کیا “داعش کی اسلامی خلافت” کا منظرنامہ دہرایا جا رہا ہے؟

گذشتہ ایک عشرے کے دوران مغربی ایشیا میں محاذ مزاحمت نے اپنی لا زوال قوت کے ذریعے دہشت گردی اور دہشت گردوں، دہشت گردی سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں لیکن اگلے مرحلے میں داعش کا نشانہ بننے والے ممالک میں مزاحمت کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ان ممالک میں کلاسیکی افواج دہشت گردی کی ابتدائی شکلوں کے مقابلے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

فاران: بہر صورت “تخلیقی انتشار” کے امریکی پالیسی کے تحت، داعش کے احیاء اور نام نہاد “اسلامی خلافت” کے لئے ہونے والی تکفیری کوششوں کی تکمیل کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ حتی کہ لبنان – جس کو گذشتہ 10 برسوں کے دوران داعش، سعودی گماشتوں اور دوسرے دہشت گرد ٹولوں کی طرف سے خطرہ تھا اور حزب اللہ نے اس ملک کو اس خطرے سے نجات دلائی – ان دنوں پھر بھی امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے بڑے بھائی اسرائیل کی طرف سے پراکسی جنگ کے خطرے سے دوچار ہے اور آج اس ملک میں واشنگٹن اور اس کے مذکورہ آلہ ہائے کار کی طرف سے مشکوک سرگرمیاں جاری ہیں؛ دو ہفتے قبل سعودیہ اور اسرائیل سے وابستہ بدنام زمانہ دہشت گرد جماعت “حزب الکتائب” (جو ماضی میں فالانج پارٹی (Phalange Party) کہلاتی تھی اور لبنانی اور فلسطینی عوام کے قتل عام میں ملوث رہی ہے] نے الطیونہ کے علاقے میں حزب اللہ اور حزب الامل کے پرامن مظاہرین پر فائرنگ کرکے کئی افراد شہید کیا؛ اور یہ جماعت سعودی-یہودی بساط پر کھیلنے والے دوسرے ٹولوں کے ہمراہ بیروت کی بندرگاہ میں دھماکے کے الزامات کا رخ حزب اللہ کی طرف موڑنے کی مہم میں مصروف ہیں، لبنان کا اقتصادی محاصرہ کرنے میں امریکہ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں؛ لبنان میں خانہ جنگی کے لئے ماحول سازی کر رہے ہیں؛ گویا شام کے ماڈل کو افغانستان کے علاوہ لبنان میں بھی دوبارہ آزمانے کے لئے سازش ہو رہی ہے۔
الطیونہ فائرنگ کیس میں لبنانی افواج کی تحقیقات
جو کچھ لبنان میں ہورہا ہے، وہ لبنان کے پڑوسی ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے؛ بالخصوص ایسے حال میں کہ اسلامی مزاحمت کو نہتا کرنے کی امریکی-صہیونی-عربی سازش اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کی سازش بھی اپنی انتہا پر ہے؛ جس کی وجہ سے لبنان بیرونی [یعنی امریکی اور یہودی] حملوں اور دہشت گرد ٹولوں کی بھرمار کے آگے زد پذیر ہوگا۔
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء عمل میں آ چکا ہے، عراق سے زیادہ تر امریکی فوجی جا چکے ہیں اور باقی فوجیوں کے انخلاء کا منصوبہ ہے، شام میں موجود امریکیوں کے انخلاء کی نشانیاں بھی دکھائی دے رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ اپنی شیطانی خصلت ترک کر چکا ہے؛ بلکہ یہ ایک حساس مرحلہ ہے اور اس مرحلے کی ابتدائی علامتیں ظاہر ہوچکی ہیں، عراق، شام اور افغانستان میں داعش نے اپنی موجودگی کا عملی اور دہشت گردانہ اور خونخوارانہ موجودگی کا اعلان کرلیا ہے؛ چنانچہ بہت ممکن ہے کہ امریکہ اس علاقے میں ایک وسیع پراکسی یا نیابتی جنگ کا آغاز کر دے، اور ہمیں وہی واقعات دیکھنا پڑیں جو مشرق وسطی – بالخصوص مغربی ایشیا – میں داعش کے داخلے کے وقت رونما ہوئے۔ مغربی ایشیا – اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیا – میں داعش کے دو بارہ آ ٹپکنے کا خطرہ ان ممالک کو درپیش ہے جن کے حکام کی غفلت کے نتیجے میں اندرون خانہ تنازعات، افراتفریوں اور انتشار کو ہوا دیتے ہیں یا پھر انتظامی امور میں کمزور ہیں، یہ مسائل اس وقت سب سے زیادہ افغانستان اور لبنان میں دکھائی دے رہے ہیں اور ان ممالک میں بھی جہاں داعش یا اس کے مماثل دہشت گرد ٹولوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران مغربی ایشیا میں محاذ مزاحمت نے اپنی لا زوال قوت کے ذریعے دہشت گردی اور دہشت گردوں، دہشت گردی سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں لیکن اگلے مرحلے میں داعش کا نشانہ بننے والے ممالک میں مزاحمت کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ان ممالک میں کلاسیکی افواج دہشت گردی کی ابتدائی شکلوں کے مقابلے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اور افغانستان میں تو امریکہ کی تربیت یافتہ فوج روئے زمین سے مٹ چکی ہے اور طالبان جو کسی وقت خود دہشت گرد جماعت کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے، مذکورہ تجربے سے بے بہرہ ہیں؛ تا ہم جہاں تک مغربی ایشیا کا تعلق ہے تو شام، لبنان اور عراق سمیت یہاں کے ممالک میں پہلے بھی مزاحمت کا تجربہ کامیاب رہا ہے اور اب بھی ان کے سامنے مزاحمت ہی کا راستہ ہے جس کے لئے ان ممالک کے حکام اور عوام کو اسلامی مزاحمت تحریک کی جماعتوں اور مجاہد دستوں کی حمایت کرنا پڑے گی؛ یہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے امریکی دہشت گردی کے مختلف منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے گا اور ہمیں یقین ہے کہ دہشت گردی کے ضمن میں امریکی اور صہیونی ریشہ دوانیوں کی دوبارہ شکست، ان کی دائمی ابدی شکست ہوگی جس کے بعد وہ ان ممالک میں اس طرح کے حربوں کی افادیت سے مایوس ہوجائیں گے۔