ارتداد قرآن و احادیث کی روشنی میں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہم نے پچھلی تحریر میں ارتداد کے معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے ارتداد کی تقسیم اور اسکے شرائط پر ایک اجمالی نظر ڈالی اور ارتداد کے تاریخی سابقے کو بیان کرتے ہوئے کوشش کی کہ مرتد کی سزا کا اجمالی جائزہ لیا جائے ، پیش نظر تحریر کے اس حصے […]
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہم نے پچھلی تحریر میں ارتداد کے معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے ارتداد کی تقسیم اور اسکے شرائط پر ایک اجمالی نظر ڈالی اور ارتداد کے تاریخی سابقے کو بیان کرتے ہوئے کوشش کی کہ مرتد کی سزا کا اجمالی جائزہ لیا جائے ، پیش نظر تحریر کے اس حصے میں ہم کوشش کریں گے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ارتداد کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کریں کہ قرآن کریم نے ارتداد کے سلسلہ سے کس طرح ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جو دین کے سلسلہ سے شک و شبہہ کا شکار ہے اور ان لوگوں کا شکار ہو سکتے ہیں جو جال بچھائے ہوئے بیٹھے ہیں کہ دین حق پر چلنے والوں کو منحرف کیا جا سکے ۔
قرآن و احادیث میں ارتداد
قرآن کریم میں ارتداد کے سلسلہ سے دو طرح کی آیات ہیں پہلی قسم ان آیات کی ہے جن میں جن میں خود لفظ ارتداد یا اس کے مشتقات کا تذکرہ ہے دوسری وہ آیات ہیں جن میں صراحتا لفظ ارتداد تو بیان نہیں ہوا ہے لیکن اسکے مفہوم کو پیش کرنے کی کیا گیا ہے ۔
سب سے پہلے ہم ان آیا ت پر ایک نظر ڈالتے ہیں جن میں ارتداد و اسکے مشتقات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
الف : سورہ بقرہ کی ۲۱۷ نمبر آیت میں اس قسم کا مفہوم بیان ہوا ہے “اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر گیا اور اس حالت میں مر گیا کہ اس دنیا سے کافر اٹھا تو اس کے دنیا و آخرت کے اعمال ضبط کر لئے جائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو دوزخی ہیں اور انکا دائمی ٹھکانہ جہنم ہوگا [1]
ب: ائے ایمان لانے والوں اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کروگے جوکہ کافر ہو گئے تو وہ تمہیں گزشتہ حالت پر پلٹا دیں گے اور انجام کار تم گھاٹا اٹھانے والے میں قرار پاوگے [2]
ج: ائے ایمان لانے والوں تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے پلٹ جائے {تو یہ چیز خدا کے لئے کسی ضرر کا سبب نہ ہوگی } وہ ایسی قوم کو لائے گا جو اسکو دوست رکھتے ہوں اور وہ انکو دوست رکھتا ہوگا [3]
د: جولوگ ہدایت کی واضح نشانیوں کے آنے کے بعد بھی اپنے پیچھے کی طرف پلٹ گئے شیطان نے ان کے اعمال کو انکی نظر میں اچھا بنا دیا اور انکی آرزوں کو طولانی کر دیا [4]
بیان شدہ آیات وہ ہیں جہاں پر ارتداد اور اس سے متعلق الفاظ خود ذکر ہوئے ہیں اب کچھ ایسی آیات بھی قرآن کریم میں ہیں جہاں پر ارتداد کا لفظ یااس کے مشتقات تو بیان نہیں ہوئے ہیں لیکن مفہوم ارتداد کو بیان کیا گیا ہے مثلا
