(روزنامہ کیہان کا اداریہ)
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یوکرین، امریکہ اور روس کے بعد دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت تھا، لیکن امریکہ کی تابعداری کے نتیجے میں، دسمبر 1994 میں معاہدۂ بوداپسٹ پر دستخط کر کے اپنے تمام ایٹمی ہتھیار حوالے کرنے پر آمادہ ہوا۔ اس کے بدلے میں، امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین کی سلامتی اور علاقائی خودمختاری کی ضمانت دی۔ یوکرین نے اپنی ذمہ داری پوری کی، لیکن اس کے بعد سے وہ ایک غیر مستحکم اور کمزور ملک بن کر رہ گیا۔
یوکرین کے معروف سیاستدان یوری کاستنکو نے اپنی کتاب “یوکرین اور جوہری تخفیفِ اسلحہ” میں لکھا:
“ہم سب (یوکرینی) دھوکہ کھا گئے اور بوداپسٹ معاہدے پر تالیاں بجائیں، لہٰذا ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری عوامی خوشی، میڈیا پروپیگنڈے اور تشہیر کے ذریعے انجام دی گئی، لیکن اب ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ایک فاش غلطی تھی۔ یوکرین، عراق کی طرح ایک ایسا ملک بن چکا ہے جس کا نظام بین الاقوامی جارحیت سے تباہ ہوا اور اب داخلی بحرانوں میں ڈوب رہا ہے۔”
امریکہ کا دم چھلا بننا، یوکرین کے لیے تباہی
یوکرینی حکومت کی امریکہ پر بھروسے کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی۔ فروری 2022 میں یوکرین، امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے روس کے ساتھ جنگ میں کود پڑا۔
بین الاقوامی تعلقات کے معروف ماہر جان مرشایمر پہلے ہی خبردار کر چکے تھے:
“یوکرین کی تباہ کن جنگ کی بنیادی وجہ، امریکہ کی نیٹو کو روس کی سرحدوں تک پھیلانے کی کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرینی عوام محض قربانی کے بکرے ہیں، جو ان پالیسیوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔”
سابق امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے اپریل 2022 میں بے شرمی سے اعتراف کیا:
“ہمارا مقصد اس جنگ میں روسی فوج کو ختم کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں یوکرینیوں کی ہلاکتوں کی ضرورت ہے!”
یوکرین: تباہی کی راہ پر گامزن
آج، روس-یوکرین جنگ کو تقریباً تین سال ہو چکے ہیں، اور یوکرین اپنی 20 فیصد زمین کھو چکا ہے۔ یوکرینی حکومت اور عالمی بینک کے مطابق، ملک کی بحالی پر 486 بلین ڈالر لاگت آئے گی، جو 2023 میں یوکرین کی مجموعی ملکی پیداوار سے 2.8 گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، لاکھوں یوکرینی ہلاک، زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زلنسکی سیاست میں آنے سے پہلے ایک کامیڈین اور اداکار تھے۔ انہوں نے صدارت سے قبل کہا تھا:
“میرا مشن دنیا کو ایک بہتر، روشن اور خوشحال جگہ میں تبدیل کرنا ہے۔”
لیکن حقیقت میں، زلنسکی کی امریکہ پر اندھا اعتماد، یوکرین کو جہنم میں بدل چکا ہے۔
امریکہ کا یوکرین سے دھوکہ
معروف امریکی ماہرِ معیشت جیفری ساکس نے حال ہی میں اعتراف کیا:
“روس-یوکرین جنگ کبھی ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔ یہ امریکہ کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ہوئی۔ امریکہ نے جنگ کی بنیاد رکھی اور پھر اپنے اتحادیوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ اگر امریکہ چاہتا تو یہ جنگ روکی جا سکتی تھی، اور لاکھوں یوکرینی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ میں نے سالوں پہلے خبردار کیا تھا کہ یوکرین یورپ کا افغانستان بنے گا، اور آج وہی ہو چکا ہے۔”
