ادیان و مذاہب کے درمیان مثبت اور تعمیری تعامل کی ضرورت: آیت الله اعرافی؛ سربراہ حوزہ ہائے علمیہ ایران
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہمارا ماننا ہے کہ سیاسی اور سماجی نظام صرف مختلف ثقافتوں پر مبنی نہیں بلکہ ان مشترکہ ذرائع پر مبنی ہے جن کے گرد مختلف ثقافتیں متحد ہو سکتی ہیں۔ اس منطق پر مبنی گفتگو پوری دنیا کو شامل ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ گہری اور اصیل انسانی منطق پر مبنی ہے اور اس میں فلسفۂ انسانی، قانونی نظام، فقہ اور مشترکہ اخلاقی نظام سب شامل ہیں۔ انسان کو ابھی بھی عقلی، انسانی اور فلسفیانہ اصولوں پر مبنی ان مکالموں تک پہنچنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
عالمی تہذیب کی نجات کے لیے مثبت اور تعمیری تعامل کا ہونا شرط ہے
[قُلْ یَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّااللَّهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَیْئًا وَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِاللَّهِ] (آلعمران: 64)
مذاہب کے درمیان تعامل اور مکالمہ عصر حاضر میں انسانی اور مذہبی معاشروں کی سب سے اہم اور عملی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ لوگوں کے درمیان وسیع رابطے اور ایک دوسرے کے ساتھ انسانی تعامل کے ساتھ ساتھ پرامن بقائے باہمی، آج کی دنیا میں انسانی اور بشری مقاصد کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی پیچیدگیاں ہیں، مذاہب کے درمیان مثبت اور تعمیری تعامل عالمی تہذیب کو بچانے اور انسانی معاشروں کے درمیان قربت پیدا کرنے کے لیے سب سے اہم خصوصیت اور شرط کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تمام مناسبات و موضوعات کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
مذاہب کے درمیان باہمی تعامل کے اجتماعی امور کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے پر بھی زبردست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مذاہب کے درمیان موجود مشترکہ اقدار انسانی ضروریات کو آسانی سے پورا کر سکتی ہیں۔ مذاہب کا تنوع اور کثرت؛ انسانی معاشرے کے لیے اور ان مذاہب کے درمیان مکالمے اور ان کی کامیابیوں کی منتقلی کے ذریعے انسانی معاشرے کی تفہیم اور نقطہ نظر کو مزید عمیق اور بہتر طریقہ سے سمجھنے اور پرکھنے کا ایک اہم موقع ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں ثقافت، شناخت اور سنّت؛ ان تین اقسام کا ایک ناقابل تردید اور ناقابل تلافی کردار ہے۔ ہماری دنیا میں کسی بھی تبدیلی کی اصل اور جڑ ثقافت اور شناخت میں تبدیلی ہے۔ اس دوران عالمی شناخت کا ایک اہم حصہ ’’مذاہب‘‘ نے تشکیل دیا ہے۔ بلاشبہ ہم جن انسانی اقدار کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ان کی جڑیں دنیا کی متعدد روحانی اور مذہبی روایات میں پیوست ہیں۔ اس لیے یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مذہب انسانی زندگی اور طرز زندگی میں ایک ناقابل تلافی کردار ادا کرتا ہے۔ انبیاء اور رسل میں سے ہر ایک کو رسالت پر مبعوث کیا گیا تھا، انہوں نے ایک توحیدی طرز زندگی پیدا کرنے، انسانیت کے ڈھانچہ میں الفت و محبت کی روح پھونکیں اور اپنے معاشرے اور اس کی ضروریات کے مطابق اپنے پیروکاروں کو ایک دوسرے سے پیار و محبت کا حکم دیں تاکہ وہ اس طرح ایک متحد معاشرہ کی تشکیل اور ان کے درمیان ہم آہنگی کے لئے قدم اٹھائیں۔
قرآن کریم کے نقطۂ نظر سے مذاہب کا پرامن بقائے باہمی
