اردوگان اور ہرزوگ بھائی بھائی!
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بدھ 9 مارچ 2022ع کو غاصب یہودی ریاست کا سربراہ اسحاق ہرزوگ نے ترکی کے اخوانی صدر رجب طیب اردوگان کی سرکاری دعوت پر ترکی کا دورہ کیا۔ 2008ع کے بعد یہ کسی اعلی اسرائیلی اہلکار کا ترکی کا پہلا اعلانیہ دورہ تھا۔
سنہ 2010ع میں اردوگان کا بھجوایا ہؤا امدادی بحری جہاز “مرمرہ” غزہ کے ساحل پر پہنچا تو صہیونی فوجی دستوں نے اس پر حملہ کیا اور متعدد افراد کو قتل کیا۔ 2018ع میں غاصب ریاست نے غزہ پر حملہ کیا اور بےشمار فلسطینیوں کو قتل کیا تو اردوگان نے یہودی ریاست کے سفیر کو انقرہ سے چلتا کردیا؛ اور یوں ترکی اور غاصب ریاست کے درمیان تعلقات میں کشیدکی آئی۔
عجیب ہے کہ جس ریاست کو ترکی جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے ان ممالک کی شرطیں قبول کرنا پڑتی ہیں، مگر ہرزوگ نے کچھ شرطین جناب اردوگان سے منوا کر ترکی کا دورہ کیا۔
صہیونی ریاست نے ہرزوگ کے دورے سے قبل شرط رکھی تھی کہ ترکی کو فلسطین کی مقاومتی تنظیم حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ “حماس” کی حمایت سے دستبردار ہونا چاہئے اور ترکی میں حماس کا دفتر بند کرنا چاہئے!
صہیونیوں کی شرطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رجب اردوگان نے خود ہی غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے قدم اٹھایا ہے گوکہ انقرہ کی اخوانی حکومت میں اس طرح کا اشتیاق کئی برسوں سے دکھائی دے رہا تھا۔ بہرحال جو تعلق اس انداز سے بحال ہو جاتا ہے اس میں توازن کی توقع رکھنا بے جا ہوگا اور غاصب اسرائیل کو ہی ترکی کے مقابلے میں سیادت اور فوقیت حاصل ہوگی۔
اردوگان حالیہ چند برسوں کے دوران اسرائیل کی فلسطین دشمن پالیسیوں کے خلاف سخت اور تلخ لب و لہجے پر مبنی موقف اپناتے رہے تھے اور ان کا موقف ابلاغیاتی ہنگامہ خیزی کے ہمراہ سامنے آتا رہتا تھا۔ ایک ایسی ریاست کے ساتھ تعلقات کی طویل المدت خواہش، جس نے گذشتہ برسوں میں فلسطین کے خلاف بہت سارے ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اب یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا ماضی کا موقف – جو صرف زبانی کلامی تھا – ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہ تھا اور یہ موقف ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لئے ہی تھا؛ ان کا فلسطینی کاز کا جھوٹا دفاع مسلم ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کا بہانہ تھا۔ انھوں نے در حقیقت ان مواقع کو – خود کو – اسلامی دنیا میں ایک مُقتدیٰ اور قائد و زعیم کے طور پر متعارف کرانے اور ایک اعلیٰ نظریاتی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا۔
اردوگان کے ارادے اب طشت از بام ہوچکے ہیں اور غاصب ریاست کے سربراہ کے دورہ ترکی کے بعد یہ رسوائی انتہا تک پہنچ گئی ہے؛ جیسا کہ انھوں نے ہرزوگ کے دورے کو دو طرفہ تعلقات میں ایک نیا موڑ قرار دیا اور حتی کہ اسرائیل کو بھائی قرار دیا: اردوگانی-یہودی مواخات! (1)
اس کے باوجود کہ اردوگان کسی صورت میں بھی اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ تعلق اور تعاون کے خاتمے کے روادار نہیں رہے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ عمومی فکری اور عملی رجحانات سے فائدہ لے کر عثمانی سلاطین کی جانشینی حاصل کرکے ایک بار پھر عرب دنیا پر مسلط ہونے کو سپنے دیکھ رہے ہیں اور اسی بنیاد پر انھوں نے شام، لیبیا اور عراق میں اپنے فوجی دستے بھی تعینات کئے ہیں اور قطر میں ایک اڈہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؛ چنانچہ شاید ان دنوں وہ عرب دنیا کے عمومی رجحان سے متاثر ہوکر بھی، اسرائیل کی طرف مائل ہوئے ہوں؛ اور اب جبکہ مصر اور اردن کے بعد سعودی عرب، امارات، بحرین، اور مراکش بھی یہودی ریاست کے ساتھ بحالی کی دوڑ میں مصروف ہیں، اور خطے کی زعامت کا مسئلہ نئے رجحانات سے متاثر ہوکر نئی ڈگر پر چل نکلا ہے تو اردوگان بھی ان ہی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں؛ کیونکہ وہ مزید فلسطین کی آزادی کے حوالے سے اپنی مثالیت کے پرفریب نعرے کے ساتھ ان ممالک کے ساتھ لین دین نہیں کرسکتے اور ان عربوں کو اس حوالے سے مزید دھوکہ نہیں دے سکتے جن کے حکمران فلسطین کو بھول کر فلسطین کے غاصبوں کے آگے سجدہ ریز ہوچکے ہیں۔ [یوٹرن لینے اور رنگ بدلنے کا اردوگانی اسٹائل]۔
اردوگان نے غاصب صہیونی دشمن کی تمام شرطیں قبول کرلیں تو ہرزوگ نے ان کی دعوت قبول کرلی؛ سوال یہ ہے کہ “ترکی میں حماس کا مستقبل کیا ہوگا؟”؛ حماس کے اردوگان کی انصاف و ترقی پارٹی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور اردوگان کے فلسطین کے حوالے سے ظاہری مدافعانہ کردار کا ایک سبب یہ بھی تھا؛ لیکن اردوگان نے اسرائیل کے کہنے پر ان قربتوں کو تضاد اور تبایُن کی طرف دھکیل دیا ہے۔
بعض خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی نے کافی عرصے سے خطے کے بعض ممالک کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا اور عین ممکن ہے کہ ان مذاکرات سے ترکی میں حماس کے دفتر کی کسی دوسرے ملک منتقلی مقصود ہو۔ ادھر ترکی کی اخوانی حکومت نے حماس [میں “اپنے سابقہ ہم مسلکوں”] کو بتایا ہے کہ اس کے عسکری اہلکار اور کارکنان کو ترک سرزمین سے چلے جانا چاہئے اور حماس کے دفتر کی سرگرمیوں کو صرف سیاسی حدود میں محدود رہنا چاہئے؛ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل کے اقدامات کی منصوبہ سازی پہلے ہی انجام پا چکی ہے۔
حماس نے ہرزوگ کے دورہ ترکی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں غم و غصے کا عنصر جھلک رہا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ “جن ممالک کو مقبوضہ فلسطین کی تزویراتی گہرائی سمجھا جاتا ہے، ان میں غاصب صہیونی ریاست کے اہلکاروں کا آنا جانا، باعث تشویش ہے، اور ترکی سمیت مسلم ممالک کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کو خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع نہ دیں”۔
حالات بتا رہے ہیں کہ ترک صدر غاصب اسرائیلی ریاست کے ساتھ سنجیدہ اور گہرے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے درپے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے ماحول سازی کے مقصد سے اپنا اسرائیل مخالف موقف خودمختار فلسطینی اتھارٹی کی سطح پر تنزّل دے۔
مجموعی طور پر اردوگان کے دوہرے رویوں نے ثابت کیا ہے کہ ترکی کا سیاسی ڈھانچہ متزلزل ہے اور بین الاقوامی سطح پر صدر اردوگان کے فیصلے ناقابل پیش بینی (unforeseeable) ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی اور عالم اسلام میں بھی اس ملک کی ساکھ کو زبردست دھچکا لگ رہا ہے۔
اور دوہری پالیسیاں اور مختلف اوقات میں ان کا منافع پرستانہ رویہ، انہیں پہلے سے زیادہ ناقابل اعتبار بنا دے گا اور ان کی پوزیشن کو نقصان پہنچائے گا۔ یہ کیفیت ملک کے اندر انتخابات کی آمد پر، کچھ زیادہ نمایاں ہے۔ ترک عوام نے یہودی ریاست کے سربراہ کے دورے پر شدید احتجاج کیا، اسرائیلی پرچم کو نذر آتش کیا اور صہیونی دشمن کے خلاف نعرے لگا کر اردوگان کے نعروں اور اقدامات کی مخالفت کا اعلان کیا۔
جاری۔۔۔
تبصرہ کریں