گاندھی جی کا چشمہ اور یوم جمہوریہ

شاید ایسا اس لئے ہے کہ گاندھی جی کا چشمہ کسی میوزیم میں پڑا دھول کھا رہا ہے اور لوگ سرمایہ داری کا چشمہ لگا کر ملک چلا رہے ہیں جسکی وجہ سے غریب و مزدور انہیں دکھ ہی نہیں رہے ہیں ہر طرف سرمایہ دار ہی نظر آ رہے ہیں

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 26 جنوری ہے وہ تاریخ جب ہمارا بنیادی دستور نافذ ہوا جس کی تمہید میں واضح طور پر یوں درج ہے :
“ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لیے:
سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف؛
خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی؛
بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات
حاصل کریں گے اور ان سب میں
اخوت کو ترقی دیں گے جس سے فرد کی عظمت، قوم کے اتحاد اور سالمیت کا تیقن ہو؛”
یہ مختصر تمہید اس بنیادی دستور کا نچوڑ ہے جو دنیا کا دوسرا سب سے ضخیم ملکی آئین ہے۔ یہ وہ آئین ہے جس میں مذکورہ تمہید کے علاوہ 448 دفعات ہیں۔ تمام دفعات 25 حصوں میں منقسم ہیں۔ کل 12 درج فہرستیں ہیں اور 5 زائدے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے دستور ساز اسمبلی نے بابا صاحب کی سربراہی میں کتنی عرق ریزی کے ساتھ اسے اس طرح بنایا تھا کہ دین، مذہب، رنگ و نسل سے پرے تمام ملک کے باشندوں کے حقوق کا محافظ ہو ۔
لیکن افسوس گاندھی جی کے چشمے سے آج جب ہم ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو جابجا اس آئین کے پرخچے اڑتے نظر آتے ہیں جس مذہبی جنون کے دیو کو آئین کے سخت پنجوں میں جکڑ دیا گیا تھا وہ باہر نکل کر دندناتا گھوم رہا ہے نفرتوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں دبے کچلوں اور غریبوں کو جس آئین نے سہارا دیا تھا آج انہیں کو ہر طرف ملک میں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔۔۔۔
شاید ایسا اس لئے ہے کہ گاندھی جی کا چشمہ کسی میوزیم میں پڑا دھول کھا رہا ہے اور لوگ سرمایہ داری کا چشمہ لگا کر ملک چلا رہے ہیں جسکی وجہ سے غریب و مزدور انہیں دکھ ہی نہیں رہے ہیں ہر طرف سرمایہ دار ہی نظر آ رہے ہیں ۔ایسے میں ہمارے لئے ضروری ہے ایک بار پھر ملک کو اسی نظر سے دیکھیں جس سے گاندھی جی دیکھتے تھے کم از کم آج جب ہم 26 جنوری بنیادی دستور کے نفاذ کا جشن منا رہے ہیں تب تو ایک بار گاندھی جی کے چشمے سے دیکھ لیں ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہیے؟۔۔۔