اسلام اور قرآن تمام انبیاء کو ایک متواتر اور منسلک سلسلہ قرار دیتے ہیں اور آسمانی کتابوں اور صحیفوں کو بھی ایک مکمل نظام مانتے ہوئے آسمانی مذاہب کو طولِ تاریخ میں اور ایک ارتقائی عمل کے ساتھ براہ راست الہی راستے کے طور پر جانچتے ہیں۔(۱) قرآن کریم میں خداوندِ متعال نے تاریخ میں ایک واحد توحیدی محاذ کا حوالہ دیا ہے اور الہی انبیاء اس راہ کے راہنما اور علمبردار کے طور پر شمار ہوتے ہیں۔(۲) اور ہزاروں انبیاء میں سے تقریباً تیس انبیاء کا نام تعریف و تمجید کے ساتھ لیا گیا ہے۔ تمام آسمانی مذاہب کا ہدف انسانی خوشی اور سعادت اور انسان کی دنیا و آخرت میں نجات ہے۔ آسمانی رسالتوں کی روح اور بنیاد، توحید پر یقین، جہانِ غیب اور انبیاءِ الہی اور اعلیٰ الہی اور انسانی اخلاق کا اہتمام ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے نزدیک دنیا اور آخرت میں انسانی زندگی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے اور اس دنیا میں انسانی زندگی ایک دوسری دنیا کا مقدمہ اور پیش خیمہ ہے۔ آسمانی مذاہب نے اس دنیا میں انسانی سعادت کے عمومی خطوط بھی کھینچے ہیں۔ اولوالعزم پیغمبر (ع)، تاریخِ پیغمبران کے اہم موڑ اور بلندی کی چوٹیاں، آفاقی قوانین اور آسمانی کتابوں کے مالکون کے درمیان بہت سارے مشترکات موجود ہیں۔ مذاہبِ ابراہیمی بالخصوص اسلام اور عیسائیت میں بہت سی مماثلتیں اور مشترکات پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نےبھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان قریبی اور مہربان بندھنوں پر تاکید کی ہے اور اس عظیم مذہب کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پیروکاروں کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے کی سفارش کرتا ہے۔(۳)
مختلف مذاہب کے ساتھ پیغمبر (ص) اور ائمہ (ع) کا برتاؤ
پوری تاریخ میں معاشرے میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے میں انبیاء علیہم السلام کا کردار ناقابل تردید رہا ہے۔ انبیاء میں سے ہر ایک نے ان تعالیم اور بہت سی دوسری تعلیمات کی مدد سے انسانی معاشرے کے ایک بڑے حصے میں اتحاد و وحدت کو ایجاد کیا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے بعد ان کے اوصیاء اور علمائے کرام نے انسانیت کی رسالت اور رہنمائی کے سلسلے میں ایک اہم کردار ہے اور انہیں اپنے تعلیمی- فروغی، تربیتی- اخلاقی اور معاشرتی فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنا چاہئے۔ حوزہ علمیہ کے فکری تعہدات جو کہ جو اجتہاد اور تفکر اور عقلی-فلسفی سوچ پر مبنی ہیں، نظریات اور مکاتب فکر کے درمیان علمی بحث کے اصول اور مذاہب اور فرقوں کے درمیان گہرے علمی مکالمے اور گمراہ کن تعصبات اور انتہا پسندی سے بچنے پر تاکید ہوئی ہے اور موجودہ دور میں کسی بھی زمانے سے زیادہ اس کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات اور تاریخ اسلام بالخصوص ائمہ معصومین علیہم السلام کا دور مختلف مذاہب کے ساتھ ارتباط کی صورت میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ خاص کر امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں اسلامی دنیا کی سرحدوں کی توسیع کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کے درمیان روابط اور ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان تعامل میں کافی وسعت آئی اور عیسائیت اور یہودیت کے ساتھ ساتھ روم، ایران، مصر، ہندوستان اور چین کی تہذیبوں کے نظریات بھی آہستہ آہستہ اسلامی دنیا میں داخل ہوئے۔
