وہ آیات جن میں قوم بنی اسرائیل کی صفات اور مثبت و پسندیدہ خصوصیات بیان ہوئی ہیں؛ لیکن
3۔ سوئم: وہ آیات ہیں جن میں یہودیوں کی منفی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ اس فصل میں قرآن کی 176 آیات کریمہ کی طرف اشارہ ہؤا ہے جن میں یہودیوں کی 65 منفی خصوصیات بیان ہوئی ہیں؛ اور منفی خصوصیات پر مبنی آیات کریمہ کو چار زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1۔ اعتقادی اور ایمان خصوصیات؛ جیسے: کفر اور بےایمانی؛
2۔ سماجیاتی خصوصیات؛ جیسے نسل پرستی، بخل اور کنجوسی اور ریاکاری اور منافقت۔
3۔ اقتصادی و معاشی خصوصیات؛ جیسے سود خوری، ثروت پرستی وغیرہ؛
4۔ سیاسی خصوصیات؛ جیسے خیانت اور جاسوسی۔
ان خصوصیات میں یہودیوں کی نسبت قرآن کی نگاہ بالکل منفی ہے؛ اور قرآن کی یہ نگاہ مدینہ کے رہنے والے اور نزول قرآن کے زمانے کے یہودیوں تک محدود نہیں ہے۔

تیسری فصل: بدعت بنام صہیونیت
صہیونی مکتب ایک دینی مکتب نہیں بلکہ پوری طرح سیاسی مکتب ہے اور ایک لحاظ سے یہ تورات کی سیاسی تفسیر ہے۔ یہ مکتب اسرائیلی ریاست کے قیام کی بنیاد ہے اور صہیونیت کے ظہور پذیر ہونے کا ایک بڑا سبب یہودیوں کی نسل پرستانہ خصلت، نیز انیسویں صدی کے یورپ پر کار فرما قوم پرستی کی فضا ہے۔
اس مکتب کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے یہودیوں کو اکٹھا کرنے اور یہودی ریاست و معاشرے کے قیام سے عبارت ہے۔ یہ ریاست – جسے اسرائیل کہا جاتا ہے – مغربی تہذیب کی علامت اور مشرق وسطی میں مغرب کے مفادات کی محافظ ہے۔ اس فصل میں صہیونیت کی 26 خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو قرآن میں بیان ہونے والی یہودی خصوصیات سے مماثلت رکھتی ہیں۔

چوتھی فصل: صہیونیت اور یہود کی شناختی تعلق
قوم یہودی کی خصوصیات اور صہیونیت کی خصوصیات اور ان کے درمیان شناختی رشتے اور تعلق کی تصدیق، کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ یہ خصوصیات یہودی تاریخ کے تمام مراحل میں جاری و ساری رہی ہیں اور ان میں سے بعض خصوصیات کا تعلق ان کے ظہور اور طاقت پانے کے مواقع کی فراہمی سے ہے۔ پہلے زمرے کے اعتقادی اور ایمانی کے ضمن میں کفر اور بےایمانی کی صفت ہے جو ان قوم میں ہر وقت جاری رہی ہے۔ بیسویں صدی کا صہیونی سفارت کار “ابا ایبان” (Abba Solomon Meir Eban) اعتراف کرتا ہے کہ “بنی اسرائیل میں کبھی بھی خالص اور پاکیزہ مذہبی عقائد رائج نہیں رہے ہیں؛ بنی اسرائیل میں بت پرستی اور [قومِ الیاس کے معبود بت] “بعل” کی پرستش، مشہور عام ہے”۔
دوسرے زمرے کی (سماجیاتی) صفات میں 1، نسل پرستی، 2۔ زمین میں فساد پھیلانا، 3۔ سنگ دلی اور قسی القلبی و جرائم پیشگی، ان دو گرپوں کی مشترکہ صفات میں سے ہیں؛ تیسرے [اور معاشیاتی] زمرے میں سے 1۔ دنیا پرستی ہے: یہودیوں نے دنیاوی مال و دولت اور زر و زیور کو دنیا میں اپنا بنیادی مقصد قرار دیا ہے؛ اور چونکہ ان کا انتہائی مقصود و مطلوب ہی دنیا ہے، لہذا اس کے حصول کی خاطر وہ تمام اعلی انسانی اقدار کو پامال کرتے ہیں اور باقی تمام انسانوں کے درمیان اختلاف و انتشار کے اسباب فراہم کرتے ہیں؛ نیز صہیونیوں کی مال اندوزی، سودخوری اور منافع پرستی پوری تاریخ میں یہودیوں کی خصوصیت رہی ہے اور انھوں نے اس صفت رذیلہ کو ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھا ہؤا ہے۔

پانچویں فصل: صہیونیت اور (یہودی-صہیونی ریاست) اسرائیل کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کے اصول قرآن مجید کی رو سے
اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام حکومت جو دین اسلام، قرآنی احکامات و ہدایات، احادیث شریفہ و قرآن و سنت سے ماخوذ قانون اساسی (آئین) کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے، خاص قسم کے فکری-اعتقادی اصولوں کا حامل ہے اور یہی اصول اس کی شناخت و تشخص کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس فصل میں بطور خاص امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے افکار اور منصوبوں سے اخذ ہونے والے امور، اسلامی انقلاب کے محرکات اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اہداف و مقاصد کی تشکیل میں کردار کرنے والے امور پر روشنی ڈالی گئي ہے؛ ان محرکات میں میں بعض کا تعلق صہیونیت اور اسرائیل کے مسئلے سے ہے جن میں ظلم و نا انصافی کے خلاف جدوجہد، عالمی استکبار و استعمار کے خلاف جہاد، خالص محمدی (ص) اسلام کا احیاء اور استعمار و استحصال کے مقابلے میں مسلمانوں کی بیداری، شامل ہیں۔
سیرت نبوی سے عملی نمونے اخذ کرنے کی ضرورت کے پیش نظر، اسرائیل کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو بنی قریظہ اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اقدامات پر استوار کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اسرائیل نے بھی ان ہی رویوں کو اپنایا ہے اور یہ غاصب ریاست بھی عالم اسلام میں ان ہی اقدامات کا ارتکاب کر چکی ہے جو یہودیوں کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اقدامات کا باعث بنے تھے؛ اور ان کا تشخص عینی مثالوں اور یہودیوں کے سلسلے میں قرآن کے بیان کی روشنی میں آشکار ہے؛
اور ان دو مظاہر کے خلاف اسلامی جمہوریہ کے موقف سے متعلق قرآنی اصولوں میں سے، ہم عدم اعتماد کے اصول، جدوجہد اور تصادم کے اصول، احتیاط کے اصول، عدم مودت کے اصول اور عدم تعلق کے اصول کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں۔
………..
مترجم: ابو اسد