یمنی میزائلوں کی امریکی “تھاڈ” (THAAD) اور اسرائیلی “آرو” سسٹم پر برتری

 صهیونی ریاست، امریکی "تھاڈ" سسٹم کے استعمال کے باوجود یمنی میزائلوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی، یہ بات صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی سنگین کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہے۔

فاران: صهیونی ریاست، امریکی “تھاڈ” سسٹم کے استعمال کے باوجود یمنی میزائلوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی، یہ بات صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی سنگین کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہے۔

تسنیم نیوز ایجنسی – دفاعی شعبہ:
گزشتہ روز یمن کی مسلح افواج نے “فلسطین 2” بیلسٹک میزائل داغ کر مقبوضہ علاقوں میں تل ابیب کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا۔
دو روز قبل بھی انصار اللہ یمن نے اسی قسم کے ایک اور میزائل کے ذریعے تل ابیب کو نشانہ بنایا تھا۔

ان کارروائیوں کی شائع شدہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمنی میزائل، صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کے میزائل شکن سسٹم کو آسانی سے عبور کر کے اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔

تاہم، ان کارروائیوں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے ایران کی کامیاب “وعدہ صادق 2” کارروائی کے بعد اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے نہ صرف اپنے دفاعی نظام بلکہ امریکی “تھاڈ” سسٹم کو بھی مقبوضہ علاقوں میں تعینات کیا تھا۔
امریکی “تھاڈ” سسٹم کی اسرائیل میں تنصیب اس وقت عمل میں آئی جب خود امریکہ کے پاس ہائپرسونک اور مانور کرنے والے میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مؤثر دفاعی نظام موجود نہیں ہے۔
امریکی کانگریس کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزارت دفاع کو ایسا نظام تیار کرنے میں سال 2034 تک کا وقت لگے گا۔
ویب سائٹ “ڈیفنس نیوز” نے گزشتہ سال ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ امریکی وزارت دفاع نے کانگریس کو آگاہ کیا ہے کہ وہ 2034 سے پہلے ہائپرسونک میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دفاعی نظام تیار کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
ایران اور یمن کی جانب سے کی جانے والی میزائل کارروائیوں اور بعض ڈرون آپریشنز کے تجریے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کے فضائی دفاعی نظام کو سنگین کمزوریوں کا سامنا ہے۔
یہاں تک کہ نیٹو کے رکن ممالک، علاقائی اتحادیوں اور امریکی دفاعی سسٹمز کی مدد بھی اس کمزوری کو دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔
صیہونی حکومت نے 2007 کے بعد اپنے فضائی دفاعی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرتے ہوئے ایک مربوط دفاعی نیٹ ورک تشکیل دیا اور اپنی حکمت عملی کو عرب ممالک کے جنگی طیاروں کے حملوں سے ہٹا کر ایران کے بیلسٹک میزائلوں اور مزاحمتی گروہوں کے راکٹوں کا مقابلہ کرنے پر مرکوز کر دیا تھا۔
اس حکمت عملی کے تحت کئی دفاعی نظام تیار کیے گئے، جن میں سب سے مشہور آئرن ڈوم (گنبدِ آہنی)، فلاخنِ داؤد (غلیل داود) اور پیکان کے نظام شامل ہیں۔

آئرن ڈوم کا نظام اور فلسطینی راکٹوں کا قریبی آئل ریفائنری پر حملہ
آئرن ڈوم کی موجودگی کے باوجود، فلسطینی راکٹ ایک آئل ریفائنری کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے، جو اس دفاعی نظام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں آئرن ڈوم سسٹم، جو مزاحمتی گروہوں کے راکٹوں سے نمٹنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، فلسطینی مزاحمت کے دیسی ساختہ راکٹوں کے خلاف کچھ کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
تاہم، یہ نظام حزب اللہ لبنان کے زیادہ تیز رفتار اور جدید راکٹوں کے خلاف پہلے جیسا مؤثر ثابت نہیں ہوا۔

اسی دوران، پیکان سسٹم کو تین مختلف ورژنز میں بنیادی طور پر بیلسٹک میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن اور تیار کیا گیا۔ فی الحال، آرو 2 اور آرو 3 ورژنز مقبوضہ علاقوں میں فعال ہیں۔
لیکن ایران کی وعدہ صادق آپریشنز اور یمن کی جانب سے داغے گئے فلسطین 2 بیلسٹک میزائلوں کے دوران، پیکان سسٹم ایران اور یمن کے بیلسٹک میزائلوں کا مؤثر دفاع کرنے میں ناکام رہا۔
اسی ناکامی کی وجہ سے اسرائیل نے امریکہ سے مدد طلب کی اور تھاڈ سسٹم کو فعال کرنے پر مجبور ہوا۔
صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی کمزوری کی بنیادی وجہ ایک پرانی خامی ہے۔
33 روزہ جنگ اور اس کے بعد کی جنگوں کے دوران، اسرائیل نے ظاہر کیا کہ وہ دفاعی شعبے میں خطرات سے ہمیشہ ایک قدم پیچھے رہا ہے۔
جب 33 روزہ جنگ میں ان کے بکتر بند گاڑیوں کو بھاری نقصان پہنچا، تب انہوں نے ٹینکوں کے لیے فعال دفاعی نظام تیار کرنے کا سوچا۔
اسی طرح، جب اس جنگ میں راکٹوں اور میزائلوں کے خطرات کا سامنا ہوا، تو انہوں نے اپنے دفاعی نظام میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔

تاہم، صیہونیوں کے نقطۂ نظر سے جو چیز چھپی رہی، وہ ایران اور مزاحمتی محاذ کی جانب سے نئے خطرات پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔
اسی بنیاد پر، صیہونی حکومت کی نئی دفاعی حکمت عملی اور ان کے میزائل شکن نظام کی صلاحیتوں کو سمجھتے ہوئے، اسلامی جمہوریہ ایران اور مزاحمتی محاذ نے نہ صرف ہتھیاروں کے استعمال کی حکمت عملی اور تکنیک میں تبدیلی کی بلکہ میزائل شکن نظام اور دفاعی ڈھالوں کو عبور کرنے کے لیے نئے ہتھیاروں کی ترقی اور تیاری کا عمل شروع کیا۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت پرانے میزائلوں کو سامنے لانے والے وارہیڈز سے لیس کرنا ہے، جس کا پہلی بار پیامبر اعظم(ص) 17 مشق میں انکشاف کیا گیا۔
اس کے بعد، ہائپرسونک رفتار والے مانور کرنے والے وارہیڈز سے لیس میزائلوں کے ڈیزائن اور تیاری کا عمل بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
دوسری جانب، خودکش ڈرونز اور مائیکرو ڈرونز کا استعمال، خاص طور پر زمینی جنگ کے میدان میں اور دشمن کی حکمتِ عملی کے سطحی اہداف کے خلاف، ایران اور مزاحمتی محاذ کی نئی حکمتِ عملی کا ایک اور حصہ رہا ہے۔

یہ حکمتِ عملی نہ صرف مزاحمتی محاذ بلکہ دیگر جنگوں میں بھی کامیابی سے آزمایئ جا چکی ہے۔
آج مائیکرو ڈرونز اور نشانے پر لگنے والے بیلسٹک میزائل، دفاعی نظاموں کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکے ہیں اور بعض اوقات یہ دفاعی نظام خود ان کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