اس دور میں مسلمانوں کو غیر اسلامی نظریات میں منضم ہونے سے بچانے کے لیے امت مسلمہ کے حقیقی رہنماؤں نے خالص علم الہی کے تصور کو صحیح طور پر پیش کیا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے ثقافتوں، تہذیبوں اور نظریات کے تصادم کی انتہا کے دور میں زندگی بسر کی۔ اگر ہم امام رضا علیہ السلام کی خصوصا مرو میں گفتگو کا حوالہ دیں تو اس عرصہ کے دوران ہم واضح طور پر دوسرے مذاہب کے ساتھ ان کی وسیع سرگرمیوں کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
امام علیہ السلام انتہائی جذاب اور مثالی روش کے ساتھ خالص مذہبی تعلیمات کو پیش کیا کرتے اور انہوں نے ہمیشہ دوسرے مذاہب اور دیگر اسلامی فرقوں کے ساتھ حتی شیعہ انحرافی واقفیہ فرقہ کے ساتھ برتاؤ میں بھی مکالمے اور تعامل کا ایک پرکشش نمونہ پیش کیا اور مختلف مذاہب کے لوگوں ساتھ گفتگو کی روش اور میل جول میں انتہائی خوبصورتی کا مظاہرہ پیش کیا۔
دوسرے مذاہب کے ساتھ تعامل کے دوران حقارت آمیز جدیدیت کا رویہ اور عقلیت پسندانہ نقطۂ نظر پر تنقید
اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات میں گذشتہ انسانوں اور دین سے ماقبل اصولوں کا ایک مجموعہ شامل ہے یعنی جسے مستقلات عقلیہ اور مشترکہ عقلی اور فلسفیانہ تصورات سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ جو ایک ہی وقت میں نسبی گرائی مطلق کے تصور کو قبول نہیں کرتے کیونکہ نسبی گرائی مطلق کو قبول کرنے سے درست تفاہم کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔ نسبی گرائی مطلق خاص طور پر حقارت آمیز جدیدیت پر مبنی نسبی گرائی کوئی ایک مضبوط اور قابل قبول عقلی اور فلسفیانہ منطق نہیں رکھتی ہے۔ حقارت آمیز جدیدیت نسبت گرائی کی منطق پر انحصار کرتی ہے اور ایک ایسا زمرہ ہے کہ جو مکالمے کو مصلحت آمیز اور گہرا بناتا ہے۔ لیکن عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں پر مبنی منطق میں مکالمہ عقلی اور انسانی مشترکات پر انجام پاتا ہے اور بہت عمیق ہوتا ہے۔
مذہبی اور عقلانی مکالمے میں موجود ادیانِ الہی حقوق اور اخلاقیات کا ایک مشترکہ فلسفہ رکھتے ہیں جو مذہبی مکالمے کے لیے ایک امکان اور ایک اعلی درجے کی سطح فراہم کرتا ہے۔ یقیناً مشترکات کی سطح آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور ہم دینی، انسانی اور مذہبی مکالمے کو ہر سطح پر ایک بابنیاد اور حقیقت پر مبنی امر کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ سیاسی اور سماجی نظام صرف مختلف ثقافتوں پر مبنی نہیں ہیں بلکہ ان مشترکہ ذرائع پر مبنی ہیں جن کے گرد مختلف ثقافتیں متحد ہو سکتی ہیں۔ اس منطق پر مبنی مکالمے میں پوری دنیا شامل ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ گہری اور اصل انسانی منطق پر مبنی ہے اور اس میں انسانی فلسفہ، قانونی نظام، فقہ اور مشترکہ اخلاقی نظام دونوں شامل ہیں۔ انسان کو ابھی بھی عقلی، انسانی اور فلسفیانہ اصولوں پر مبنی ان مکالموں تک پہنچنے کے لیے اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب اور فرقے ایک منظم عقلانیت پر مبنی ہیں جن کے یقین کا محور دنیا اور معاشرہ ہے۔ مذاہب کا مجموعہ حتیٰ کہ انسانی اور غیر ابراہیمی مذاہب، انسانی مناسبات کے جہان ہستی اور اپنی ذات سے درست ادراک کا تقاضا کرتے ہیں اور کم از کم عقلانی اور عقلائی معیار کے دائرے میں رہتے ہوئے ہستی اور انسان کی صحیح اور حقیقت پسندانہ تشریح فراہم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