الف: اور وہ لوگ جو ایمان کے بعد کافر ہوگئے سوائے ان لوگوں کے جن پر دباو ڈالا گیا مگر انکا دل ایمان سے مطمئن تھا مگر وہ لوگ جنہوں نے اپنے سینے کو کفر کے لئے کھول دیا خدا کا غضب ان لوگوں پر اور سخت عذاب انکے ہی لئے ہے [5]
ب: جنہوں نے اس کے بعد انکار کیا وہ سب کے سب فاسق ہو گئے [6]
ج: اور ان سے اگر پوچھا جائے کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو انکا جواب ہوگا کہ ہم تو کھیل رہے تھے مذاق کر رہے تھے تو آپ ان سے کہہ دیجئے کیا تم لوگ خدا کے ساتھ مذاق کر رہے تھے اس کے ساتھ کھیل رہے تھے کیا خدا و رسول کا مذاق اڑا رہے تھے اب تمہاری معافی کا فائدہ نہی کہ تم کافر ہو گئے اگر ہم تم سے ایک گروہ کو انکے توبہ کی وجہ سے بخش بھی دیں تو دوسرے کو عذاب میں مبتلا کریں گے اس لئے کہ یہ مجرم تھے [7]
د: جو کفر کو ایمان کی جگہ قبول کر لے وہ راہ راست سے بھٹک گیا ہے[8] ۔
ھ: خدا ان لوگوں کی کیونکر ہدایت کرے گا جو ایمان لانے کے بعد انکار کر بیٹھے انہوں نے رسول کے حق ہونے کی گواہی دی انکے لئے واضح نشانیاں آ ئیں اللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا [9]
و: یہ لوگ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہیں نے { پیغمبر کی غیر موجودگی } میں کوئی غلط بات نہیں کہی ہے جبکہ انہوں نے کفر آمیز باتیں کہی ہیں اور یہ اسلام کے بعد اس کے منکر ہو گئے اور انہوں نے خطرناک فیصلہ کیا جب کہ اس تک نہیں پہنچ سکے یہ اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ خدا و رسول نے انہیں اپنے فضل سے بے نیاز بنا دیا اب اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے لئے بہتر ہے لیکن اگر یہ پھر جائیں تو پھر انکے لئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور انکا روئے زمین پر کوئی حامی و مددگار نہ ہوگا [10]
ارتداد کے سلسلہ سے قرآن کریم کا انتباہ :
قرآن کریم نے جہاں ارتداد کے حکم کو بیان کیا ہے وہیں اس کی سزا اور اس کے قبح کے پیش نظر اہل ایمان کو متوجہ بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی چال میں نہ پھنسیں جب کہ انہیں پھنسانے کی کوشش کی جائے گی نہ مشرکین یہ چاہیں کے کہ مسلمان اپنے دین پر ثابت قدم رہیں اور نہ ہی اہل کتاب دونوں ہی جانب سے مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی پوری کوشش ہو گی چنانچہ قرآن واضح طور پر انتباہ دے رہا ہے ہرگز ان لوگوں کی باتوں میں نہ آنا ملاحظہ ہوں یہ چند آیات جنہیں ہم بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں :
الف: اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھیئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ذریعے (ان کی آگاہی کی خاطر) نصیحت فرماتے رہئے تاکہ کوئی جان اپنے کئے کے بدلے سپردِ ہلاکت نہ کر دی جائے، (پھر) اس کے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی, اور اگر وہ (جان اپنے گناہوں کا) پورا پورا بدلہ (یعنی معاوضہ) بھی دے تو (بھی) اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے کئے کے بدلے ہلاکت میں ڈال دیئے گئے ان کے لئے کھولتے ہوئے پانی کا پینا ہے اور دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ کفر کیا کرتے تھے.
