فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی ریاست کے باشندوں کے مطابق، 14 ماہ کی غزہ میں جنگ کے بعد اسرائیل بین الاقوامی سطح پر ایک “تنہا جزیرہ” بن چکا ہے جو سخت پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔
گروپ کے مطابق اسرائیل ایک : “تنہا جزیرہ سخت پابندیوں میں جکڑا ہوا!”
کیا کسی نے یہ تصور کیا تھا کہ یہ اسرائیلی میڈیا میں کسی خبر کا عنوان ہوگا جو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی حالت بیان کرے؟ جی ہاں، یہ گزشتہ ہفتے کے مشہور اقتصادی-سیاسی جریدے “کالکالیست” کے ہفتہ وار ضمیمے کی سرخی تھی، جس میں غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی 14 ماہ کی جنگ، جسے “آہنی تلواریں” کہا جاتا ہے، پر بات کی گئی تھی۔
کالکالیست نے بیان کیا کہ 14 ماہ کی مسلسل جنگ کے بعد، اسرائیل بے مثال بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کر رہا ہے۔ : “اسرائیل صرف اندرونی طور پر زوال اور تباہی کا شکار نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی حالت اندرونی حالات سے کچھ بہتر نہیں ہے۔”
ایئرلائن کمپنیاں ایک کے بعد ایک اسرائیل میں اپنے دفاتر بند کر رہی ہیں، ممالک نہ صرف ہتھیاروں کی برآمدات بلکہ اسرائیل کو عام اشیاء کی فراہمی پر بھی پابندیاں لگا رہے ہیں اور اس پر انتباہ دے رہے ہیں۔ سرمایہ کار اسرائیل چھوڑ کر جا رہے ہیں، فنکار، کھلاڑی، سائنسدان اور سماجی کارکن اسرائیل کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
مزید یہ کہ جریدہ لکھتا ہے: “یہ اسرائیل کی بھیانک حالت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے ہر اسرائیلی محسوس کر رہا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک اور خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تو صرف شروعات ہے!”
رپورٹ زور دے کر کہتی ہے: جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں، اسرائ یل کا محاصرہ شدید تر ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی ہوائی کمپنیوں کی پروازوں کا نام و نشان اب بین گورین بین الاقوامی ہوائی اڈے کی اسکرینوں پر نہیں ہے۔ ممالک اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ فنکار ایک کے بعد ایک اسرائیل میں اپنے پروگرام منسوخ کر رہے ہیں۔
یونیورسٹیوں کے درمیان تعاون ہر روز حیرت انگیز طور پر ختم ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں اسرائیل میں اپنے منصوبے روک رہی ہیں۔ پابندیاں کئی مواقع پر علانیہ اور بے باک ہیں، اور بہانے بھی مختلف ہیں۔ کچھ پابندیاں سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر ہیں، جبکہ کچھ بغیر کسی وضاحت یا جواز کے لگائی جا رہی ہیں، اور وہ بھی مؤثر انداز میں۔
ہم سب، بطور اسرائیلی شہری، اس نئے طرز عمل اور حقیقت سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب ہم یہ ترجیح دیتے ہیں کہ خود کو اسرائیلی ظاہر نہ کریں۔
کالکالیست کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو جس بین الاقوامی تنہائی کا سامنا ہے، وہ صرف 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ تنہائی اسرائیل کی پالیسیوں، خاص طور پر “یہود دشمنی” کے حوالے سے رویے کا نتیجہ ہے، جس میں ہر اقدام کو دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، 2005 میں شروع ہونے والی “بی ڈی ایس” (BDS) تحریک، جو دنیا بھر میں اسرائیل کے بائیکاٹ کی دعوت دیتی ہے، نے بھی اسرائیل کی اس بین الاقوامی تنہائی میں اہم کردار ادا کیا۔
رپورٹ میں عوامی مظاہروں کو بھی نظر انداز نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ مظاہرے نتین یاہو کی عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ ان مظاہروں کو نظرانداز کرنے اور عوامی مطالبات پر توجہ نہ دینے کے باعث احتجاج مزید شدت اختیار کرتا گیا، جس سے اسرائیل کی جمہوریت پر سوال اٹھنے لگے اور وہ آزاد ممالک کی صف سے باہر ہو گیا۔