کیا امریکہ نقصان کی تلافی کرے گا؟
یوکرینی عوام پر جنگ کے بھیانک اثرات امریکہ پر بھروسہ کرنے کا ایک رخ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ان نقصانات پر معذرت کرے گا یا ان کی تلافی کرے گا؟
ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان اس سوال کا واضح جواب ہے۔ امریکی اور روسی حکام کے درمیان ریاض مذاکرات کے فوراً بعد، ٹرمپ نے زلنسکی پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
“زلنسکی مکمل طور پر نااہل صدر ہے، اور احمقانہ بیانات دیتا ہے۔ اس کی قیادت جنگ کو طول دے رہی ہے۔ ہزاروں یوکرینی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ یوکرین کے کئی شہر غزہ کی طرح ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، جہاں کوئی عمارت سلامت نہیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
“یوکرین میں جمہوریت کا نام و نشان نہیں۔ زلنسکی کی مقبولیت صرف 4 فیصد رہ گئی ہے۔ پورا ملک برباد ہو چکا ہے، بیشتر شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔”
سبق: مغرب پرستوں کے لیے ایک عبرت
یوکرین کا حالیہ انجام ان تمام ممالک کے لیے ایک واضح سبق ہے جو امریکہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یوکرین کی موجودہ تباہی ثابت کرتی ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو استعمال کر کے انہیں بربادی کی راہ پر دھکیل دیتا ہے، اور پھر لاتعلق ہو جاتا ہے۔
یہ سوال ہر اس ملک کے لیے غور طلب ہے جو امریکہ کی تابعداری کو اپنی بقا کا ضامن سمجھتا ہے:
کیا امریکہ پر بھروسہ کرنے کا انجام، یوکرین جیسا ہی ہوگا؟
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو روس کے ساتھ امن معاہدے کے بدلے میں سیکیورٹی ضمانتیں دینے کے عوض یوکرین کے معدنی وسائل سے 50 فیصد آمدنی اور معدنیات کی کان کنی کے اجازت ناموں پر ویٹو کا اختیار مانگا ہے۔
ٹرمپ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یوکرین کو امریکہ کی مالی اور فوجی مدد کے بدلے میں، اپنی وسیع لیکن غیر استعمال شدہ معدنی دولت اور نایاب عناصر تک رسائی دینی چاہیے۔ تاہم، نئے افشا شدہ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ-یوکرین معاہدہ واشنگٹن کو یوکرین کے بندرگاہوں، بنیادی ڈھانچے، تیل اور گیس تک بھی مزید رسائی فراہم کر سکتا ہے۔
یوکرین: معدنی وسائل پر امریکہ کی نظریں
یوکرین کی وزارتِ معیشت کے مطابق، یہ ملک یورپی یونین کی طرف سے شناخت شدہ 34 میں سے 22 اہم معدنیات کے ذخائر رکھتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کے عوام کی تباہی، ہلاکتوں اور بے گھری کے بعد، اب امریکہ اس ملک کے وسائل کی لوٹ مار کے اگلے مرحلے کی تیاری کر رہا ہے۔
یوکرین کے لیے مزید دھوکہ
یوکرین کے لیے امریکہ پر اعتماد کا نقصان یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ٹرمپ نے اپنی حالیہ گفتگو میں کہا:
“میں سن رہا ہوں کہ وہ (یوکرینی حکومت) مذاکرات میں شامل نہ ہونے پر ناراض ہیں… حتیٰ کہ ایک ناتجربہ کار مذاکرات کار بھی برسوں پہلے بغیر زیادہ زمین کھوئے معاہدہ کر سکتا تھا… آج میں نے سنا کہ، ‘اوہ، ہمیں دعوت نہیں دی گئی۔’ اچھا تو آپ تین سال سے وہاں ہیں… یہ کبھی شروع ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آپ معاہدہ کر سکتے تھے!”
