کیا کسانوں کو سرکار پر بھروسہ کرنا چاہیے ؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مودی حکومت وعدوں اور خوابوں کے سبز باغ دکھلانے کے لیے جانی جاتی ہے ۔جن انتخابی وعدوں کے ساتھ بی جے پی اقتدار میں آئی تھی ان میں سے زیادہ تر وعدے ڈھکوسلہ ثابت ہوئے۔’اچھے دنوں‘ کا وعدہ کرنے والی سرکار میں ملک کے عوام انتہائی برے دن گذارنے پر مجبور ہیں ۔لاقانونیت کا راج ہے ۔بین المذاب نفرت بڑھتی جا رہی ہے ۔اقلیتوں کے خلاف مآب لنچنگ کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہاہے ۔اس پر آفت یہ ہے کہ پولیس بھی اسی مشتعل بھیڑ کا حصہ بنتی جارہی ہے ۔ملک کے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں ۔سرکاری سرپرستی میں اسلامی مقدسات کی توہین کو شرپسندوں نے اپنا وطیرہ بنالیاہے ۔مہنگائی عروج پر ہے اور عوام کو اس قدر مذہبی جنون میں مبتلا کر دیاگیاہے کہ انہیں مہنگائی بھی دیش کی ترقی کا لائحۂ عمل معلوم ہوتی ہے ۔سرکار کی ناقص پالیسیوں کے خلاف احتجاج کو ملک سے غداری تعبیر کیا جاتاہے تاکہ مزاحمت اور بغاوت کے جذبات کو پنپنے سے پہلے ہی کچل دیا جائے ۔ایسے خطرناک ماحول میں پرامن کسان تحریک کا نتیجہ خیز اختتام حیرت ناک ہے ۔لیکن کسانوں کو پوری طرح سرکار پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ موجودہ سرکار وعدوں کو لالی پاپ دینے میں مہارت رکھتی ہے ۔البتہ زرعی قوانین کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں بل پاس ہوگیاہے ۔اس کے باوجود دیگر اہم مطالبات ابھی پورے نہیں ہوئے ہیں جن میں ’ایم ایس پی ‘ سب سے اہم مطالبہ ہے ۔
کسان تحریک آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سب سے طولانی تحریک ہے ۔یہ تحریک 380 دنوں تک مسلسل جاری رہی ۔کسانوں کو مشتعل کرنے کی ہزار ہا کوششیں کی گئیں مگر انہوں نے صبرو تحمل کادامن نہیں چھوڑا ۔ان کے خلاف گودی میڈیا کے ذریعہ پروپیگنڈہ کیا گیا مگر انہوں نے ہر پروپیگنڈے کو اپنے عزم و حوصلے کے ذریعہ شکست دی ۔تقریباً چالیس ہزار کسانوں پر صرف ہریانہ میں مقدمات درج کیے گئے تاکہ ان کے عزم و استقلال کو شکست دی جاسکے ۔کورونا مہاماری کے دوران یہ تصور کیا جارہاتھا کہ شاید کسانوں کو کورونا وبا کا بہانہ بنا کر زبردستی ہٹا دیاجائے گا مگر انہوں نے کورونا مہاماری کی سیاست کو بھی مات دیدی ۔سرکار کے ہزار ہا حیلوں و حربوں کے بعد بھی جب کسان اپنے مطالبات سے ٹس سے مس نہ ہوئے تو وزیر اعظم کو اپنی ’تپسیا‘ میں کمی نظر آئی ۔اس تمسخرانہ احتساب کےبعد انہوں نے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کرکے پورے ملک کو حیرت زدہ کر دیا ۔وزیر اعظم سے اس طرح کے اعلانات کی توقع نہیں کی جاتی کیونکہ وہ ایک بار کسی معاملے میں قدم آگے بڑھا لیتے ہیں تو پھر ہر گز پیچھے نہیں ہٹتے ۔مگر اس بار پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات نے انہیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے مجبور کردیا ۔