کالکالیست 7 اکتوبر کے واقعات کے بارے میں مزید کہتا ہے: “7 اکتوبر 2023 کے واقعات نے اسرائیل کو ایک ایسا بہانہ دیا جس کی آڑ میں غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ شروع کی گئی۔ لیکن یہ واقعات دنیا کو یہ قائل کرنے کے لیے کافی تھے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں 14 ماہ کے دوران انسانیت سوز اور جنگی جرائم کیے ہیں۔
نتین یاہو کی کابینہ کی طرف سے جنگ کو بلاوجہ اور بے جواز جاری رکھنے پر اصرار، اسرائیل کے وجود کو نقصان پہنچانے والا قدم ثابت ہوا۔ اب، بجائے اس کے کہ نتین یاہو اسرائیل کو اس خوفناک تنہائی سے نکالیں، وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ دنیا ہمارے خلاف کیوں ہے۔ اور ہم، اسرائیلی شہری، اس بحران میں پھنسے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ کیا کریں۔”
“دنی کاتاریواس”، جو اسرائیل کے ایوانِ صنعت و تجارت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ اور اسرائیلی صنعتکاروں کی یونین کے سینئر مشیر ہیں، کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے خلاف حالیہ بین الاقوامی اقدامات، چاہے کچھ بھی ہوں، اتنے تشویشناک یا خطرناک نہیں جتنے کہ خاموش اور پس پردہ لگنے والی پابندیاں ہیں، جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جائیں گی۔
کاتاریواس کے مطابق، بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے نتین یاہو اور یوآو گالانت کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کا فیصلہ یقینی طور پر اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ پر اثر ڈالے گا، اور پابندیوں کو مزید شدید اور وسیع کرے گا۔
کاتاریواس کے مطابق: “لاہہ کے احکامات کے بعد دنیا کی نظر میں اسرائیل سرکاری طور پر ایک جنگی مجرم ہے۔ یہ تاثر نہ صرف عالمی رائے عامہ میں گہرائی تک سرایت کرے گا بلکہ کئی معاملات کو متاثر کرے گا۔”
کاتاریواس نے اس سلسلے میں ناروے کے سرمایہ کاری فنڈز کا ذکر کیا، جو اخلاقی اور انسانی حقوق کے خدشات کی بنا پر اسرائیلی فوجی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ وہ موجودہ سرمایہ کاری بھی اسرائیل سے نکال رہے ہیں اور جلد باضابطہ طور پر اعلان کریں گے کہ وہ ان ممالک میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے جو جنگی جرائم کے مرتکب ہیں۔
کاتاریواس کے مطابق، اصل تباہی سرمایہ کاری نکالنے میں نہیں بلکہ اس عمل کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اور اچانک انجام دینے میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا: “ایپل کا اسرائیلی ڈرامہ ‘تہران’ کے تیسرے سیزن کو نشر کرنے سے انکار اس کی ایک مثال ہے، جو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایپل اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لینا چاہتا تھا۔”
کاتاریواس کے مطابق، یہی “خاموش پابندی” ہے جو شدت اختیار کر رہی ہے اور پھیل رہی ہے، اور اس کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے نتین یاہو اور گالانت کے خلاف جاری کیے گئے گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔ یہ صورتحال اسرائیل کو ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا بھر میں مزید ناپسندیدہ بنا رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس رجحان کا مقابلہ کیسے کیا جائے اور اس کے پھیلاؤ اور گہرائی کو کیسے روکا جائے، تو انہوں نے کہا: “آج کی دنیا اب 90 کی دہائی جیسی نہیں رہی، جب نتین یاہو کی حکومت نے مغربی ممالک کو قائل کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف عربوں کی پابندیوں اور عرب ممالک کے ساتھ عدم تعاون کے خلاف قوانین نافذ کریں، اور کامیابی سے ان پابندیوں کا مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ معاملہ حکومتوں کے ہاتھ میں تھا، لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے۔ موجودہ پابندیاں عوامی ہیں اور انہیں سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مہمات کی قیادت حاصل ہے۔”
