کیا خطے میں “گریٹر اسرائیل” کی تشکیل ہو رہی ہے؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطے کی سرحدیں، جیسا کہ نیتن یاہو نے اشارہ دیا، دوبارہ ٹرمپ کی نگرانی میں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیلی قیدیوں کے مسئلے کو وائٹ ہاؤس میں ان کے داخل ہونے سے پہلے حل نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دیا جائے گا۔ اس دوران، کون ہے جو ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف کھڑا ہو سکے؟

فاران تجزیاتی خبرنامہ: بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد، صہیونی ریاست کو پہلی مرتبہ جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے بعد یہ موقع ملا کہ وہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے آگے بڑھا سکے۔

صہیونی ریاست کے قیام کے وقت سے ہی اس غاصب ریاست کی عرب زمینوں پر نظریں دو حصوں میں تقسیم تھیں۔ پہلا حصہ فلسطینی زمینوں سے متعلق تھا، اور دوسرا حصہ ان عرب ممالک کی زمینوں پر مشتمل تھا جو فلسطین کے قریب واقع تھیں۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے ابتدائی عشروں میں عرب ممالک کے ساتھ جنگ کے دوران ان کے علاقوں پر قبضہ کیا، لیکن اس کی لالچی نظروں کا دائرہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔
عبرانی زبان کے اخبار “ہاآرتز” نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے “عظیم اسرائیل” کے خواب کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں ایک عدالتی پیشی کے دوران کہا کہ “1916 میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان کیے گئے سائکس پیکو معاہدے کے بعد سے خطے میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا، لیکن اب وہ زلزلہ آ رہا ہے۔”

یہ اس وقت ہوا جب نیتن یاہو نے 1974 میں اسرائیل اور شام کے درمیان گولان کی پہاڑیوں پر طے پانے والے جنگ بندی اور تفریق معاہدے کی یکطرفہ خلاف ورزی کی۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد اسرائیلی ٹینکوں نے اسلحے سے خالی حائل علاقے کو عبور کرتے ہوئے جنوبی شام میں داخل ہو کر دمشق سے 20 کلومیٹر دور “قطنا” تک پیش قدمی کی۔
دوسری جانب، “ہیئۃ تحریر الشام” (پہلے جبهة النصرہ) کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے حالیہ بیانات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے کہا کہ “شام جنگوں سے تھک چکا ہے اور ایک نئی جنگ نہیں چاہتا۔” یہ بیان ان لوگوں کی نیتوں کی عکاسی کرتا ہے جنہوں نے فلسطین کے مسئلے کو نظرانداز کیا اور فلسطینیوں کے مصائب و آلام سے آنکھیں بند کر لیں۔

تاہم، الجولانی کے ان بیانات کا وہ حصہ قابل فہم نہیں جس میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تنازع کو ایران اور خطے کے درمیان تنازع قرار دیا۔ یہ ایسے وقت میں کہا گیا ہےجب جنوبی شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل ان علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے جو شام کی سرزمین کا حصہ ہیں، اور یہ اس وقت ہو رہا ہے جب الجولانی خود کو شام کا حکمران اور اپنی زیر نگرانی ایک عبوری حکومت کو ملک کے معاملات سنبھالنے کا دعویٰ کرتے نظر آرہے ہیں۔ کیا شام کے ان علاقوں پر اسرائیلی قبضہ الجولانی اور دیگر شامی مخالفین کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟
اسی طرح یہ بات بھی فی الحال قابل فہم ہے کہ موجودہ حکومت نہ تو کوئی عملی اقدام کر سکتی ہے اور نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی سرگرمی دکھا سکتی ہے، لیکن کیا یہ کم از کم ممکن نہیں کہ “الجولانی” اور عبوری حکومت کے وزیرِاعظم “محمد البشیر” جیسے افراد سیاسی طور صہیونی ریاست کے مقابل مشترکہ موقف اختیار کریں؟ وہ زبانی طور پر ہی سہی، اعلان کریں کہ اسرائیل نے جو علاقے حال ہی میں قبضے میں لیے ہیں اور جن کے باشندے نقل مکانی اور بے گھر ہونے پر مجبور ہو رہے ہیں، وہ شام کی سرزمین ہے۔ خاص طور پر جب اسرائیلی فوج دمشق سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے؟


اسرائیل کے عزائم اور مقاصد کبھی اتنے واضح اور نمایاں نہیں تھے۔ نیتن یاہو کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے علاقے کو وسعت دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، اور اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی جاری ہیں۔ نیتن یاہو کی موقع پرستی سے قطع نظر، یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسے امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا کہ “اسرائیل ایک چھوٹا ملک ہے اور اسے اپنی سرحدوں کو وسیع کرنا چاہیے۔”
یہ بیانات اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کی کھلی حمایت کے مترادف ہیں، جو جنوبی شام تک محدود نہیں، بلکہ شمالی غزہ کی پٹی میں بھی جاری ہیں۔ جہاں بھی فلسطینی مزاحمت کریں اور نقل مکانی سے انکار کریں، قتل و غارت کو ہتھیار بنایا جاتا ہے، جیسا کہ مغربی کنارے کے لیے بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس الحاق کا منصوبہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور ان کے اقتدار سنبھالتے ہی اس پر غور کیا جائے گا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطے کی سرحدیں، جیسا کہ نیتن یاہو نے اشارہ دیا، دوبارہ ٹرمپ کی نگرانی میں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیلی قیدیوں کے مسئلے کو وائٹ ہاؤس میں ان کے داخل ہونے سے پہلے حل نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دیا جائے گا۔ اس دوران، کون ہے جو ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف کھڑا ہو سکے؟


اگر ہم ان حالات کو مکمل طور پر سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مغرب کی الجولانی اور “ہیئت تحریر الشام” کے بارے میں رویے کو دیکھنا ہوگا، اور یہ بھی کہ کس طرح مغرب ان کا نام دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن الجولانی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسا تبھی ممکن ہوگا جب مغرب اسرائیل کے بارے میں ان کے موقف اور معمول کے تعلقات کی حمایت سے واقف ہوگا۔ اب ایک طرف امت مسلمہ ہے دوسری طرف صہیونی ریاست سے وابستگی دیکھنا یہ ہےکہ دہشت گردی کا لبیل ہٹانے کے لئے بیت المقدس کا سودا ہوتا یا کچھ اور رہی بات سائکس پیکو معاہدے کی تو سرحدوں میں تبدیلی امریکیوں کے لیے، جو اس معاہدے کے وارث ہیں اور دستخط کنندہ فریق نہیں، ایک ایسا مقصد ہے جس کا انحصار “القاعدہ” اور “داعش” کے وارثین کو عالمی دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے اور انہیں نئے کرداروں کے لیے تیار کرنے پر ہے۔
امریکہ اور ان گروہوں کے درمیان تعلقات کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب امریکہ کی نظر میں یہ گروہ اس کے قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ لہٰذا انہیں جلد از جلد تمام دہشت گردی کی فہرستوں سے نکال کر شام کے معاملات کا انتظام سنبھالنے دیا جائے، تاکہ نہ صرف فلسطین کے مسئلے کو بھلا دیا جائے بلکہ سائکس پیکو معاہدے میں اسرائیل کے حق میں تبدیلی کی راہ بھی ہموار کی جا سکے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