کسان تحریک کئی معنوں میں منفرد تحریک تھی ۔اول تو یہ کہ کسانوں نے سرکار کی انانیت ،عدم توجہی اور عوام کو اہمیت نہ دینے کی حکمت عملی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔سرکار نے متعدد بار کسانوں سے مذاکرات کیے مگر ہر بار مذاکرات بے نتیجہ رہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرکار کسانوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے انہیں زرعی قوانین کی افادیت باور کرانے پر تلی ہوئی تھی ۔اگر سرکار کسانوں کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرتی اور وزیر اعظم نریندر مودی براہ راست کسانوں سے مکالمہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ یہ تحریک بہت پہلے ختم ہوجاتی ۔مگر بی جے پی کو یہ یقین تھا کہ کسان ان کی عدم توجہی کے رویے اور تھکادینے والی طولانی تحریک کے بعد خود بخود شکست تسلیم کرکے گھروں کو لوٹ جائیں گے ۔مگر ایسا نہیں ہوا ۔کسان مکمل منصوبہ بندی اور مضبوط لائحۂ عمل کے ساتھ میدان میں آئے تھے ۔انہوں نے ایک سال کے دوران اپنے اہل خانہ،عزیز و اقارب، کھیتوں اور فصلوں کی بھی پرواہ نہیں کی اور محاذ پر ڈٹے رہے ۔انہیں یقین تھاکہ بی جے پی کی انانیت کو اسی ایک طریقے سے ہرایا جاسکتاہے اور انہوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا ۔ہاں کسانوں اور ملک کے عوام کو یہ قلق ضرور رہا ہوگا کہ وزیر اعظم نے ایک بار بھی کسانوں سے ملاقات کی زحمت نہیں کی ۔آیا نریندر مودی بی جے پی کے وزیر اعظم ہیں یا پورے ملک کی ذمہ داری ان کے سر پر ہے ؟۔ اگر انہیں پورے ملک کی ذمہ داری نبھانے کی پرواہ ہوتی تو اس ملک کے کسانوں سے گفت و شنید کو اپنے لیے باعث عار نہیں سمجھتے ؟۔انہیں وزیر اعظم کی حیثیت سے کسانوں سے ملنا چاہیے تھا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی ۔زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی انانیت کا دامن نہیں چھوڑا ۔انہوں نے کہاکہ ’’ وہ نیک نیتی کے ساتھ کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے یہ تینوں زرعی قوانین لائے تھے۔ کافی عرصے سے اس کا مطالبہ کیا جا رہا تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ’ کچھ کسان بھلے ہی ان کی تعداد کم ہو، انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ غالباً یہ ہمارے عزم(تپسیا) کی کمی تھی کہ ہم انہیں ان تینوں قوانین کے بارے میں سمجھا نہیں سکے ‘‘۔اگر وزیر اعظم کے پورے بیان کو بغور سنا جائے تو معلوم ہوگا کہ زرعی قوانین واپسی کا فیصلہ سیاسی مجبوری کی بنیاد پر لیاگیاہے ورنہ ابھی تک بی جے پی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپائی ہے کہ زرعی قوانین کسان مخالف تھے ۔افسوس اس وقت ہواکہ جب وزیر اعظم نے تحریک میں شہید ہوئے کسانوں کے اہل خانہ کے تئیں اظہار ہمدردی کی زحمت بھی نہیں کی ۔ایسی بھی کیا انانیت کہ اپنے ملک کے کسانوں کی موت پر اظہار غم سے گریز کیا جائے ؟۔اس پر سرکار نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں اس حقیقت سے ہی انکار کردیا کہ تحریک کے دوران کسی کسان کی موت واقع ہوئی۔حیرت ہے کسی بھی ملک کی سرکار اتنا غیر ذمہ دارانہ بیان کیسے دے سکتی ہے ؟جن کسانوں کی موت کی خبریں گودی میڈیا نے نشر کیں کم از کم ان کی شہادت کا اقرار کرکے گودی میڈیا کی ہی آبرو رکھ لی جاتی ،مگر ایسا نہیں ہوا ۔