فرما دیجئے: کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیز کی عبادت کریں جو ہمیں نہ (تو) نفع پہنچا سکے اور نہ (ہی) ہمیں نقصان دے سکے اور اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دے دی ہم اس شخص کی طرح اپنے الٹے پاؤں پھر جائیں جسے زمین میں شیطانوں نے راہ بھلا کر درماندہ و حیرت زدہ کر دیا ہو جس کے ساتھی اسے سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آجا (مگر اسے کچھ سوجھتا نہ ہو)، فرما دیں کہ اللہ کی ہدایت ہی (حقیقی) ہدایت ہے، اور (اسی لیے) ہمیں (یہ) حکم دیا گیا ہے کہ ہم تمام جہانوں کے رب کی فرمانبرداری کریں[11]
ان دو آیتوں میں قرآن کریم واضح طور پر مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ ہرگز مشرکین کی باتوں میں نہ آنا اگر وہ تمہیں تمہارے دین کو چھوڑنے پر اصرار کریں تو ہرگز انکی بات کو نہ سننا اس لئے کہ انہوں نے اپنے دین کو تو کھیل بنا ہی لیا ہے تمہارے ساتھ بھی کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں قرآن واضح طور پر آواز دے رہا ہے ہرگز مادیت کی زرق برق کو دیکھ کر انکے ہمنوا نہ بن جانا یہ فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور اگر تمہیں ثابت قدم رہنا ہے تو تمہارے لئے قرآن کی تعلیمات پر عمل ضروری ہے قرآن سے وابستگی جتنی گہری ہوگی اتنا ہی تم دوسروں کے بہکاوے میں نہیں آو گے یہاں پر قرآن کریم بڑی خوبصورتی کے ساتھ مشرکین کے حیلوں اور ہتھکنڈوں کو شیطان کے وسوسوں کے ساتھ بیان کرتے ہوئے واضح کر رہا ہے کہ ہرگز ایسا نہ کرنا کہ ان کے وسوسوں کا شکار ہو کر اس راہ کو آدھا ہی چھوڑ دو جس پر چل کر تمہیں نجات ملنے والی تھِی اسی لئے قرآن نے ان لوگوں سے تشبیہ دی ہے جو بھٹک جاتے ہیں اور انہیں سیدھا راستہ نظر ہی نہیں آتا کبھی مادیت کی چکا چوند انہیں بہکا دیتی ہے کبھی مشرکین کے شیطانی وسوسے اور پھر انکے لئے دردناک عذاب کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا ہے
ب: بہت سے اہلِ کتاب یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بھی ایمان کے بعد کافر بنالیں وہ تم سے حسد رکھتے ہیں ورنہ حق ان پر بالکل واضح ہے[12]
اس آیت میں بھی قرآن اہل کتاب کے مومنوں سے حسد کو بیان کر رہا ہے کہ یہ تمہیں جو تمہارے دین سے منحرف کرنے کے درپے ہیں تمہاری کوئی بھلائی نہیں چاہتے ہیں انہیں حسد ہے حسد کی آگ میں جلنے بھلنے کی وجہ سے یہ نہیں چاہتے کہ تم راہ حق پر ڈٹے رہو اس لئے یہ ایسی کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ تم حقانیت کی ڈگر سے ہٹ جاو اور اس دین کو چھوڑ دو جو تمہاری نجات کا سبب ہے ۔
ج: اے ایمان والواگر تم نے اہلِ کتاب کےا ِس گروہ کی اطاعت کرلی تو یہ تم کو ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹا دیں گے[13]
اس آیت میں بھی قرآن کریم اہل ایمان کو متوجہ کر رہا ہے کہ ہرگز اہل کتاب کی اطاعت نہ کرنا انکی باتوں میں نہ آنا اس لئے کہ وہ اپنی بات مان کر تم سے راضی ہونے والے نہیں ہیں بلکہ وہ یہی چاہیں گے کہ تم راہ حق سے پلٹ جاو اسی بات کو قرآن کریم نے ایک اور مقام پر بہت واضح انداز میں اس طرح بیان کیا ہے :
“اور یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کی ملّت کی پیروی نہ کرلیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ہدایت صرف ہدایت پروردگار ہے اور اگر آپ علم کے آنے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کریں گےتو پھر خدا کے عذاب سے بچانے والا نہ کوئی سرپرست ہوگا نہ مددگار”[14]۔