درحقیقت تمام مذاہب نے عقلانیت کے دائرے میں اپنے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے جس کے اثرات انسانی زندگی کو بامقصد بناتے ہیں اور اسے عملی طور پر بہتر کرتے ہیں۔ اس کے مطابق دین کو انسانی عقلانیت سے مرتبط اور متصل سمجھا جانا چاہئے۔ مثال کے طور پر انسانی عقلانیت کی ایک قسم جو مستقلات عقلانی کی صورت میں وجود میں آئی ہے، انصاف اور مساوات ہے۔ کیونکہ عقل انصاف کے حسن ہونے اور ظلم کے قبیح ہونے کا حکم کرتی ہے اور اسی تناظر میں انسانی عقلانیت حسنِ صلح اور تجاوز، خونریزی اور جنگ کے قبیح اور بدصورت ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام مذاہب اور فرقے انصاف اور صلح کے محور پر قائم ہوئے ہیں اور اسی فریم ورک میں معاشرے کو ہدایت اور رہنمائی کرتے ہیں۔ یقیناً یہی عقلانیت حکم دیتی ہے کہ انسان ظلم کا مخالف ہو اور مظلوم کا دفاع کرے۔ اس لیے تمام مذاہب میں انصاف کی فراہمی، صلح و امن کا حصول اور ظلم و جبر کی مذمت کی تائید اور تاکید کی گئی ہے۔ مذاہب کے درمیان صلح و امن کے بغیر کسی بھی قسم کی صلح، امن اور سکون ممکن نہیں ہوتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی اور غیر الہی مذاہب بھی ایک قسم کی عقلی اور طرز عمل کی جامعیت سے مستفید ہوتے ہیں جو ان کی عقلانیت کے اندر پوشیدہ ہے۔ کیونکہ تمام مذاہب انسانوں کے ساتھ مربوط ہیں کہ جو انسانی عقلانیت سے یا اس سے بڑھ کر پورے جہانِ ہستی کے عقل سے بہرہ مند ہیں۔ یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست رابطہ میں ہیں۔ اس وجہ سے ان سب میں ایک “کَلِمَةٍ سَوَاءٍ” موجود ہے جس کی اصل اور بنیاد عقلانی ہے اور مذاہب کی یہی بنیادِ عقلانی ہی ہمیں وحدت و تقریب، گفتگو اور بنیادی انسانی اصولوں کو قبول کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔
مذاہب اور فرقوں کا تعامل گہری اور عمیق منطق پر مبنی ہے نہ کہ تعارف اور اضطرار پر
ایک اور واقعیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مذاہب کا باہمی تعامل تعارف اور اضطرار پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ ایک گہری اور عمیق منطق پر مبنی ہے۔ آج کی دنیا میں موجود مذاہب اور فرقے فلسفہ، قانون، اقدار اور فقہ کے شعبوں میں مشترکہ اصولوں کی بنیاد پر دنیا میں ایک مشترکہ محاذ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس واقعیت کے ساتھ ساتھ انسانیت نے ہمیشہ انسانوں کی مساوات اور انصاف پر مبنی محبت، روحانیت، انصاف اور امن کے جذبے کو بحال کرنے کی ضرورت جیسے مسائل کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔ ان کی سیاسی نوعیت سے قطع نظر، یہ مسائل سب سے پہلے تو مذہبی نوعیت کے ہیں اور مذاہب ان کی وضاحت اور ادراک میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ کہ انصاف پر مبنی صلح و امن کو کیسے قائم کیا جائے، انسانی حقوق کا احترام کیسے کیا جائے، یا انسانی معاشروں کو اپنے باہمی تعلقات کے فرائض، ذمہ داریوں، تعہدات اور باہمی حقوق کی بنیاد پر کیسے قائم کرنا چاہئے وغیرہ، ان مسائل میں سے ہیں جن کے بارے میں مذاہب کو سوچنا چاہئے اور اپنے اصول، معیارات اور تجربات کا تبادلہ کرنا چاہئے اور معاشرے کی رہنمائی کرنی چاہئے۔
اس لحاظ سے آج کی دنیا کو مختلف ادیان و مذاہب کے درمیان مکالمے کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام اور مسلم دانشمندوں نے ہمیشہ انسانوں کے درمیان حکیمانہ اور عقلمندانہ تعامل اور الہی مذاہب کے درمیان رابطہ اور ان کے مقدسات کے احترام پر زور دیا ہے۔ اگر تمام انسانی مذاہب اور ان کے قوانین یکجا ہو جائیں اور وہ عقلی اصول کی پابندی کریں تو وہ انسانوں کو “سعادت و خوشبختی” کی طرف دعوت دیں گے کہ جس کے بنیادی عناصر اور اجزاء “امن اور سکون” ہیں۔ اس لیے جب بھی مفکرین اور مذہبی اسکالرز مکالمے میں مشغول ہوتے ہیں تو وہ “کَلِمَةٍ سَوَاءٍ” کے مطابق حکم دیتے ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی تفرقہ یا اختلاف نہیں ہوتا ہے۔