29 نومبر 2021 کو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں تینوں زرعی قوانین کی منسوخی کے لیے بل پاس کردیاگیا ۔اپوزیشن قوانین منسوخی بل پر بحث چاہتی تھی مگر اسپیکر نے اس کی اجازت نہیں دی ۔ظاہر ہے بحث کی اجازت مل بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ جس طرح چور دروازے سے زرعی قوانین بل پاس کرایا گیا تھا اسی طرح بغیر کسی بحث و مباحثے کے اس کو منسوخ کردیا گیا ۔گذشتہ پانچ سالوں میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح پارلیمنٹ کے اقدار کو پامال کیا جارہاہے ۔پارلیمنٹ میں غیر پارلمانی زبان کا استعمال تو اب عام بات ہوگئی ہے ۔اس کے علاوہ ایوان میں نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا،یہ افسوس ناک ہے۔سرکار اکثریت کے زعم میں اس قدر متکبر ہوچکی ہے کہ وہ جب چاہتی ہے بغیر بحث و مباحثے کے بل کو قانونی حیثیت دیدیتی ہے ۔اپوزیشن ہر بار ہنگامہ آرائی تک محدود ہوکر رہ جاتاہے کیونکہ سرکار بحث و مباحثے سے خوف زدہ ہے ۔وہ نہیں چاہتی کہ اس کے کسی بھی فیصلے پر کوئی سوال پوچھا جائے ۔اس لیے خاموشی کے ساتھ بل پاس کردیے جاتے ہیں تاکہ کسی کوبل کے خلاف اپنی بات رکھنے کا موقع نہ مل سکے ۔یہ رویہ جمہوری اقدار کے خلاف ہے ۔انہی رویوں کی بنیاد پر جمہوریت آمریت میں بدل جاتی ہے ۔
زرعی قوانین کی واپسی کے بعد بھی کسان سرکار کی طرف سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں ۔اس لیے انہوں نے یہ اعلان کیاہے کہ گاہے بہ گاہے کسانوں کی میٹنگ طلب کرکے سرکار کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ سرکار اپنے وعدوں پر کس حدتک عمل پیراہے ۔کیونکہ ایسا بہت بار ہوچکاہے کہ سرکار اگر کسی تحریک کو ختم کرنا چاہتی ہے تو سبز باغ دکھلاکر ختم کردیتی ہے ۔اس لیے کسان وقتاً فوقتاً سرکار کے اقدامات کا جائزہ لیتے رہیں گے تاکہ وہ حکومت کے ’جملوں ‘ کا شکار نہ ہوسکیں ۔کسانوں کی اگلی جائزہ میٹنگ پندرہ جنوری کو دہلی میں طلب کی گئی ہے ،اس سے پہلے یہ دیکھنا اہم ہوگاکہ سرکار ’ایم ایس پی ‘ پر کیا قدم اٹھاتی ہے ۔آیاپندرہ جنوری سے پہلے کسانوں پر درج مقدمات واپس لے لیے جائیں گے ،یا ابھی کسانوں کو انتظامیہ کے ذریعہ ہراساں کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے گی ۔تحریک کے دوران مرنے والے کسانوں کو معاوضہ ملنا تو ممکن نہیں ہے کیونکہ ابھی تک سرکار نے یہی تسلیم نہیں کیا ہے کہ ایک سالہ تحریک کے دوران کسی کسان کی موت واقع ہوئی ۔بہر حال! سرکار کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسانوں نے تحریک کی طوالت سے گھبراکر گھر واپسی کا فیصلہ نہیں لیابلکہ سرکار نے زرعی قوانین کی منسوخی اور دیگر مطالبات پر کسانوں کے ساتھ اتفاق کیاہے ،اس لیے تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا گیاہے ۔اگر سرکار کے وعدے ایک بار پھر ’جملہ‘ ثابت ہوئے تو کسان دوبارہ تحریک شروع کرنے سے پیچھے نہیںہٹیں گے ،جس کا انتباہ خود کسان یونین دے چکی ہے ۔
تبصرہ کریں