قرآن کریم میں اور بھی دیگر ایسی آیات ہو سکتی ہیں جنہیں شاہد مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جن میں قرآن کریم نے یا ارتداد کے عذاب و سز اور کو ا رتداد اور اسکے مشتقات کے ذکر کے ساتھ بیان کیا ہے یامرتد نہ ہونے کے سلسلہ سے متنبہ کیا ہے لیکن ہم انہیں نمونوں پر اکتفا کرتے ہوئے ان روایات کی طرف آئیں گے جن میں ارتداد کا حکم واضح طور پر قتل کے طور پر بیان کیا گیا ہے یوں توبہت سی ایسی روایات ہیں جن میں ارتداد کی مذمت کی گئی ہے حتی نہج البلاغہ میں مولائے کائنات نے جہاں کچھ اپنی فضیلتوں کا تذکرہ کیا ہے وہاں پر بیان کیا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو دین پر ڈٹے رہے اور دین سے نہ پھرے [15] ۔ جس سے واضح ہے کہ دین پر ڈٹے رہنا کتنا اہم ہے اور دین سے پھر جانا کتنا مذموم ہے ہم ان تمام روایات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں پر محض ان روایات کو پیش کر رہے ہیں جن میں ارتداد کی سزا اور حد کو بیان کیا گیا ہے ۔
الف” مسلم نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے مرتد کے بارے میں سوال کیا آپ نے جواب میں فرمایا: مرتد وہ ہے جو اسلام سے منہ پھیر چکا ہواورجو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ پر نازل ہوا ہے اس کا انکار کرے ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہے اوراس کا قتل واجب ہے،اس کی زوجہ بغیرطلاق کے مرتد ہونے کی وجہ سے خودبخود اس سے جدا ہوجاۓ گی اور اس کا مال ودولت اس کی اولادکے درمیان تقسیم ہو گا[16] ظاہر ایہ روایت مرتد فطری کے حکم کو بیان کر رہی ہے ورنہ ایک اور جگہ پر ملتا ہے کہ کسی نے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو اسلام سے پلٹ گیا تھا تو امام علیہ السلام نے جواب دیا اگر وہ توبہ کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا [17]۔
ب: امام کاظم علیہ السلام سے کسی نے مسلمان کے نصرانی ہو نے کے بارے میں سوال کیا آپ نے جواب دیا اسے قتل کر دیا جائے گا[18] ۔
ج :عمار ساباطی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث کو بیان کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ آ پ نے فرمایا:” جومسلمان دائرہ اسلام سے نکل جائے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا انکار کرے اس کا خون ان سب کے لئے مباح ہے جنہوں نے اس شخص سے ان باتوں کو سنا ہے [19]
د: عبد اللہ بن ابی یعفور نے بزیع نامی ایک شخص کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے سوال کیا :یہ شخص گمان کرتا ہے کہ وہ خود پیغمبر ہے اورپیغمبری کا دعوا بھی کرتا ہے ، حضرت نے فرمایا : اگر تم نے اس شخص سے ایسے ادعا کرتے ہوئے سنا ہے تو اسے قتل کر دو [20]۔
ھ: جس نے بھی نبی مرسل کا انکار کیا یا انہیں جھٹلایا اس کا خون مباح ہے [21]
و: جس نے بھی دین خدا سے برات کا اظہار کیا وہ کافر ہے [22] اہلسنت کے یہاں بھی اسی قسم کی احادیث موجود ہیں کہ جس نے بھی دین کو تبدیل کیا اسکا حکم قتل ہے [23]علاوہ از ایں اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے اسی قسم کی احادیث نقل ہوئی ہیں جیسے کتاب التاج الجامع للاصول فی احادیث الرسول میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ وہ روایت ہے جسے بخاری ’مسلم ’نسائی ، ابوداود اورترمذی نے بھی نقل کیا ہے ،اور وہ روایت یہ ہے کہ :تین جگہوں پرانسان کا قتل کرنا جائز ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو دین خدا سے ہٹ گیا ہو اورمرتد ہوا ہو،[24]اس کے بعد عکرمہ سے نقل کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اسلام سے پلٹنے والے ایک گروہ کو قتل کر دیا یہ حدیث بھی اہل سنت کی تمام حدیثی کتابوں میں ابن عباس سے نقل ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :”’جو بھی دین سے پھرجائے اسے قتل کردو [25]۔ قابل ذکر ہے کہ مرحوم کلینی نے اپنی کتاب کافی میں کے باب حد المرتد میں ۲۳روایتوں کو نقل کرتے ہوئے مرتد کی سزا کو قتل کے طور پر بیان کیا ہے .[26] جبکہ مرحوم شیخ صدوق (متوفی ۳۸۱) نے اپنی کتاب «من لا یحضره الفقیه» میں ، ۱۱ روایتوں کو نقل کیا ہے جن میں ارتداد کی حد قتل بیان کی گئے ہے اور شیخ طوسی (متوفی ۴۶۰) نے «تهذیب الاحکام»، میں ۳۰ روایات کو نقل کیا ہے یہ وہ روایات ہیں جن سے فقہا مرتد کے وجوب قتل کے سلسلہ سے استناد کرتے ہیں [27] جاری ہے …
[1] ۔ وَ مَنْ یَرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دینِهِ فَیَمُتْ وَ هُوَ کافِرٌ فَأُولئِکَ حَبِطَتْ أَعْمالُهُمْ فِی الدُّنْیا وَ اْلآخِرَةِ وَ أُولئِکَ أَصْحابُ النّارِ هُمْ فیها خالِدُونَ سورہ بقرہ ۲۱۷
[2] ۔ یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِنْ تُطیعُوا الَّذینَ کَفَرُوا یَرُدُّوکُمْ عَلی أَعْقابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خاسِرینَ آل عمران ۱۴۹
[3] ۔یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللّهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَهُ مائدہ ۵۴
[4] ۔الَّذینَ ارْتَدُّوا عَلی أَدْبارِهِمْ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدَی الشَّیْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَ أَمْلی لَهُمْ محمد ۲۵
[5] ۔ مَنْ کَفَرَ بِاللّهِ مِنْ بَعْدِ إیمانِهِ إِلاّ مَنْ أُکْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِاْلإیمانِ وَ لکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللّهِ وَ لَهُمْ عَذابٌ عَظیمٌ ۔ نحل ۱۰۶
[6] ۔وَ مَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذلِکَ فَأُولئِکَ هُمُ الْفاسِقُونَ
سوره نور 55
[7] ۔ وَ لَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّما کُنّا نَخُوضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ أَ بِاللّهِ وَ آیاتِهِ وَ رَسُولِهِ کُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ.لا تَعْتَذِرُوا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ إیمانِکُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْکُمْ نُعَذِّبْ طائِفَةً بِأَنَّهُمْ کانُوا مُجْرِمینَ
سوره توبه آیه 65 و 66
[8] ۔ وَ مَنْ یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِاْلإیمانِ فَقَدْ ضَلَّ سَواءَ السَّبیلِ سوره بقره 108
[9] ۔کَیْفَ یَهْدِی اللّهُ قَوْمًا کَفَرُوا بَعْدَ إیمانِهِمْ وَ شَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَ جاءَهُمُ الْبَیِّناتُ وَ اللّهُ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّالِمینَ
سوره ال عمران 86
[10] ۔« یَحْلِفُونَ بِاللّهِ ما قالُوا وَ لَقَدْ قالُوا کَلِمَةَ الْکُفْرِ وَ کَفَرُوا بَعْدَ إِسْلامِهِمْ وَ هَمُّوا بِما لَمْ یَنالُوا وَ ما نَقَمُوا إِلاّ أَنْ أَغْناهُمُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ یَتُوبُوا یَکُ خَیْرًا لَهُمْ وَ إِنْ یَتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّهُ عَذابًا أَلیمًا فِی الدُّنْیا وَ اْلآخِرَةِ وَ ما لَهُمْ فِی اْلأَرْضِ مِنْ وَلِیٍّ وَ لا نَصیرٍ
سوره توبه آیه 74
[11] ۔
