ہم تزویرانی شکست سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہیں / چارہ کار کیا ہے؟ سابق صہیونی وزیر

صہیونی ریاست کے سابق وزیر قانون نے لکھا: وار کونسل اور فوج کا جوائنٹ اسٹاف اسرائیلیوں کو مکمل حقیقت نہیں بتاتے، لیکن وار کونسل کے اندرونی اختلافات اور جنگ میں تزویراتی شکست کے حوالے سے ارکان کے باہمی الزامات کے تبادلے کی رو سے، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ "تلخ حقائق کو افشا کرنے کی گھڑی بالکل قریب آئی ہے"، کیونکہ جنگ بندی کے سوا اب کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔

فاران: صہیونی ریاست کے سابق وزیر قانون حاییم رامون نے معاریو اخبار میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: آٹھ مہینوں سے جاری جنگ کے باوجود ہمارے جنگی مقاصد میں سے کوئی ایک مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے، اور یہ مسئلہ سب پر واضح ہو چکا ہے اور جنگی کابینہ اور فوج کے پاس مستقبل میں مقاصد کے حصول کا کوئی عملی منصوبہ نہیں ہے اور قومی سلامتی کے امور کر مشیر نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔

جنگی کابینہ اور فوج کے جوائنٹ اسٹاف کی کارکردگی تباہ کن ہے اور مقاصد تک پہنچنے میں “افسوسناک شکست” سے دوچار ہوئے ہیں۔ لیکن وہ عوام کو پوری بات نہیں بتا رہے ہیں، لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ “تلخ حقائق کو افشا کرنے کی گھڑی بالکل قریب آئی ہے”، کیونکہ جنگ بندی کے سوا اب کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔

رامون نے مزید لکھا کہ جنگی کابینہ اور فوج کے پاس مستقبل کے لئے کوئی پروگرام نہیں ہے اور اندرونی سلامتی کے مشیر تساہی ہنگبی نے نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے جب اس نے کہا کہ “ہم کوئی تزویراتی ہدف حاصل نہیں کر سکے ہیں” جبکہ دوسری سے حماس پورے غزہ سمیت ان تمام علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جہاں سے اسرائیلی فوج کو پسپا ہونا پڑا ہے، اور حماس آج اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔

رامون کا کہنا تھا: حماس نے اپنا فوجی کنٹرول بحال کر لیا ہے اور جنوبی غزہ میں خان یونس کے مقام پر بھی حماس کے جنگجو واپس آئے ہیں جہاں ہماری فوج کئی مہینوں تک مصروف عمل رہی تھی، اور حماس کے ہزاروں جنگجو غزہ کے شمال میں موجود ہیں؛ جس پر ہماری فوج نے پوری طاقت سے یلغار کی تھی!

رامون نے لکھا ہے: جس وقت اسرائیلی فوج نے پہلی بار شمالی غزہ میں حماس کی صلاحیتوں کی مکمل تباہی کا دعوی کیا تھا، لیکن ہمارے فوجیوں کو اسی علاقے میں حماس کے شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑا، دوسری مرتبہ کے اعلان کے بعد حماس کے حملوں میں مزید اضافہ ہؤا۔ تیسری مرتبہ جس وقت ہماری فوج جبالیا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی حماس نے پہلے سے بھی زیادہ شدت سے اس کا مقابلہ کرکے ہمارے فوجیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

اس سابق صہیونی وزیر نے لکھا ہے: حماس نے شمالی غزہ سے درجنوں راکٹ اور میزائل داغے ہیں اور حماس ہی غزہ میں امداد کی تقسیم کی نگرانی کر رہی ہے۔ اسرائیلی فوجی ہنوز غزہ کی پٹی میں ہیں اور ان کی رہائی کے لئے فوجی دباؤ بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور ادھر لاکھوں اسرائیلی باشندے فلسطین کے شمال اور جنوب میں اپنے گھروں کو واپس جانے سے انکاری ہیں۔

رامون نے کہا ہے: اسرائیل کو عنقریب ایک تزویراتی شکست کا سامنا ہے، لیکن اس کے باوجود ہماری فوج پٹی ہوئی روشوں کے مطابق اپنی کاروائی جاری رکھے ہوئے ہے اور میدان پر کنٹرول پانے کی کوشش کے بغیر، حملہ کرتی ہے اور پھر پسپا ہوجاتی ہے۔ یہی حکمت عملی رفح اور جنوب میں جاری ہے۔ ایک کھلے علاقے پر حملہ کرتی ہے اور پسپائی اختیار کرتی ہے۔ یہی وہ حکمت عملی ہے جو غزہ اور خان یونس میں ناکام ہو چکی تھی۔

رامون سوال اٹھاتا ہے کہ: اگر دسوں ہزار جنگجوؤں کے مارے جانے سے بھی حماس کمزور نہ ہو، تو مزید کئی ہزار جنگجو مارنے سے اسرائیل اہداف کے حصول کی ضمانت کیونکر فراہم کی جا سکتی ہے؟

اس نے لکھا ہے: وار کونسل اور جوائنٹ اسٹاف کے ارکان سات اکتوبر کے واقعے کے سامنے اپنی سستی اور شکست کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں ہیں اسی وجہ سے اب بھی وہ دھڑلے سے کہہ دیتے ہیں کہ اسرائیل مطلق فتح کے ایک قدم کے فاصلے تک پہنچ چکا ہے حالانکہ آج ہم تزویراتی شکست کے بالکل قریب ہیں۔

مذکورہ وزیر نے تجویز دی کہ اسرائیل امریکہ اور ثالثوں کو اطلاع دے کہ جنگ کے باضابطہ خاتمے کے لئے تیار ہے بشرطے کے تمام اسرائیلی فوجی واپس آجائیں!

دریں اثنا امریکی صدر جو بائیڈن نے کل رات دعوی کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے ایک نیا منصوبہ میز پر ہے؛ پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا اور یہ مرحلہ مکمل جنگ بندی، غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء پر مشتمل ہے۔

بائیڈن کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے لئے تجاویز پیش کی جائیں گی۔

ادھر حماس تحریک نے بھی اپنے بیان کہا ہے کہ وہ بائیڈن کے منصوبے کو مثبت نگاہ سے دیکھتی ہے۔