الہی مذاہب اور فرقوں کے درمیان تعامل اور مکالمے کی ضرورت
بین المذاہبی مکالمہ پچھلی دو دہائیوں میں مذہبی مفکرین اور دانشمندوں کے اہم ترین سوالات اور خدشات میں سے ایک رہا ہے اور یہ اصلِ مکالمے کے ضرورت کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ سے نہیں بلکہ الزامات کے شفاف ہونے، بین المذاہب مکالمہ کی ضرورت اور فوائد کو واضح کرنے کے لیے مطرح کیا گیا ہے۔ معرفت شناختی، ہستی شناختی، دین شناختی، توہم کو رفع کرنا اور متعدد باہمی تعامل کے حامی افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے جنہوں نے آج کی دنیا میں بین المذاہب مکالمے کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بین المذاہب مکالمے کے ذریعہ ہی دوسرے مذاہب کی تعلیمات کا واضح اور درست فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے۔ بہت سی عقلی اور فکری غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں اور اعتقاد، قدر اور رویے کی ہم آہنگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
حوزاتِ علمیہ اس وقت اپنا تاریخی اور مرکزی کردار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں جب وہ دنیا کے موجودہ اور مستقبل کے حالات اور دنیا کے لوگوں کی ضروریات کو اچھے طریقے سے سمجھیں اور متعلقہ اداروں کی انفرادی اور اجتماعی تحریکوں کے تسلسل میں جامع اور حسابی طریقے سے اپنے تربیت یافتہ افراد کو حقیقی اور معروضی دنیا سے آشنا کرنے کے لیے اقدام کریں۔
یہ حوزہ اپنے سامعین سے اس وقت مخاطب ہو سکتا ہے جب وہ ان کی زبان، ادبیات، طرز تفکر، تشویش، مسائل اور مشکلات سے واقف ہو۔ حوزہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا مخاطب کیسے سوچتا ہے اور وہ اس سے کیا توقعات رکھتا ہے۔
یہ عظیم مشن صحیح معنوں میں اس وقت ہی پورا ہو گا جب ان مخاطبین کی تاریخ اور جغرافیہ کا صحیح اوزار، صحیح طریقہ، اصولی طریقوں اور موثر قوتوں کے ساتھ مطالعہ اور اس کی بررسی کی جائے اور پیغام کے تمام موثر آلات، عمل اور پیغام کے محتوا پر غورو فکر کیا جائے۔ مختلف بین الاقوامی میدانوں میں علمی اور ثقافتی سرگرمی کے لیے حوزوی افراد کی موجودگی ان کے علم اور بصیرت کی سطح کو بہتر بنانے اور اسے فروغ دینے کے علاوہ ممکن نہیں ہو گی۔
مذاہب اور فرقوں کے درمیان وحدت و تقریب اور تعامل میں چند نظریے موجود ہیں:
پہلے نظریہ میں، کچھ لوگ دینِ واحد کے حصول کے لیے مذاہب اور فرقوں کو ادغام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس نظریہ کے مخالف ہیں کیونکہ یہ فلسفیانہ طور پر بھی ناممکن ہے اور خارجی حقائق سے بھی مطابقت نہیں رکھتا اور کبھی بھی متحقق نہیں ہو سکتا۔
دوسرا نظریہ کسی مخصوص مذہب کے بغیر دین و مذہب کا وجود ہے کہ جو آج مغرب میں بھی مطرح کیا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق ہمیں مذاہب کے تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر صرف مشترکات پر توجہ دینا ہو گی کہ جو ایک ناممکن خیال ہے۔
تیسرا نظریہ تکثیریت (pluralism) ہے اور یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ تمام مذاہب درست ہیں۔ یہ نظریہ بھی فلسفیانہ طور پر بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ تمام آراء کو درست نہیں سمجھا جا سکتا۔
