فاران تجزیاتی خبرنامہ: جب ترکی نے 2000 ءکی دہائی کے اوائل میں ” اپنےپڑوسیوں کے ساتھ مسائل کو صفر پر لانے” کی پالیسی کے تحت، جو کہ انصاف و ترقی پارٹی کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی تھی، خود کو خطے میں نئے انداز سے پیش کیا، تو اردگان، جو اس سے قبل استنبول کے میئر رہ چکے تھے، اس بار بطور وزیرِاعظم وہ پالیسی نافذ کرنے والے بنے جو خطے کو آج کے حالات سے مختلف بنا سکتی تھی۔
اردگان کی وزارتِ عظمیٰ اور صدارت کے ابتدائی برسوں میں، 2012 سے قبل، جب دہشت گردوں نے شام پر حملے شروع نہیں کیے تھے، عوامی سطح پر یہ اعتماد پایا جاتا تھا کہ اردگان کا وعدہ حقیقی ہے جب انہوں نے کہا: “ہم اس حکمت عملی پر عمل کریں گے اور اسی لیے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اور شام کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا ہو۔” لیکن 2012 کے بعد شام کی جنگ میں اردگان کی دہشت گردوں کی حمایت اور شام میں بدامنی پیدا کرنے کی پالیسی سے یہ واضح ہو گیا کہ وہ نہ صرف شام کے بحران میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ ان کی “پڑوسیوں کے ساتھ مسائل صفر پر لانے” کی حکمت عملی محض ایک دعویٰ تھی۔
اردگان کی پالیسیوں نے شام اور ترکی کے تعلقات کو، جو 2012 سے پہلے تقریباً اچھے تھے، مزید خراب کیا۔
وجہ یہ تھی کہ
اردگان دراصل خلافتِ عثمانیہ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو اب بھی خود کو ایک ایسے خلیفہ کے طور پر دیکھتے ہیں جو عثمانی سلطنت کے اختتام کے بعد شام کے علاقوں سے محروم ہو گیا تھا۔ لیکن اردگان یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر موجودہ جغرافیائی تقسیم کو پچھلی صدی کے حکمرانوں کی بنیاد پر تبدیل کرنے کی بات کی جائے تو خطے میں بہت سی تبدیلیاں ہوں گی، اور ترکی کے موجودہ دعوے اور اردگان کی حیثیت غیر اہم ہو جائے گی۔
حال ہی میں، انصاف و ترقی پارٹی کی آٹھویں علاقائی کانفرنس کے دوران اردگان کی اس “خودساختہ سوچ” کا مشاہدہ کیا گیا، جب انہوں نے شام کی صورتحال اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا:
“اپوزیشن کے رہنما ہمیشہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ترکی شام میں کیا کر رہا ہے؟ اور میں ان سے کہتا ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ ترکی شام میں کیوں ہے اور اس کا یہ موقف کیوں ہیں کہ شام میں ڈٹا رہے؟ اگر دوسری جنگِ عظیم کے بعد خطے کو تقسیم نہ کیا جاتا تو حلب، شام، حماہ اور حمص بھی غازی عنتب اور استنبول کی طرح ترکی کے شہر ہوتے اور ہم آج بھی ایک ہی ملک میں ہوتے۔”ترکی کے صدر کی موجودہ پالیسی اور ان کے پوشیدہ اور ظاہر مقاصد کے حوالے سے شام میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1- ترکی کی شام میں مداخلت
شام کی خانہ جنگی میں ترکی کی مداخلت ابتدا میں سفارتی نوعیت کی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فوجی مداخلت میں تبدیل ہو گئی۔ گزشتہ 13 سالوں میں ترکی کی مداخلت مرحلہ وار بڑھتی رہی۔ یہ مداخلت سفارتی کوششوں سے شروع ہو کر 2011 میں دہشت گردوں کو فوجی مدد فراہم کرنے، 2012 میں سرحدی جھڑپوں، اور 2016 سے 2022 کے درمیان براہِ راست فوجی کارروائیوں تک پہنچی۔ آخر کار، ترکی نے “تحریر الشام” اور اس سے منسلک گروہوں کی کھلم کھلا حمایت کی اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کیا تاکہ شام کی قانونی حکومت، بشار الاسد کو گرا دیا جائے اور شام کے شہر اور دارالحکومت پر قبضہ کیا جا سکے۔
ترکیہ قفقاز، چیچنیا اور دیگر علاقوں سے دہشت گردوں اور ان کے خاندانوں کو شام تک لے جانے کے لیے ایک گزرگاہ بن چکا تھا۔ اس کے پیشِ نظر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ترکی کو دہشت گردی کا مسئلہ درپیش ہے تو گزشتہ 13 سالوں سے اس کی سرحدیں دہشت گردوں کی گزرگاہ کیوں بنی رہیں؟
2- اردگان کا متضاد رویہ
شام کی حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام کے دمشق پر قبضے کے بعد اردگان کا ایک بیان ان لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنا جو گزشتہ ایک دہائی سے خطے میں ترکی کے رویے کو دیکھ رہے تھے۔ اردگان نے کہا:
“ترکی کی دوسری صدی آغاز ہو چکا ہے، اور ہم ایک نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔”
یہ بیان امریکی حکام کے بیانات سے مشابہ ہے، جو داعش کو پیدا کرنے، انہیں بھاری ہتھیاروں سے لیس کرنے، اور عراق و شام کے مظلوم عوام پر مسلط کرنے کے بعد ان کے خاتمے کا ڈھونگ رچاتے ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ خونریز گروہ کہاں سے پروان چڑھے۔
اسی طرح، اردگان بھی آج دہشت گردوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو چھپاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف سخت بیانات دیتے ہیں۔
3- اردگان کی موقع پرستی
اردگان کو ایک ایسا موقع پرست کہا جا سکتا ہے جو شام کے عوام کی بدترین معاشی حالت اور ان کی ناامنی و بھوک کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں، ترکیہ نے شام کی مدد کرنے کے بجائے، “آستانہ مذاکرات” میں کیے گئے وعدوں کو نظرانداز کیا اور مسلح گروہوں کے ذریعے شام میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا۔
روس-یوکرین جنگ اور لبنان و غزہ میں مزاحمتی محور کی مصروفیت کو موقع سمجھتے ہوئے، اردگان نے شام میں اپنے خفیہ مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے ایک طرف فلسطین کے عوام کی حمایت اور مزاحمت کا دعویٰ کیا اور اسرائیلی حکومت کی مذمت کی، اور دوسری طرف، اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کی شام کے مرکز کی طرف پیش قدمی کو منظم کیا تاکہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کیا جا سکے اور مزاحمتی محور کی مشرق وسطی تک رسائی کو ختم کیا جا سکے۔
4- غلط اندازے اور خطرناک کھیل
اگرچہ اردگان بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو اپنی فتح سمجھ رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی روشن مستقبل نظر نہیں آتا۔ تحریر الشام اور اس سے منسلک چھ گروہ، جن کے مقاصد ایک دوسرے سے مختلف اور بعض اوقات متضاد ہیں، ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
ترکی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جو مسلح گروہ آج ان کی حمایت سے چل رہے ہیں، کل انہی کے خلاف ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ اردگان نے ایک خطرناک کھیل شروع کر دیا ہے، اور اگرچہ ان کے حکام کا خیال ہے کہ وہ اس کھیل کو قابو میں رکھ سکتے ہیں، لیکن یہ بازی ترکیہ کے لیے طویل مدتی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
اردگان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو جوا انہوں نے شروع کیا ہے، جس نے آج شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہ مستقبل قریب میں ان کی حکومت کے لیے وہی انجام لے کر آ سکتا ہے جو بشار الاسد کے لیے سوچا گیا تھا۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں