ابوظہبی تل ابیب کا حامی کیوں؟

اماراتی حکمرانوں کی سوچ میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ اسلامی دنیا کے مفادات یا جیوپولیٹیکل ایشوز نہیں ہیں، بلکہ وہ علاقائی اور عالمی طاقتوں سے متعلق اپنے مفادات کے زیادہ سے زیادہ تحفظ کے درپے ہیں۔

فاران: تقریباً چار سال پہلے، متحدہ عرب امارات نے بحرین سے مل کر غاصب صیہونی رژیم سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے تھے۔ اس وقت اکثر تجزیہ کار سمجھتے تھے کہ ابراہیم معاہدہ، ابوظہبی اور تل ابیب میں پہلے سے موجود تعلقات کو منظرعام پر لانے کا ایک بہانہ ہے۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران متحدہ عرب امارات کے حکمران اقتصادی ترقی اور خطے میں تجارتی مرکز بن جانے کے درپے تھے۔ لہذا انہوں نے خطے کے ممالک کی جانب سے اپنائی گئی روایتی ریڈ لائنز کو چھوڑ کر عالمی سطح پر وسیع تجارت کیلئے غاصب صیہونی رژیم سے اسٹریٹجک تعلقات بڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے روز طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ابراہیم معاہدے میں شامل کئی ممالک سمیت اکثر اسلامی ممالک نے غاصب صیہونی رژیم سے اقتصادی تعلقات معطل کر دیے یا ان کی سطح کم کر دی۔

لیکن متحدہ عرب امارات کے فرمانروا محمد بن زید آل نہیان نے مختلف راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ متحدہ عرب امارات اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کے دو بنیادی محور سکیورٹی اور تجارتی تعاون ہیں۔ متحدہ امارات خلیج فارس جیسے اہم سمندری راستے میں قرار پانے کی وجہ سے سمندری تجارت اور دو براعظموں، ایشیا اور یورپ میں رابطے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور غاصب صیہونی رژیم اسٹریٹجک جیوپولیٹیکل پوزیشن کے باعث بڑی طاقتوں جیسے امریکہ، چین اور انڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ تینوں طاقتیں جبل علی، حیفا یا اشدود کی بندرگاہوں پر طویل المیعاد مراعات کے درپے ہیں۔ ابراہیم معاہدے کے بعد ابوظہبی اور تل ابیب، مغربی ایشیا میں مغربی ممالک کے پراجیکٹس کا حصہ بن گئے ہیں۔

غذائی سلامتی کی راہداری I2U2، آیمیک اور دوبئی – حیفا زمینی راہداری، متحدہ عرب امارات اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان تعاون کے چند نمونے ہیں جن کا مقصد عالمی منڈیوں میں صیہونی رژیم کی پوزیشن برقرار رکھنا ہے۔ اسی بنیاد پر ابوظہبی اور تل ابیب میں اسٹریٹجک تعلقات جاری رہنے کی ایک اہم وجہ راہداریوں پر مبنی پراجیکٹس میں دونوں ممالک کے مفادات کا آپس میں جڑا ہونا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے درمیان آزادانہ تجارت کا معاہدہ طے پا جانے کے بعد دونوں طرف سے ٹیکس یا تو مکمل طور پر ختم کر دیے گئے یا 96 فیصد کم کر دیے گئے جس کے نتیجے میں ان کی دوطرفہ تجارت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ عرب نیوز کے مطابق 2022ء میں ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان انجام پانے والی تجارت دو گنا بڑھ کر 2.56 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک جا پہنچی تھی۔

متحدہ عرب امارات میں صیہونی سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2021ء میں دوطرفہ تجارت صرف 1.22 ارب ڈالر تھی۔ 2022ء میں صیہونی رژیم کی جانب سے ابوظہبی برآمد ہونے والی اشیاء میں ہیرے (493 ملین ڈالر)، فضائی مصنوعات (34.3 ملین ڈالر) اور بیٹریاں (30.3 ملین ڈالر) شامل تھیں۔ جبکہ ابوظہبی سے تل ابیب برآمد ہونے والی اشیاء میں ہیرے (535 ملین ڈالر)، فولادی اینٹیں (3.1 ملین ڈالر) اور گندم (104 ملین ڈالر) شامل تھیں۔ متحدہ عرب امارات اور غاصب صیہونی رژیم نے دوطرفہ تجارت کیلئے 2027ء تک 10 ارب ڈالر کا ٹارگٹ اعلان کر رکھا ہے۔ دونوں کے درمیان تعلقات کا ایک اور پہلو مشترکہ سرمایہ کاری ہے۔ مثال کے طور پر 2020ء میں دونوں کے اسٹیٹ بینکس کے درمیان کئی باہمی معاہدے طے پائے تھے۔

مزید برآں، دوبئی کے سب سے بڑے بینک اور بوعلیم نامی صیہونی بینک کے درمیان معاہدہ دوطرفہ سرمایہ کاری میں درپیش خطرات کم ہو جانے اور پیسے کی منتقلی میں آسانی کا باعث بنا۔ دسمبر 2021ء میں 1 ارب ڈالر مالیت کے تامار گیس فیلڈ کے 22 فیصد حصص کی خریداری بھی دونوں کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات ظاہر کرتی ہے۔ مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے متحدہ عرب امارات نے حتی غزہ میں جنگ شروع ہونے اور صیہونی رژیم اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں تناو بڑھ جانے کے باوجود اسرائیل سے تجارتی تعلقات کی سطح کم نہیں کی۔ اسی طرح گذشتہ ایک عشرے میں اماراتی حکام نے ایران، قطر اور ترکی کا مقابلہ کرنے کیلئے فوجی، سکیورٹی اور میڈیا شعبوں میں وسیع سرمایہ کاری انجام دی ہے۔ اب وہ خلیج فارس خطے میں صیہونی رژیم کی سکیورٹی فورسز اور جاسوس کمپنیوں کو لا کر اپنی سلامتی مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔

اماراتی حکمرانوں کی سوچ میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ اسلامی دنیا کے مفادات یا جیوپولیٹیکل ایشوز نہیں ہیں، بلکہ وہ علاقائی اور عالمی طاقتوں سے متعلق اپنے مفادات کے زیادہ سے زیادہ تحفظ کے درپے ہیں۔ اسی وجہ سے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، فلسطینیوں کو بھوک کا شکار کر دینا اور غزہ میں صحت کے مراکز مسمار کر دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اماراتی حکمران محدود پیمانے پر انسانی امداد یا عارضی جنگ بندی کیلئے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں سفارتی سرگرمیاں انجام دے کر عالمی میڈیا میں اپنا امن پسند چہرہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے غاصب صیہونی رژیم سے جاری اپنے تجارتی تعاون پر پردہ ڈالنے کیلئے بہت پیسہ خرچ کیا ہے لیکن دوسری طرف دوبئی – حیفا راہداری کے قیام اور دیگر اقدامات کے باعث دنیا والے متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کے اتحادیوں میں شمار کرتے ہیں۔