کاتاریواس کے نزدیک، اسرائیل کے لیے بین الاقوامی تنہائی اور پابندیوں کی مہمات کا مقابلہ کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ان کے پھیلاؤ اور کثرت ہے، جبکہ اسرائیل میں ان اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی واضح مرکزی حکمت عملی یا ذمہ دار ادارہ موجود نہیں ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کے اندرونی اختلافات اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: “کسی بھی عملی اقدام سے پہلے، ہمیں اپنے اندرونی نظریاتی اختلافات کو حل کرنا ہوگا اور ایک مشترکہ اور متحدہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔”
کاتاریواس نے اسرائیل کے خلاف عوامی پابندیوں کو پانی کے ان قطروں سے تشبیہ دی ہے جو ایک باندھ کے پیچھے جمع ہو رہے ہیں اور آخرکار ایک زبردست سیلاب کی صورت میں جاری ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ سیلاب اسرائیل کے بین الاقوامی تجارتی تبادلات اور سرگرمیوں کو مکمل طور پر روک سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امریکیوں کے اسرائیلی آبادکاروں کے خلاف بے مثال اقدامات کا حوالہ دیا، جو اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں ایک غیرمعمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی لیے، اسرائیل کو ان اقدامات کو آسانی سے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام مناسب اقدامات کرنے کے بجائے صرف یہ کہتے ہیں کہ “پوری دنیا ہمارے خلاف ہے” اور ہر واقعے کو “یہود دشمنی” قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: “یہ بیانات یقینی طور پر درست نہیں ہیں، لیکن حتیٰ کہ اگر درست بھی ہوں، تو ہم نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقتاً کیا کیا ہے؟”
اسی سلسلے میں، “ایمانوئل نحشون”، جو اسرائیل کے سابق نائب وزیر خارجہ ہیں اور اس وقت “کمیٹی آف یونیورسٹی پریزیڈنٹس آف اسرائیل” کے سربراہ ہیں، نے کہا: “یونیورسٹیاں دنیا کے ساتھ گفتگو اور تعلقات کے ذریعے زندہ رہتی ہیں اور انہی سے اپنی توانائی حاصل کرتی ہیں۔ اگر اسرائیلی یونیورسٹیوں کے دنیا کے ساتھ تعلقات نہ ہوں، تو وہ اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکیں گی، کیونکہ انہیں اپنے کام کو جاری رکھنے کے لیے معلومات، خیالات، اساتذہ، طلبہ، اور تجربات کے تبادلے کی اشد ضرورت ہے۔”
نحشون نے پہلی بار انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے اب تک 300 سے زیادہ اسرائیلی اساتذہ اور طلبہ کو تعلیمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان پابندیوں میں علمی اور تعلیمی مقالات کی اشاعت پر پابندی، اسرائیلی محققین اور اساتذہ کی بین الاقوامی کانفرنسوں، تقاریر، اور مشترکہ سائنسی تحقیقات میں شرکت سے روکنا، اور اسرائیلی تحقیقاتی، تعلیمی، اور سائنسی وظائف کو مسترد کرنا شامل ہیں۔
ان مسائل کے ساتھ ساتھ، اسرائیل کی پالیسیوں اور جرائم کے خلاف مظاہرے اور احتجاجی مارچ بھی شامل ہیں، جو زیادہ تر امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں میں دیکھے گئے ہیں۔
جنوری میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، 32 فیصد اسرائیلی ماہرین تعلیم نے کہا کہ وہ دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کی دعوتیں کھو چکے ہیں، جبکہ 15 فیصد نے بتایا کہ انہیں اپنی تحقیقی اور سائنسی منصوبوں کی مالی معاونت کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
نحشون نے موجودہ صورتحال کو ایک معمولی اور ابتدائی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ اسرائیلی یونیورسٹیوں کے خلاف “خاموش پابندی” کی صرف شروعات ہے، جس کا ہم اس وقت مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک بڑی تصویر کے “برفانی پہاڑ” کا اوپری حصہ ہے جس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں