یہودیوں کی فلسطینی مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت گری کا ایک نمونہ

یہ تو محض افراطی یہودیوں کی فلسطینی مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت گری کا ایک نمونہ ہے کہ جنکا خانہ و کاشانہ یہودیوں کی نفرت کا شکار ہو گیا ۔

فاران؛ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ ء اس دور کے اسرائیلی وزیر اعظم « شارون»کے خاصی تعداد میں فوج کی بھاری نفری کے ساتھ مسجد الاقصی میں داخلہ کے بعد دوسرا انتفاضہ جسے “انتفاضہ اقصی” کے نام سے جانا گیا بھڑک اٹھا ، اور ۲۰۰۲ ء میں کچھ فلسطینیوں نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئیے شہادت طلبانہ آپریشن کئیے ، اور جب یہ تحریک آگے بڑھی تو واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے ممتاز استاد « ناتھن لوین » نے اعلان کیا کہ فلسطینیوں کے اس شہادت طلبانہ اقدام کو روکنے کے لئیے ضروری ہے کہ انکے گھر والوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے ۔
ناتھن ایک یہودی اخبار «فاروارڈ »کو اپنے دئیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہتا ہے : غیر فوجی عام فلسطینیوں کے قتل کی پالیسی، خودکش ( شہادت طلب ) حملوں کے مقابل ضروری انتباہ کو فراہم کرتی ہے !! لوین اس سلسلہ میں اپنی کہی بات کو تلمودی نظر شمعا کے طور پر پیش کرتا ہے یعنی یہ وہ بات ہے جو اس سے قبل شمعا میں بیان ہو چکی ہے ۔یہ وہ نظریہ ہے جو کہتا ہے :وہ قوم جسکے شہری مارے جاتے ہیں یا معذور ہو جاتے ہیں انکے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک با مقصد ٹرر کے ذریعہ یا دیگر وسائل کی بنیاد پر اس بات پر مختار و آزاد ہوں کہ خودکش بمبار ( شہادت طلب ) کے پہلے درجہ کے رشتہ داروں جو کہ والدین ، بھائیوں اور بہنوں کو شامل ہے کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔
یونیورسٹی کے اس استاد کو یہ یاد دہانی کرائی جائے کہ ۲۵ فروری ۲۰۰۲ ء میں “میریام گلداشتاین” نامی ایک یہودی ہپرون کی ایک مسجد میں داخل ہوتا ہے اور ۴۰ فلسطینیوں کو نماز کی حالت میں شہید کر دیتا ہے جبکہ اس کی ماں اپنے بیٹے کے اس عمل کی تحسین و تمجیدکرتی ہے اور اس پر افتخار کرتی ہے ۔ ان سب چیزوں کے باوجود ، کیا آپکی منطق یہ کہتی ہے کہ ایسا اقدام کرنے والے میریام کے گھر والوں کو فورا موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے یا خود میریام کو فورا پھانسی پر چڑھا دینا چاہیے ؟
یہ تو محض افراطی یہودیوں کی فلسطینی مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت گری کا ایک نمونہ ہے کہ جنکا خانہ و کاشانہ یہودیوں کی نفرت کا شکار ہو گیا ۔
ناتھن لوین صاحب کے اس مذکورہ بالا واقعہ کے پیش نظر ضروری ہے کہ آپ اس قوم کے بارے میں جو اپنے حق اور اپنی سر زمین کا دفاع کر رہی ہے ایک نظر ثانی کریں اور ایسے نفسیاتی اقدامات سے پرہیز کریں جو یہودی جوانوں کے ذہنوں کو اکسانے کا سبب ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ، ٹرر و دہشت گردی اور بے گناہ لوگوں کے خلاف خودکش حملے حرام ہیں لیکن اپنے گھر اور اپنی سرزمین سے دراندازوں کے مقابل دفاع کی خاطر وہ شخص اسلام کی نظر میں بھی دیگر مکاتب فکر و آئین کی طرح آزاد ہے جس پر دشمن کی یلغار ہو اور وہ دفاع کر رہا ہو ، بلکہ ایسی صورت میں اپنے گھر و سرزمین کا دفاع بھی ایک جوانمردانہ قدم شمار ہوتا ہے۔