وَ ذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِباً وَ لَهْواً وَ غَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَ ذَکِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَ لاَ شَفِيعٌَ إِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لاَ يُؤْخَذْ مِنْهَا أُولٰئِکَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا کَسَبُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَاکَانُوا يَکْفُرُونَ
قُلْ أَ نَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لاَ يَنْفَعُنَا وَ لاَ يَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ الَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ لْهُدَى وَ أُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ( انعام ۷۰۔ ۷۱ )
[12] ۔ وَدَّ کَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ بقرہ ۱۰۹
[13] ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقاً مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ يَرُدُّوکُمْ بَعْدَ إِيمَانِکُمْ کَافِرِينَ ۱۰۰ آل عمران
[14] ۔ وَ لَنْ تَرْضَى عَنْکَ الْيَهُودُ وَ لاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَ لاَ نَصِيرٍ ، آل عمران ۱۲۰، ۱۲۱،
[15] ۔ ۔ الحمدلله الذى لم يصبح بى ميتا و لا سقيما و لا مضروبا على عروقى بسوء و لا ماخوذا باسوء عملى و لا مقطوعا دابرى و لا مرتدا عن دينى و لا منكرا لربى و لا مستوحشا من ايمانى خطبہ ۲۰۶۔
[16] ۔”قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام عَنِ الْمُرْتَدِّ فَقَالَ مَنْ رَغِبَ عَنِ الْإِسْلَامِ وَ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله بَعْدَ إِسْلَامِهِ فَلَا تَوْبَةَ لَهُ وَ قَدْ وَجَبَ قَتْلُهُ وَ بَانَتْ مِنْهُ امْرَأَتُهُ وَ يُقْسَمُ مَا تَرَكَ عَلَى وُلْدِهِ،۔ الكافي (ط – الإسلامية)؛ ج6، ص: 174
[17] ۔”فِي رَجُلٍ رَجَعَ عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ يُسْتَتَابُ فَإِنْ تَابَ وَ إِلَّا قُتِلَ، الكافي (ط – الإسلامية)؛ ج7، ص: 256
[18] ۔ سَأَلْتُهُ عَنْ مُسْلِمٍ تَنَصَّرَ قَالَ يُقْتَلُ ، مسائل علي بن جعفر و مستدركاتها؛ ص: 292
[19] ۔ كُلُّ مُسْلِمٍ بَيْنَ مُسْلِمَيْنِ ارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ وَ جَحَدَ مُحَمَّداً ص نُبُوَّتَهُ وَ كَذَّبَهُ فَإِنَّ دَمَهُ مُبَاحٌ لِكُلِّ مَنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْهُ،الكافي (ط – الإسلامية)؛ ج7، ص: 258
[20] ۔” إِنْ سَمِعْتَهُ يَقُولُ ذَلِكَ فَاقْتُلْهُ”الكافي (ط – الإسلامية)؛ ج7، ص: 258
[21] ۔ من جحد نبیاً مرسلًا نبوته و کذّبه فدمه مباح ،من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 104 و وسائل الشیعه، ج 28، ص 323
[22] ۔ من بری ء من دین اللَّه فهو کافرمن لایحضره الفقیه، ج 4، ص 104؛ وسائل الشیعه، ج 28، ص 323،
[23] ۔ من بدّل دینه فاقتلوه؛صحیح البخارى، ج 4، ص 21؛ ج 8، ص 50 و مستدرک الوسائل، ج 18، ص 163
[24] ۔«لا يحلّ دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلّا اللّه و انّي رسول اللّه إلّا بإحدى ثلاث: الثيب الزاني، و النفس بالنفس، و التارك لدينه المفارق للجماعة» التاج الجامع للاصول فی احادیث الرسول ج٣،ص١٧،١٨،مسند احمد، ج 1، ص 63؛ ج 6، ص 205 و سنن ابن ماجه، ج 2، ص 847
[25] ۔ من بدل دینہ فاقتلوہ’ مجتمع الزوائد ہیثمی :٦ / ٢٦١
[26] ۔ کافی ، جلد ۷ ، ۲۵۶
[27] ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : وسائل الشیعه، ج 28، باب 7 از ابواب مرتد
تبصرہ کریں