مسلمان اور اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار چوتھے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں۔ اس نظریہ میں، ہم تمام مذاہب کی مشترکات کا احترام اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے سوا ہر کوئی کافر ہے اور موت کا مستحق ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مقابل قتل و کشتار کی تلوار نہیں اٹھانی چاہئے اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ “ہمارے سوا ہر کوئی جہنم میں جائے گا” لیکن اختلافی نکات پر “بات چیت” کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
آج اسلامی دنیا کو اعتقادی-فکری، اخلاقی اور اقداری نظام کی تباہی، مسلمانوں اور مستکبروں کی جنگ کو شیعہ-سنی جنگ میں تبدیل کرنے، قوم پرستی کا احیاء، اسلامی ممالک کی تقسیم، اسلامو فوبیا، شیعہ فوبیا اور ایران فوبیا، انقلابِ اسلامی کی گفتگو کو شدت پسنداور طالبانہ اسلام قرار دینے سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔
حوزہ علمیہ، دنیا کے معرفتی جغرافیہ کی پہچان کرنے اور اپنے مذہبی تعاملات کے ذریعہ ان چیلنجز کا جواب دینے کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔
مذاہب کے درمیان تعامل کے لیے اور بھی ضروری امور موجود ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں دینی اور مذہبی علمی معاشروں میں حوزہ علمیہ کے علماء کے نظریات کا تعارف؛ دوسرے مذاہب سے متعلق بین الاقوامی مسائل اور ان کے علماء کے ساتھ بات چیت کے طریقوں پر سیمینارز کا انعقاد اور علم؛ مذاہب کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بات چیت کی ضرورت؛ مذہب کی سماجیات کو سمجھنا، تاریخ اور مذاہب کی موجودہ حالت سے آشنائی؛ خالص اسلام کو متعارف کرانے کے لیے بین الاقوامی تحقیقوں اور ڈیزائن کا مشاہدہ؛ مختلف بین الاقوامی میدانوں اور سیمیناروں میں حوزوی افراد کے مؤثر داخلے کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دینے کی ضرورت، تمام انسانیت کے مفادات کو خطرے میں ڈالنے والے مسائل پر مذاہب کا باہمی تعاون، مشاورت اور ان مسائل کی عکاسی؛ انسانی روحانیت کے خلا کو پر کرنے کے لیے آج کی دنیا میں مذہبی اختراع کی ضرورت؛ ماہر مذہبی افراد، تنظیموں اور مذہبی میدان میں فعال افراد کے نیٹورک کی تشکیل کی ضرورت؛ انفعالی حالت سے نکل کر ادیان اور بین المذاہب تعاملات کے میدانوں میں فعال ہونے کی ضرورت اور دیگر مذاہب اور فرقوں میں اہل بیت علیہم السلام کے فرامین کو فروغ دینا وغیرہ ان اہم اور ضروری امور میں سے ہیں۔
دینی شعبوں میں موجودہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حوزہ علمیہ عمومی پالیسی، اہداف، ترجیحات، حکمت عملی اور متعلقہ ضوابط اور قوانین کی طویل مدتی، درمیانی مدت اور قلیل مدتی حوزہ علمیہ کی مذہبی سرگرمیوں کو دستاویزات کی بالادستی کے فریم ورک کے اندر منظور کرنے کے لیے نیز حوزہ علمیہ سرکاری اور غیر سرکاری بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعامل کے طریقہ کار کا مختلف مذاہب کے درمیان جائزہ لینے کے لیے پرعزم ہے۔ اس کے علاوہ، ان سرگرمیوں کے اقدامات کے عمل کی نگرانی اور اقدامات کے بہتر اجراء اور مرکز حوزہ میں تنظیمی عمل کے مناسب نفاذ کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر اہم مذہبی حالات اور واقعات کے موقع پر حوزہ کی بروقت موجودگی کے منصوبوں کو حاصل کیا جا سکے۔
حوالہ جات:
1. جیسا کہ سوره حدید کی آیهٔ کریمہ نمبر 25 میں آیا ہے: [لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ].
2. منجملہ سوره نساء کی آیت نمبر 46، جس میں آیاہے: [و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع بإذن اللّه].
3. منجملہ سوره مائده کی آیت نمبر 82، جس میں آیاہے: [وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ].
………………
تبصرہ کریں