جی ہاں، امریکی اور روسی حکام کے درمیان یوکرین جنگ پر مذاکرات ریاض میں ہوئے، مگر یوکرین کو ان مذاکرات میں شامل ہونے کی اجازت تک نہ ملی۔
ایک اپوزیشن میڈیا ایکٹیوسٹ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
“اگر کوئی خود کو ایک یوکرینی کے طور پر سوچے، تو یہ منظر ناقابلِ یقین حد تک خوفناک اور تکلیف دہ ہے… دو غیر ملکی طاقتیں آپ کی غیر موجودگی میں بیٹھ کر آپ کے ملک کے مستقبل اور اس کی علاقائی سالمیت پر بات چیت کر رہی ہیں اور فیصلے کر رہی ہیں!”
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکہ نے نہ صرف یورپ کو نظرانداز کیا بلکہ ریاض میں ہونے والے مذاکرات میں یورپی فریق کے لیے ایک “کرسی” تک کی اہمیت نہیں دی۔
یوکرین کے صدر نے وعدہ کیا تھا کہ “میرا نعرہ دنیا کو بہتر بنانا ہے؛ ایک روشن تر اور خوشحال دنیا، جو ہمارے تمام دستیاب وسائل کے ذریعے حاصل کی جائے گی”۔ لیکن دنیا تو دور کی بات ہے، زلنسکی اپنے وطن یوکرین کو بھی بہتر نہیں بنا سکے۔ جنگ زدہ اور تباہ حال یوکرین، جس کا ایک پانچواں حصہ ضائع ہو چکا ہے، اب امریکہ کے لیے ایک آسان شکار بن چکا ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اس کے قدرتی وسائل کو لوٹ سکے اور اس کے ذریعے اپنے استعماری مفادات کو پورا کرے۔
یہ ایک الہٰی سنت ہے کہ جو شخص شیطان کی فرمانبرداری کرتا ہے، شیطان اسے ذلیل کر دیتا ہے اور تاریخ کے لیے عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔ خداوند تعالی سورۃ الفرقان کی آیت 29 میں فرماتے ہیں: “وَکَانَ الشَّیطانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا؛ اور شیطان ہمیشہ انسان کو ذلیل کرنے والا رہا ہے۔”
اس سب کے باوجود، یوکرین کے موجودہ صدر اور سابق سلیبرٹی اس ملک میں اصلاحات کے دعوے کرنے والی طاقتوں اور مغرب نواز حلقوں میں مقبول شخصیات میں شامل ہیں۔ اصلاحات کے دعویداروں نے اس اوکرائنی جوکر کی تصویر بڑی شان سے اخبارات کی پہلی صفحوں پر چھاپی اور اسے “میدان میں صدر” کے طور پر پیش کیا۔ مغرب نواز طبقات کا ایک اہم کام یہ ہے کہ وہ مغرب سے وابستہ افراد کو ہیرو بناتے ہیں۔
مغرب نواز طبقے کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ “دنیا کی زبان” نہیں جانتے۔ اگر ہمیں “دنیا کی زبان” سیکھنی ہے، تو یوکرین کا معاملہ اس حوالے سے ایک بڑا سبق ہے۔ یوکرین کی موجودہ حالت یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ “اقتدار عزت لاتا ہے”، اور اگر ہم اس اہم عنصر کو اختیار نہیں کرتے اور “عدم فعالیت، خود کو کمتر سمجھنے” اور “امریکہ کی حکومت سے خوش ہونے” کی کوشش کرتے ہیں، تو اس کے سوا کچھ نہیں ملے گا سوائے جنگ، تباہی، ذلت اور لوٹ مار کے۔ امریکہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اتحادی بھی اس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ مایک پومپیو نے ایک بار کہا تھا: “جب میں سی آئی اے کا سربراہ تھا، ہم وہاں جھوٹ بولتے، دھوکہ دہی کرتے، اور چوری بھی کرتے تھے۔ سی آئی اے میں جھوٹ، دھوکہ دہی اور چوری کے لیے کلاسز منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ سب امریکی تجربے کی شان و شوکت کی یاد دلاتا ہے۔”
مسعود اکبری
تبصرہ کریں